شریف برادران کی سعودی عرب کے دورے سے واپسی کے بعد آئندہ ایک دو ماہ (ن) لیگ کی سیاست کے لیے بہت اہم ہوں گے۔ اپنے گزشتہ کالم ’’نواز شریف سے جاتی امراء میں کون ملا؟؟‘‘ میں، میں نے اپنے تجزیئے میں یہ امکان ظاہر کیا تھا کہ شریف برادران اپنے لیے این آر او مانگنے سعودی قیادت کے پاس نہیں پہنچے بلکہ اُنہیں وہاں بلایا گیا جس کا فوکس سعودی عرب کے اپنے اندرونی اور بیرونی مسائل ہیں جن کو حل کرنے کے لیے انہیں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔
میری نظر میں شہباز شریف کو بلانے کی وجہ یہ تھی کہ کئی دوسروں کی طرح پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سعودی قیادت کا اندازہ ہے کہ شہباز شریف پاکستان کے اگلے وزیراعظم ہوں گے اس لیے اُن سے اُن معاملات پر ابھی بات ہو جائے جو دونوں ممالک کے تعاون کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ شریف برادران اس دورے کے دوران خادمین حرمین شریفین سے دعا اور دوا کی درخواست کر سکتے ہیں تاکہ وہ اور (ن) لیگ غیبی قوتوں کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔
جس دن (گزشتہ سوموار) میرا یہ کالم شائع ہوا، اُسی روز میں نے شریف برادران کے ایک قریبی اور با خبر ذرائع سے بات کی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ سعودی عرب میں ہو کیا رہا ہے؟ یہاں شریف برادران سے تحقیقات اور اُن کی طرف سے ملک چھوڑ کر وہاں پناہ لینے کی باتیں ہو رہی تھی لیکن مجھے بتایا گیا کہ دونوں بھائی سعودی حکمرانوں کی دعوت پر سعودی عرب پہنچے جہاں میٹنگز کا مقصد سعودی عرب کی یہ خواہش تھی کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان موجودہ تعاون جاری رہنے چاہیے۔
جیسا کہ میرا تجزیہ تھا، ذرائع کے مطابق شہباز شریف کو سعودی حکمران، پاکستان کے ممکنہ مستقبل کے وزیراعظم کی حیثیت سے ہی ملے۔ جب میں نے ذرائع سے پوچھا کہ کیا شریف برادران نے کسی این آر او کی درخواست کی یا کم از کم غیبی قوتوں کے اثرات سے بچنے کے لیے مدد مانگی؟ اس پر مجھے بتایا گیا کہ کسی این آر او کی کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی غیبی قوتوں کے لیے کسی دعا یا دوا کی درخواست کی گئی۔
ذرائع نے البتہ یہ ضرور کہا کہ ہوسکتا ہے سعودی حکمران خود سے ہی دعا اور دوا کا بندوبست کرلیں تاکہ (ن) لیگ کو آئندہ قومی الیکشن کے دوران غیبی قوتوں کے سائے سے پاک رکھا جائے۔ اب ہوتا کیا ہے اس کے لیے آئندہ ایک دو ماہ بہت اہم ہوں گے، جس دوران سیاسی نظر رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ محسوس کر پائے گا کہ دعا اور دوا کا کتنا اثر ہوا۔
(ن) لیگ اور شریف برادران کو یہ پتا ہے کہ میاں نواز شریف خود آئندہ الیکشن نہیں لڑ سکتے لیکن اس کے باوجود لیگی پر امید ہیں کہ 2018 کا الیکشن (ن) لیگ ہی جیتے گی۔ لیکن انہیں خطرہ ہے کہ کوئی سازش، کوئی قوت اُن کے لیے الیکشن کو مشکل نہ بنا دے۔ (ن) لیگ کی کوشش ہے کہ کسی طرح غیبی طاقتوں کو نیوٹرل کیا جائے۔ اب کیا ہوگا اس کے لیے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔
جہاں تک سعودی عرب کے شاہی خاندان کا تعلق ہے وہ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ضرور خواہش کرے گا کہ شہباز شریف ہی وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالیں کیوں کہ اُن کے شریف خاندان کے ساتھ دیرینہ تعلقات استوار ہیں اور سعودی عرب کو جس صورتحال کا اس وقت سامنا ہے اس کے تناظر میں وہ چاہیں گے کہ پاکستان کی حکومت، فوج اور انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ اُن کی مشکلات اور مسائل کو بھائیوں کی طرح سمجھیں اور حل کرنے میں مدد دیں۔
لیکن شریف برادران کے دورہ سعودی عرب نے پاکستان کے اندر سیاست میں مزید گرما گرمی پیدا کی اور اس شبہ کو ہوا دی کہ کوئی این آر او ہونے جا رہا ہے۔ سوال یہ بھی اٹھایا گیا کہ شہباز شریف کو سعودی عرب کیوں بلایا گیا؟ بات تو ٹھیک ہے جب وزارت عظمی کے امیدوار تین ہیں تو خصوصی کرم صرف ایک پر کیوں؟
ممکنہ طور پر شہباز شریف کے ساتھ ساتھ عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری بھی وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں اور ان میں سے کوئی بھی الیکشن جیت کر وزیراعظم بن سکتا ہے تو پھر سعودی حکمرانوں نے صرف شہباز شریف کو ہی کیوں بلایا؟
اس امتیازی سلوک کے تناظر میں مطالبہ تو بنتا ہے کہ سعودی عرب دو مزید خصوصی طیارے پاکستان بجھوا کر عمران خان اور بلاول زرداری کو بھی سعودی عرب کا دورہ کروائیں۔
زبیدہ آپا ہمیشہ امر رہیں گی، مگر ہر شام اب وہ نہیں آئیں گی کیونکہ 2018 کا سورج پہلے ہی ہفتے میں ایک درخشاں تارہ توڑ گیا؛ عمر کی 70 سے زائد کی بہاریں دیکھنے والی معروف شخصیت زبیدہ طارق کی آنکھیں ہمیشہ کےلیے بند کر گیا۔ آج نہ جانے کتنے دل اداس ہوں گے۔ نگاہوں میں آنسو ہوں گے، اور لبوں پہ دعا ہو گی کہ رحمت العالمین زبیدہ آپا کے درجات بلند فرمائے، آمین۔
زبیدہ آپا پاکستانی معاشرے کا ایسا کردار تھیں جو طبقے کے ہر فرد کی آپا تھیں۔ چاہے کوئی ان کا ہم عمر ہی کیوں نہ ہو، انہیں زبیدہ طارق کے بجائے زبیدہ آپا کے نام سے ہی مخاطب کر تا تھا۔ شگفتہ انداز، زبان میں چاشنی اور شخصیت میں بلا کی خود اعتمادی کے موتیوں نے آپا کو تاریخ میں امر بنا دیا۔ وجہ شہرت تو ان کے کامیاب ٹوٹکے تھے مگر ہانڈی کے تیار کردہ پکوانوں کی وجہ سے ان کا ناتہ خاص بن چکا تھا کیونکہ وہ عزت و محبت کا مجسمہ تھیں۔
فاطمہ ثریا بجیا اور انور مقصود جیسے عظیم مصنفین سے خونی رشتے کے تعلق کے باوجود وہ بے مثل شخصیت تھیں جن کا کوئی ثانی بھی نہیں تھا، ڈپلیکیٹ کاپی بھی نہیں تھا۔ ہاں! ٹیکنالوجی کی دھندلی ہواؤں نے زبیدہ آپا کی شخصیت پر بھی اثر کیا تھا۔ ٹوٹکوں کا مذاق بھی اڑایا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ رنجیدہ بھی ہوتی تھیں۔
ملاقاتوں میں سلام کے بعد ہر ایک کو دعا دینا ان کی شخصیت کا خوبصورت پہلو تھا۔ مگر اب ہر شام نہ آپا ہوں گی، نہ وہ دعائیں ہوں گی؛ مگر یادیں ہمیشہ تازہ رہیں گی۔ جب بھی ٹوٹکوں کی بات ہو گی، آپا کی یاد ہر ایک کو آئے گی۔
بناؤ سنگھار میں بھی کوئی ان کی شخصیت کو مات نہ دے سکا۔ قوسِ قزح کے سارے رنگ تو ان کی خوشنما ساڑھیوں میں ہوتے تھے۔ رنگ برنگی چوڑیوں کی چھن چھن ان پر خوب جچتی تھی۔ زیورات کے دلفریب کلیکشن نے انہیں ملکہ ترنم نور جہاں کے بعد انگوٹھی کا نگینہ بنا دیا تھا۔
ریٹائرمنٹ کی عمرمیں بھی زبیدہ آپا ورکنگ وومن تھیں جنہوں نے آخری دن تک کام کیا تھا، جنہوں نے امورِ خانہ کے ایسے سبق پڑھائے جو اب کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہیں۔ سلیقے اور طریقے کے سارے ڈھنگ ایک ایک کرکے اس قوم کی بیٹیوں کو سمجھادیئے، بونس میں دعائیں بھی دے دیں۔ اس لیے آج زبیدہ آپا معاشرے کے ہر طبقے کی دعاؤں کی حقدار ہیں، جن کی وہ آپا تھیں۔ اسی لیے میری شدید خواہش بھی ہے اور اہلِ وطن سے درخواست بھی کہ ممکن ہو تو ان کے ابدی گھر پر پھولوں کی پتیاں اور مغفرت کی آیتیں ہمیشہ نچھاور کرتے رہیں کیونکہ آپا تو ہمیشہ رہیں گی۔ یادوں میں، باتوں میں، عیدوں میں، محفلوں میں… ہمیشہ زندہ رہیں گی؛ اور اپنی داستان سناتی رہیں گی۔
تزئین حسن کے قلم سے
مشرق وسطیٰ میں رہائش اور ہوم اسکولنگ کے دوران اپنے بچوں کی کتابیں پوری پوری پڑھنا میرا دلچسپ مشغلہ رہا۔ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا اور خوشی ہوتی کہ یہ بچے خوش قسمت ہیں جنہیں اپنے بچپن میں ہمارے مقابلے میں بہت بہتر دینی اور دنیاوی نصاب میسر ہیں۔ بچے کوئی دو سو کلو میٹر دور تبوک شہر کے ایک انڈین اسکول میں رجسٹرڈ تھے اور اسکول سسٹم کے تحت ان کا ممتحن سال میں ایک مرتبہ آکر امتحان لیتا مگر بچوں کو پڑھانا اور نصاب کی تکمیل میری ذمہ داری تھی۔ غالباً 11-2010 کی بات ہے۔ بچوں کے انگریزی کے انڈین نصاب میں بچندری پال نامی خاتون کے بارے میں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ بھارت کی پہلی خاتون تھیں جو ماؤنٹ ایورسٹ تک پہنچیں۔ بچوں کےلیے لکھے گئے اس مختصر سے مضمون میں مصنف نے کوہ پیما خاتون کی زندگی اور مشکلات سے لڑجانے والی فطرت کو بہت خوبصورتی سے کہانی کی صورت سمویا ہوا تھا۔
بھارتی نصاب پڑھاتے ہوئے میری کوشش ہوتی کہ جہاں ایسے موضوعات سامنے آئیں جن سے بچے کو اس کی قومی شناخت دی جارہی ہو اور اس پر فخر کرنا سکھایا جارہا ہو، وہاں میں بچوں کو پاکستانی کی حیثیت سے شناخت بھی موضوع کے حوالے سے دینے کی کوشش کروں۔
2011 تک کسی پاکستانی خاتون نے ماؤنٹ ایورسٹ سر نہیں کیا تھا مگر میرے علم میں تھا کہ مردوں میں یہ کام کوئی کرچکا ہے۔ مگر نصاب میں تو دور کی بات، نذیر صابر یا کسی دوسرے پاکستانی کوہ پیما کے بارے میں اخبارات میں بھی ایک آدھ مضمون ہی مشکل سے خانہ پری کے طور پر ہی شائع ہوا ہوگا۔ الیکٹرونک میڈیا کے کسی پروگرام کا کم ازکم مجھے علم نہیں۔ ہمارے مارننگ شوز کے اینکرز کو بھی شادی بیاہ کی رسموں اور ہانڈیوں سے فرصت نہیں۔ عام طور سے وہ صرف اداکاروں اور کرکٹرز ہی کو قوم کےلیے سلیبریٹیز بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ دن گئے جب مستنصر حسین تارز سے مارننگ شو کروایا جاتا تھا۔
قصہ مختصر میں نے گوگل کیا اور فیس بک پر نذیر صابر صاحب سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کمال محبت سے مجھے اپنے بارے میں اور پاکستانی کوہ پیماؤں کے بارے میں ایک غیر معروف اخبار کا لنک بھیجا جس کی مدد سے میں نے بچوں کو بتایا کہ پاکستان میں بھی ایسے کوہ پیما پائے جاتے ہیں جو ماؤنٹ ایورسٹ تک پہنچ چکے ہیں۔ میرا عقیدہ ہے کہ اگر ہم اپنے بچوں سے قوم کےلیے اور دنیا کےلیے کوئی مثبت کام لینا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں پاکستانی کی حیثیت سے اپنی شناخت پر فخر کرنا سکھانا ہوگا۔
ایڈیٹر کو یہ نہیں معلوم تھا کہ کے ٹو دنیا کی دوسری سب سے اونچی پہاڑی چوٹی ہے یا کسی وجہ سے انہوں نے اس حقیقت کا اظہار مناسب نہیں۔
دنیا بھر میں نصاب اس کام کو انجام دیتا ہے اور میڈیا اسے سپورٹ کرتا ہے۔ آپ ذرا ہالی وڈ کی فلموں پر نظر دوڑائیے۔ معرکہ کہیں بھی ہو، آپ کو ہر جگہ امریکی ہیرو نظر آئیں گے؛ خصوصاً جب ایک سے زیادہ قومیں فلم کا موضوع ہوں، چاہے وہ دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ کی بارے میں بننے والی فلم ’’برج آن دی ریور کوائی‘‘ ہی کیوں نہ ہو جس میں تاریخی طور پر امریکیوں کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یہی حال بالی وڈ کا ہے کہ ان کے فوجیوں سے زیادہ بہادر کوئی نہیں ہوتا۔ لیکن اگر پاکستان میں پاکستانیوں کے کسی حقیقی کارنامے کا نام بھی لیں تو ہمارا روشن خیال طبقہ اسے پروپیگنڈا کہہ کر مسترد کردے گا۔ حسن نثار جیسے دانشور اسے قوم کو دھوکے میں رکھنا گردانیں گے۔
پاکستانی نصاب اور میڈیا، پاکستانی جغرافیہ اور تاریخ کے بارے میں اہم معلومات نہیں دیتے جن سے بچہ ایک قوم کے طور پر اپنی شناخت محسوس کرسکے۔
انڈین کورس میں باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ اس مقصد کی طرف پیش قدمی نظر آئی۔ چوتھی جماعت کے انگریزی کے نصاب میں کارگل کی جنگ میں کام آنے والے ایک سپاہی کے بارے میں پڑھ کر تعجب ہوا کہ بھارتی کورس کس قدرتازہ ترین موضوعات کے ذریعے اپنی قوم کی شناخت بنارہا ہے۔ آج یہ بچے جب ایک سپاہی کو ہیرو کے طور پر دیکھیں گے تو کل ان کے دل میں بھی وطن کےلیے کچھ کرنے کی خواہش ہوگی۔
میں نے اسی زمانے میں ایک انڈین چینل پر ایک ٹیلی فلم کارگل میں کام آنے والے سپاہی کے والدین کے بارے میں دیکھی۔ یاد رہے کارگل کے ایڈونچر کو اس وقت کم ہی عرصہ گزرا تھا۔ چلیے کارگل نہ سہی، آپ زلزلے کے امدادی کاموں کے دوران شہید ہونے والے کسی فوجی یا سویلین پرکوئی ڈاکیومنٹری بنا لیجیے۔
ایک دور میں پی ٹی وی پر ’’الفا براوو چارلی‘‘ اور ’’دن‘‘ جیسے سیریل آتے تھے۔ اب تو پرائیویٹ چینلز کی بھرمار کے باوجود ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملتا کہ قوم پاکستان کے فائدے کو اپنا فائدہ سمجھنا شروع کردے۔
پچھلے سال پاکستان کے ایک انتہائی مؤقر انگریزی اخبار میں کے ٹو بیس کیمپ تک پہنچنے والی ایک ٹیم کے بارے میں مضمون پڑھ کر بہت افسوس بلکہ صدمہ ہوا کہ ایڈیٹر کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ کے ٹو دنیا کی دوسری سب سے اونچی پہاڑی چوٹی ہے؛ یا کسی وجہ سے انہوں نے اس حقیقت کا اظہارمناسب نہیں سمجھا۔ مضمون کے آغاز میں کے ٹوکا تعارف محض پاکستان کے سب سے بلند پہاڑ (K2 — the highest mountain in Pakistan) کے طور پر کروا کرعزت افزائی کی گئی تھی۔
ایسی خبریں یا مضامین جب پاکستانی میڈیا میں نظر آتے ہیں تو سچی بات ہے دل بہت بے چین ہوتا ہے کہ پاکستانی نصاب اور میڈیا قوم کے بچوں اور بڑوں کو پاکستانی سر زمین اور شناخت پر فخر کرنا کیوں نہیں سکھاتے؟ پاکستانی الیکٹرونک نیوز میڈیا دنیا کا سرگرم ترین میڈیا ہے مگر پاکستانی سر زمین، معاشرے اور ثقافت کے مثبت پہلو سامنے لانے میں اس کا کیا کردار ہے؟
اس بات کی تو امید ہی فضول ہے کہ ہمارے بچوں کو چھوڑ، پڑھے لکھے بڑوں کو بھی یہ حقیقت معلوم ہو کہ دنیا میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند کل چودہ چوٹیاں ہیں جن میں سے پانچ پاکستان میں ہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی حد تک استثنیٰ ہے اور کچھ معلومات موجود ہیں لیکن نصاب اور میڈیا کا اس میں شاید ہی کوئی کردار ہو۔
اس حقیقت کا بھی کم ہی لوگوں کو علم ہے کہ دنیا کے بلند ترین تین پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش، تینوں قراقرم ہائی وے پر جگلوٹ کے مقام پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ قراقرم ہائی وے پر، جسے پاکستان میں شاہراہ ریشم بھی کہا جاتا ہے، ایک سبق ہمارے بچپن میں اردو کے نصاب کا حصہ تھا مگر بہت سی سادہ حقیقتیں نظر سے اوجھل تھیں۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر بھارت میں ایسی ایک بھی چوٹی ہوتی تو کیا بھارت کے بچوں سے یہ حقیقت اس طرح اوجھل رکھی جاتی؟
یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ نوجوان پاکستان کی آبادی کا ساٹھ فیصد ہیں۔ اگر ہم ان سے پاکستان کی ترقی کےلیے کوئی مثبت کردار ادا کروانا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں پاکستانیت کا شعور دینا ہوگا۔ انہیں اس سر زمین پر فخر کرنا سکھانا ہوگا۔ پاکستان سے انتہا پسندی کو ختم کرنے کےلیے بھی پاکستانی نوجوان کو مثبت مقاصد اور سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔ اس کےلیے نصاب اور میڈیا، دونوں کا کردار اہم ہے۔ خواندگی کی شرح بڑھانے میں بھی نصاب کے ساتھ ساتھ میڈیا کا کردار ہونا چاہیے۔ نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور اس طرح کرنا کہ نوجوان ایک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت کا ادراک کریں، وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے۔
میرے ذہن پر ہتھوڑے برس رہے ہیں۔ سانس پھولی ہوئی ہے اور آہیں نکل رہی ہیں۔ بے شک یہ کانپتی ہوئی انگلیاں زینب کے دُکھ اور درد سے پھوٹتی ہوئی کیفیت کو رقم کرنے کی ناکام کوشش کررہی ہیں۔ میں بلاشبہ ردِعمل کا شکار ہوکر لکھ رہا ہوں۔ مجھے اپنی اِس شدید جذباتی کیفیت میں کچھ بھی نہیں لکھنا چاہیے بلکہ ٹھنڈا پانی پی کر کچھ دیر کے لیے کوئی اور مصروفیت ڈھونڈنی چاہیے کیونکہ میرے اپنے اخذ شدہ سبق کے مطابق میں اِس لمحے جو کچھ بھی لکھوں گا وہ محض جذباتی ہیجان ہے اِس کا علم و دانش میں کوئی کردار نہیں۔
مگر میں کیا کروں؟ روؤں؟ محض رونے سے کیا ہوسکتا ہے؟ غم میں، دُکھ میں، حسرت میں، شرمندگی میں، بخشش کے لیے اور بے بسی کی وجہ سے رونا، کیا یہ سب زینب کے گھر والے اور اُس کے عزیز و اقارب نہیں کرچکے ہوں گے؟ وہ تو اللہ کے گھر میں تھے، اور وہاں تو بخشش کا رونا بھی رویا جاچکا ہوگا۔
میں نے اِس لمحے کم از کم یہ طے کیا ہے کہ میں ابھی آنسوؤں سے تو نہیں روؤں گا۔ مجھے اِس لمحے وہ ساری جذباتی بھڑاس لکھنی ہے جس کی رفتار کے سامنے انگلیاں بار بار شکست کھا رہی ہیں۔
جب بھی قصور کا ذکر آتا ہے تو مجھے قصور میں ہوئے بچوں سے جنسی زیادتی کے مسلسل واقعات کی ویڈیوز بنانے کا واقعہ یاد آتا ہے مگر ایسا کچھ یاد نہیں آتا کہ کبھی یہ سنا ہو یا پڑھا ہو کہ مجرم گرفتار ہوئے ہیں اور اُنہیں سزا سنا دی گئی ہے۔ مجھے اُس واقعے کے پس منظر میں وزیرِ قانون پنجاب کا ایک اخباری میڈیا بیان یاد آرہا ہے جسے لکھنے کا دل نہیں چاہتا کہ دل پہلے ہی بہت جلا ہوا ہے اور اِسے مزید کیا جلاؤں۔
میں اپنے شعور پر دستک دوں کہ میں نے ریپ نامی ظلم کا نام کب سنا تھا اور ایسی کسی شے کو کب پڑھا تھا تو مجھے مختاراں مائی یاد آتی ہے۔ میں ابھی گوگل سے اُس کے مقدمے کا احوال نہیں جاننا چاہتا۔ میری یاداشت اور فہم کے مطابق اُس مقدمے کے مجرموں کو سزا نہیں ملی تھی۔
میں اپنے ذہن میں کچھ اور جھانکوں تو مجھے سیالکوٹ کے دو بھائیوں کی ایک ویڈیو یاد آتی ہے جس میں وہ مدد کے لئے چلاّ رہے ہیں، مگر ایک بپھرا ہوا ہجوم اُنہیں لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے پیٹے جا رہا ہے۔ جس لمحے اُن کی جان نکل رہی تھی تو ایک ویڈیو میں اُن کے بدن کی آخری کپکپاہٹ صاف دکھائی دی تھی۔ میں اِس کیس کو بھی گوگل کے ذریعے تلاش نہیں کروں گا، محض اپنی یاداشت سے پوچھوں گا کہ کیا کوئی ایسی خبر پڑھی یا سنی جو یاد رہ گئی ہو کہ سیالکوٹ میں ہوئے دو بھائیوں کے اندوہناک قتل کا فیصلہ آگیا۔ قاتلوں کو سزا دے دی گئی۔ ایسی کوئی بریکنگ نیوز یا شہ سرخی میری آنکھوں اور کانوں کے رستے میری یاداشت کا حصہ نہیں بنی۔
میں اپنے ذہن پر اور دستک دیئے جاتا ہوں۔ میری آنکھوں کے سامنے کراچی کا سرفراز شاہ ہے۔ جس کے گرد رینجرز کی وردی پہنے چند جوان بندوقیں تانیں کھڑے ہیں اور لڑکا ہاتھ باندھے رکوع میں جھکا ہوا ہے۔ گولی چلنے کی آواز آتی ہے۔ وہ گرجاتا ہے۔ کان لگاؤ تو آواز سنائی دیتی ہے۔
’اللہ کے لئے مجھے ہسپتال لے چلو۔‘
لیکن کیا اُس پر فائرنگ کرنے والوں کو سزا مل گئی، میری یادداشت کے مطابق نہیں۔
میں سوچ رہا ہوں تو مجھے ریمنڈ ڈیوس یاد آرہا ہے۔ مجھے اُس سارے واقعے سے جو کچھ یاد ہے وہ یہ کہ ریمنڈ دیت کا سہارا لے کر رہا ہوا اور واپس اپنے وطن پہنچ گیا۔
مجھے شاہ رخ جتوئی فوری طور پر یاد آیا ہے۔ ایسا ہی کوئی معاملہ یہاں بھی ہوا ہے۔
میں ایسے تمام ہی مقدموں کا احوال گوگل نہیں کرنا چاہتا۔ میں محض اپنی یاداشت سے پوچھ رہا ہوں اور خامشی سے سوچے جارہا ہوں۔ میری عمر 30 سال سے زائد ہوچکی ہے۔ پچھلے 20 سال کے اخباری مطالعے اور 15 سال کے خبرناموں کو سننے کی مشقت کے بعد میں معذرت چاہتا ہوں کہ میں ایک ایسا بھلکڑ اور متعصب فرد بن گیا ہوں کہ مجھے ظلم کے واقعات پر انصاف مل جانے کا ایک بھی واقعہ یاد نہیں آرہا۔ مجھے آج بھی محض جرم، ظلم اور دُکھ درد یاد آرہے ہیں۔ میں نے آج بھی یہ درد لکھتے ہوئے اپنی یاداشت اور انگلیوں کو اُن تمام واقعات کا ذکر کرنے سے روکے رکھا ہے جن کا ذکر کرکے میں اپنی ذات کے تحفظ کو یقینی طور پر داؤ پر لگاؤں گا۔
دیکھئے ناں کہ بعض واقعات میں آپ متاثرہ شخص محض اپنے نصیبوں کی سیاہی کے بل بوتے پر بنتے ہیں اور بعض معاملات میں آپ اپنے نصیبوں میں سیاہی خود اپنی ہاتھ سے لکھی تحریر کے سبب ڈالتے ہیں۔ میں نہ تو اتنا بہادر ہوں کہ ایسا کچھ لکھنے کی جسارت کروں اور نہ ہی بے وقوف کہ بڑھاپے میں والدین کو تھانے کچہری اور میڈیا چینلز کے دھکے لگوانا چاہوں گا۔ وہ تو شائد میری تصویر کا بینر ہاتھ میں اُٹھائے کوئی لمبی واک بھی نہیں کرسکتے جس پر ’جسٹس فار می‘ یا ’فائنڈ می‘ لکھا ہوا ہو۔
میں تو فقط اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ کیا پچھلے 15 سالوں میں ہوئے ریپ، جنسی زیادتی اور غیرت پر ہوئے قتل وغیرہ جیسے کسی واقعے میں کوئی مجرم سزا پا سکا جو اب ہم معصوم زینب پر ہوئے ظلم پر ’انصاف‘، ’انصاف‘ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں؟
ابھی مجھے، میرے دوست کا میسج موصول ہوا ہے۔ اُس کے لفظوں میں بین سنائی دے رہا ہے آپ بھی دیکھ لیجئے۔ میں ذرا واش روم میں جاکر رو لوں کہ میرا جی لکھ لکھ کر بھی ہلکا نہیں ہو رہا۔
’زینب کے لئے انصاف؟ کیسا انصاف اور کون سا انصاف؟ اُس کے لبوں سے نکلتی ’ہائے امّی‘ کی آخری پکار یا اُس کے حلق میں دب جانے والی سسکیوں یا اُس کی آنکھ میں پتھر ہوتا سوال (جو نجانے کس ہستی سے کیا گیا تھا) کا مداوا کرسکتا ہے؟ یا ایسا کون سا انصاف ہے جو اُس کے ماں باپ کو صرف ایک بار معصوم لہجے اور چہکتی آواز میں ’ماما پاپا‘ کی آواز سنا سکتا ہے۔ تلخ، مگر حقیقت یہی ہے کہ نہ یہ سب پہلی بار ہوا ہے اور نہ ہی آخری بار۔ میں اِس معاشرے پر لعنت بھیجنے کا بھی روادار نہیں۔ میں تو صرف اپنے چند دوستوں سے مخاطب ہوں جو میری طرح زندگی کے اِس جہنم میں دھکیل دئیے گئے ہیں۔ گلے لگ جاو یار۔ مجھے تمہیں ایک بار پھر سے پرسہ دینا ہے۔ اگر ہوسکے تو دور ویرانے میں نکل کر جتنا اونچا چیخ سکتے ہو چیخ لو۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو واش روم جاؤ اور خوب سارا رولو اور چہرا دھو کر نئے زخم کی اُمید میں باہر چلے آؤ۔ بخدا تم سب بہت یاد آتے ہو۔‘
نیشنل پریس کلب انتخابات 2018 کی گنتی 13 جنوری کی رات 11 بجے شروع ہوئی۔ آزاد پینل اور جرنلسٹ پینل کی طرف سے 20 بیس ارکان پر مشتمل ٹیم نے 20 میزوں پر 100 سو بیلٹ پیپرز گننے کا فریضہ سرانجام دیا۔ نیشنل پریس کلب انتخابات میں انتخابی کمیٹی کے مطابق 2009 ووٹرز نے ووٹ ڈالنے کا حق استعمال کیا۔ 19 گنتی ٹیموں نے 1900 بیلٹ پیپرز جبکہ 20 ویں گنتی ٹیم نے 109 بیلٹ پیپرز کی جانچ پڑتال کی۔ یہ سارا عمل کچھ ہوں سمجھ لیجئے کہ فیاض راجہ اور اصغر چوہدری پر مشتمل ایک گنتی ٹیم، مطیع اللہ جان اور حمید لنگراہ پر مشتمل دوسری گنتی ٹیم اور پھر اسی طرح 20 گنتی ٹیمیں جن میں ٹیم کا ایک رکن بیلٹ پیپر کو پڑھتا جب کہ دوسرا انتخابی نتائج فارم پر ووٹ کا اندراج کرتا تھا۔
20 ٹیموں کے چالیس ارکان نے گنتی سے پہلے حلف لیا کہ سارا عمل ایمانداری سے سرانجام دینگے۔آزاد پینل اور جرنلسٹ پینل کے 40 گنتی ارکان خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے پوری جانفشانی اور ایمانداری سے یہ سارا عمل سرانجام دیا۔ میرے اور اصغر چوہدری صاحب پر مشتمل ٹیبل نمبر 13 کی گنتی ٹیم نے اپنے حصے کا کام سب سے پہلے مکمل کیا جس کی بڑی وجہ باہمی اعتماد تھا۔ یہی صورتحال تقریبا تمام ٹیبلز پر رہی جہاں ہر دو ارکان نے شاندار صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ عمل سرانجام دیا۔ اور اپنی اپنی میز کے نتائج الیکشن کمیٹی کے حوالے کئے۔
20 نتائج ٹیموں کی جانب سے پہلا رزلٹ الیکشن کمیٹی کے حوالے 2 بج کر 7 منٹ پر کیا گیا۔ اسی طرح باقی 19 گنتی ٹیموں نے سوا دو بجے سے پونے تین بجے کے درمیان اپنے اپنے نتائج الیکشن کمیٹی کے حوالے کئے۔ گنتی کے دوران میری اور اصغر چوہدری صاحب کی متفقہ رائے تھی کہ ماحول بدل گیا یے اور ووٹرز نے اس بار انتخابات میں دونوں پینلز کو بکھرا ہو مینڈیٹ دیا ہے اور کم وبیش یہی رائے ہمارے نزدیکی میزوں پر بھی تھی۔ ہمارے میز پر شکیل قرار اور شکیل انجم صاحب کی اپنے مخالفین پر واضح برتری تھی جبکہ آزاد پینل کی نوشین یوسف صاحبہ سمیت، مشال بخاری اور سعیدہ راجہ بھی آگے تھیں۔ اسی طرح ہمارے نزدیکی تین میزوں میں سے دو پر شکیل قرار کی بہتر لیڈ جبکہ ایک پر کلوز مقابلہ تھا۔
گورننگ باڈی کی گنتی سے قبل اصغر چوہدری صاحب اور میں نے کچھ وقفہ کیا۔ چوہدری صاحب نے سگریٹ بریک کی تو میں نے اس دوران گنتی ٹیموں کا دورہ کیا اور تمام 20 میزوں سے جرنلسٹ پینل اور آزاد پینل کی گنتی ٹیموں کے ارکان سے صدارت کی نشست کے نتائج معلوم کیئے اور دو دفعہ کی اس پریکٹس کے نتائج اپنے پاس نوٹ کئے تو معلوم پڑا کہ شکیل قرار صاحب واضح برتری سے نہیں جیت رہے، انکی لیڈ کم ہے اور بعض میزوں کی گنتی پر بڑا سخت مقابلہ ہوا ہے۔
میری اس پریکٹس کی گواہی جرنلسٹ پینل کے دوست اور میرے قابل احترام بھائی حمید لنگراہ اور دیگر دوست بھی دینگے کہ میں نے ہر میز پر جا کر دونوں پینل کے ارکان سے نتائج معلوم کئے۔ 20 کاونٹنگ ٹیبلز سے حاصل کئے گئے نتائج کی روشنی میں میں شکیل قرار صاحب نے گیارہ ٹیبلز پر کامیابی حاصل کی جہاں ان کی جیت کا کل مارجن 155 ووٹ تھا جبکہ طارق چوہدری صاحب نے نو ٹیبلز پر کامیابی حاصل کی جہاں ان کی جیت کا مارجن 149 ووٹ تھا۔ کاغذ پر ووٹ لکھ کر یہ جمع تفریق کی پریکٹس میں نے تین دفعہ کی جس کے نتیجے کے مطابق شکیل قرار صاحب صدر پریس کلب کی نشست 6 ووٹوں سے جیت چکے تھے۔
میں نے یہ نتائج وہاں موجود شکیل قرار صاحب، شہر یار خان صاحب اور مطیع اللہ جان صاحب سے بھی شیئر کئے۔ اس سارے عمل کے دوران طارق چوہدری صاحب، حمید لنگراہ صاحب اور جرنلسٹ پینل کے دیگر دوست بھی موجود تھے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جرنلسٹ پینل اور آزاد پینل کے ارکان گنتی ٹیموں نے انتہائی ایمانداری، محنت اور لگن سے گنتی کا عمل مکمل کیا اور ان سے حاصل کئے گئے نتائج کی روشنی میں میری کی گئی گنتی کے مطابق شکیل قرار صاحب 6 ووٹوں کی لیڈ لئے ہوئے تھے۔ الیکشن کمیٹی کی جانب سے نتائج کے اعلان کے دوران گورننگ باڈی اور پھر ایگزیکٹو باڈی دونوں میں پہلے جیتے ہوئے اور پھر ہارے ہوئے امیدوار کا اعلان کیا جاتا رہا۔
ناصر زیدی صاحب نے سیکرٹری خزانہ اور جنرل سیکرٹری کی نشست پر بھی پہلے جیتے ہوئے امیدواروں نوشین یوسف صاحبہ اور شکیل انجم صاحب کے نام اور ووٹوں کا اعلان کیا۔اس ترتیب پر انہوں صدر کے انتخاب کا نتائج کا اعلان کرتے ہوئے پہلے شکیل قرار کا نام پڑھا جس کے بعد آزاد پینل جس کو ٹیبلز سے حاصل کی گئی گنتی کے مطابق یقین تھا کہ وہ صدر کی نشست جیت چکے ہیں، نے نعرہ بازی شروع کر دی۔ ان کی نعرہ بازی کے بعد اچانک ناصر زیدی صاحب نے اعلان کیا کہ شکیل قرار صاحب کے ووٹ آپ نے سن لئے۔ طارق چوہدری صاحب صدر منتخب ہوئے ہیں کیونکہ ان کے گیارہ ووٹ زیادہ ہیں۔
الیکشن کمیٹی کے نتائج کے مطابق شکیل قرار صاحب نے 978 جبکہ طارق چوہدری صاحب نے 989 ووٹ حاصل کئے ہیں۔ جرنلسٹ کمیونٹی سب کے لئے ایک رول ماڈل کے طور پر جانی جاتی ہے مگر افسوس کہ آج الیکشن کمیٹی کی جانب سے کی گئی گنتی اور اس کے نتائج کے بعد شاید ہماری صحافی برادری کسی گنتی میں نہ رہے۔ افسوس!!!
صور میں ہونے والے دلخراش واقعہ نے قوم کو بری طرح سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ننھی زینب پر گزرنے والی قیامت نے ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا ہے۔ پچھلے کئی روز سے میڈیا لگاتار اس اندوہناک واقعہ کی کوریج کر رہا ہے،” جسٹس فار زینب ” کے نام سے سوشل میڈیا پر بھی مہم چلائی جا رہی ہے۔
معاشرے کے ہر حصے سے صرف یہی صدا بلند کی جارہی ہے کہ اس گھناؤنے فعل کو سرانجام دینے والے شیطان کو اس کے کیے کی سزا دی جائے۔ غم و غصے کی شدت اس قدر زیادہ ہے کہ مجرم کی سر عام پھانسی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔
یقیناََ اس کیس کو ملنے والی کوریج سے معصوم زینب کے لواحقین کو کم از کم یہ حوصلہ تو ضرور ہوا ہے کہ ا ن کی معصوم بیٹی کا قاتل شاید اپنے انجام کو پہنچ ہی جائے لیکن دوسری طرف جو بات ایک بار پھر سے کھل کر سامنے آئی ہے وہ پاکستان کے ریاستی نظام کا بوسیدہ پن ہے۔
زینب کا اغوا قصور میں ہونے والا اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے، اخباری رپورٹوں کے مطابق دو کلومیٹر کے دائرہ میں صرف چند ماہ کے عرصے میں گیارہ سے زائد بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا نے کے بعد قتل کر دیاگیا لیکن کسی ایک بھی کیس میں مجرم گرفتار نہیں ہو ا۔ ایسے حالات میں مقامی لوگوں کا غم و غصہ با لکل بجا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ گزشتہ واقعات کے پس منظر میں زینب کے لواحقین کی جانب سے اس کی گمشدگی کے بارے میں اطلاع ملنے پر پولیس تفتیش میں سستی نہ دکھاتی۔ لیکن پولیس نے ان کی کوئی خاطر خواہ مدد نہیں کی اور تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا خادم اعلیٰ کا نعرہ محض نعرہ ہی ثابت ہوا۔
چار روز تک پولیس روایتی انداز سے معاملے کی تفتیش کرتی رہی پھر جب بچی کی لاش ایک کچرے کے ڈھیر پر پڑی ملی تو علاقہ مکینوں کا رد عمل فطری تھا،ان میں غم وغصے اور نفرت کی لہر دوڑ گئی۔عوام باہر نکلے تو ایک اور نہایت افسوسناک واقعہ ہوگیا، پولیس کے چند جوانوں نے مظاہرین کو منتشرکرنے کی کوشش میں عوام پر سیدھی گولیاں چلا دیں۔
یہ مظاہرین آتشی اسلحہ سے مسلح نہ تھے، ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے اور وہ اپنے بازوؤں کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے سینکڑوں گز دور ایک برآمدے کے باہر کھڑے ہوئے پولیس والوں پر پتھرائو کر رہے تھے۔ پولیس کی فائرنگ سے دو افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان دونوں واقعات نے پولیس کے نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ سوال یہ ہے کہ زینب کی گمشدگی کی رپورٹ ملنے سے لے کر اس کی لاش ملنے تک کے عرصے میں پولیس نے کیا تفتیش کی؟
پرانے زمانے میں پولیس کے نظام کا اہم جز مخبری کا نظام ہوتا تھا، ہر علاقے میں تھانے کی سطح پر مخبروں کا ایک ایسا نیٹ ورک ہوتا تھا جن کی مدد سے علاقے کا ایس ایچ او اپنے علاقے میں ہونے والی سرگرمیوں سے بخوبی واقف رہتا تھا۔ ہر مخبر اپنے علاقے میں ہونے والے کسی بھی جرم کے حوالے سے تفصیلات اکٹھی کرتا اور اس کی مدد سے پولیس مجرمان تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی تھی۔ لیکن موجودہ زمانے میں پولیس کا مخبری نظام بری طرح سے ناکام ہو گیا ہے۔
اس خرابی کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں لیکن غالباََ ہمارے شہری علاقوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پرانے زمانے میں جن علاقوں میں دو چار گاؤں ہوا کرتے تھے اب کئی ہزار گھرانوں پر مشتمل رہائشی کالونیاں بن چکی ہیں۔
ماڈرن پولیسنگ میں جہاں مجاہد فورس، ڈولفن فورس اور پولیس رسپانس یونٹ اور سیف سٹی جیسے اربوں روپے کے منصوبے بنائے گئے ہیں، وہیں تفتیشی نظام کی بنیادی کمزوریوں کو بہت حد تک نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جرائم کی روک تھام کی کوشش میں کرائم انوسٹی گیشن پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔
آج سے کئی سال قبل جب انویسٹی گیشن کو ایک علیحدہ شعبہ بنایا گیا تو یہی خیال تھا کہ اس سے جرائم کی تفتیش بہتر کرنے میں مدد ملے گی لیکن نتائج کچھ زیادہ اچھے نہیں دکھائی دیتے۔
اگر ایک ہی علاقے میں گیارہ ایک جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن کسی ایک بھی مقدمے میں کوئی مجرم نہیں پکڑا جاتا تو کیا ان حالات میں کوئی بھی پولیس پر اعتماد کرے گا؟ اور پھر اگر اشتعال میں آکر عوام مظاہرے کرنے لگیں تو پولیس کے جوان انہیں منتشر کرنے کی کوشش میں سیدھی گولیاں چلا دیں؟
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ماڈل ٹاؤن واقعہ سے سبق سیکھتے ہوئے کم از کم پولیس کے جوانوں کی اتنی ٹریننگ ہی کر دی جاتی کہ کسی بھی صورت میں ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لئے لائیو ایمونیشن کا استعمال نہ کیا جاتا۔ ہجوم کو کنٹرول کرنے والے خصوصی یونٹس میں موجود افراد اتنے تربیت یافتہ اوراتنی تعداد میں ہیں جو بڑے ہجوموں کو کنٹرول کرسکیں؟
قصور میں پچھلے چند دنوں میں ہونے والے واقعات میں علاقے کی سیاسی قیادت کا رویہ بھی کچھ سمجھ سے باہر ہے۔کسی بھی سانحہ کے بعد عوام کی داد رسی کی سب سے پہلی ذمہ داری مقامی قیادت اور منتخب نمائندوں پر عائد ہوتی ہے۔
علاقے میں ہونے والے گیارہ واقعات کے بارے میں اگر پولیس کچھ نہیں کر پائی تو ان سیاستدانوں نے کتنی مرتبہ اس سلسلے میں اعلیٰ حکام سے رابطہ کرنے کی کوشش کی؟ حکمران جماعت کے کتنے سیاستدانوں نے مظلوم خا ندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا؟ اگر ان کی جانب سے ایسا نہیں کیا گیا توپھر اپوزیشن جماعتوں نے اس مسئلے کو اٹھانے میں کوئی کردار ادا کر کے سیاسی فائدہ حاصل کر لیا، تو اس پر واویلا کیوں؟ پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ جہاں بھی کوئی خلا پیدا ہو گا اسے بھرنے کے لئے کوئی نہ کوئی ضرور آگے آئے گا۔
جب سیاسی جماعتیں، حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اپنےعوام کے ساتھ ہونے والے ظلم کے لئے آواز نہیں اٹھاتیں تو پھر انہیں اس بات کا گلہ کرنے کا کوئی حق نہیں کہ کوئی اور ادارہ یا جماعت ان کے اختیارات میں بے جامداخلت کر رہے ہیں۔اگر گیارہ معصوم جانوں کے جانے کے بعد بھی ایک سات سالہ بچی کے لواحقین کو انصاف کے حصول کے لئے مظاہرے کرنے پڑیں ،تو نظام کی خرابی کو دور کرنے کے لئے دیگر قوتوں کو آگے بڑھنا ہی ہو گا۔
بہتر ہے سیاستدان اختیارات کے حصول کے لئے جتنی جدوجہد کرتے ہیں ،اتنی ہی جدوجہد عوام کی حفاظت اور انہیں انصاف کی فراہمی کے لئے بھی کریں۔ ایس ایچ او کی ذمہ داری وزیر اعلیٰ نے اپنے ذمہ لے کر نظام کو مکمل طور پر اپاہج کر دیا ہے ۔ مقتولین کو لاکھوں روپے کا معاوضہ دے کر مسائل کو بھول جانا خرابی میں اضافہ کر رہا ہے۔
حضرت علیؓ کا قول ہے کہ جس مقتول کا قاتل نا معلوم ہو، اس کا قاتل حاکم وقت ہوتا ہے۔ میرا مطالبہ ہے کہ حاکموں، بچیوں کے قاتلوں کو پکڑ کر قانون کے مطابق سزا دلواؤ۔ روز قیامت تم سے ان قتلوں کا بھی حساب لیا جا سکتا ہے۔
گذشتہ ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ہندوستان کا چھ روزہ دورہ کیا اور ان کا یہ دورہ پندرہ سال بعد کسی اسرائیلی وزیراعظم کا پہلا دورہ تھا جبکہ اس سے قبل ہندوستان کاوزیر اعظم نریندار مودی گذشتہ سال جولائی میں اسرائیل کا دورہ کرچکا تھا اور ان کا یہ دورہ دونوں ممالک میں گذشتہ نصف صدی پر محیط ڈیپلومیٹک تعلقات میں پہلی بار کسی ہندوستانی وزیراعظم کا دورہ اسرائیل شمار ہوتا ہے ۔
اس پہلے کہ ہم اصل موضوع پر آجائیں ضروری ہے کہ بن گورین ڈکٹرین کے بارے میں مختصر کچھ عرض کریں کہ آخر بن گورین کے پیش کردہ اصول کیا تھے کہ جس کی بنیادپر اسرائیل نے اپنی خارجہ پالیسی کو مرتب کیا ہوا ہے ۔
اسرائیل کا پہلا وزیر اعظم ہیم ایوگڈوگرین (Haim Avigdor Green)کہ جو بعد میں ڈیوڈ بن گورین (David Ben Gurion)کے نام سے مشہور ہوا نے کچھ ایسے اصول اور نظریات پیش کئے تھے جو بعد میں بن گورین ڈکٹرین کے نام سے مشہور ہوئے ۔
ان کی جانب سے اسے پیش کرنے کا اصل مقصد عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے سیاسی و اقتصادی بائیکاٹ اور اس وقت کی پان عرب ازم تحریک کے مقابلے میں تزویراتی یا اسٹرٹیجک طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے راہ حل تھے ۔
اسرائیل کی جغرافیائی کمزور پوزیشن کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو خطے کے غیر عرب مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات بنانے چاہیے ۔
جغرافیائی اعتبار سے اسرائیل ہرقسم کی تزویراتی گہرائی سے محروم ہے کیونکہ وسیع عرب مسلم خطے کے درمیان ایک انتہائی چھوٹے سے جزیرے کی شکل میں اس کے وجود کی بنیاد ڈالی گئی ہے ۔
بن گورین کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے لئے ایٹمی ہتھیار کے ساتھ ساتھ اگر خود کو تنہائی سے نکالنا ہے تو اسے خطے کے غیر مسلم ممالک جیسے ہندوستان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات بنانے کی ضرورت ہے ۔
بن گورین کہتا تھا کہ ترکی ،افریقی ممالک،عراقی کردستان،اور یورپ کے سرحدی ایشیائی ممالک(Caucasus)کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیا جانا چاہیے ۔
اسرائیل کی شروع سے کوشش رہی ہے کہ وہ ہندوستان کو مسلم اور عرب ممالک سے الگ کرکے اپنا اہم اتحادی بنالے ۔
اسرائیل سمجھتا ہے کہ ہندوستان دنیا کی دوسری بڑی آبادی کے ساتھ ایک بڑی مارکیٹ بھی رکھتاہے جہاں مذہبی تنوع موجود ہے اور ہندوستانی اہم ملکی شخصیات کی اسرائیلی اہم شخصیات کے ساتھ ذاتی نوعیت کے روابط بھی موجود ہیں ۔
دوسری جانب ہندوستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ملک کی مسلم آبادی اور امیر خلیجی ممالک کے ساتھ وابستہ مفادات کو بھی پیش نظر رکھتا آیا ہے لیکن اسرائیل اور عربوں کے درمیان انجام پانے والے معاہدوں نے اسے یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ کھلے انداز سے اپنے تعلقات کو آگے بڑھائے ۔
گرچہ امریکہ اور ہندوستان کے تعلقات بھی اسرائیل اور ہندوستان کی قربتوں کا ایک اہم سبب ضرور ہے۔
تاریخی اعتبار سے اسرائیل اور ہندوستان میں تعلقات کا آغاز جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے دور سے شروع ہوا کہ جس وقت ہندوستان غیر وابستہ ممالک کی تحریک میں مرکزی کردار ادا کررہا تھا ۔
لیکن 1992کے بعد ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات میں انتہائی گرم جوشی دیکھی جاسکتی ہے یہاں تک آج اسرائیل ہندوستان کی فوجی ضرورریات کو پورا کرنے والا اہم ترین ملک بن کر رہ گیا ہے۔
سن 2017میں اسرائیل کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت اور اسرائیل کے درمیان تجارت کا تبادلہ چار ارب ڈالر کو چھو گیا ہے ۔
اسی دوران ہندوستان جو کہ پہلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں خطے کے عرب ممالک کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک توازن کی کوشش میں رہتا تھا اب مکمل اپنی پالیسی بدل چکا ہے ۔
ہندوستان اسرائیل کیخلاف نسل پرستانہ بل کی حمایت میں ووٹ دینا والا اپنا ووٹ واپس لے لیتا ہے اور عالمی فورمز میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتا دیکھائی دیتا ہے تو دوسری جانب عالمی فورمز میں پاکستان کیخلاف ہندو ستان کی حمایت بھی ایک عام سی بات بن چکی ہے ۔
ستمبر اور اس کے بعد نومبر 2001میں اسرائیلی سیکوریٹی ایڈوائزر اوزی ڈین اور سیکرٹری دفاع آموس یارون کے دورہ ہندوستان کے دوران دونوں ملکوں میں عسکری تعاون پر معاہدے ہوجاتے ہیں کہ جس میں زرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل اپنے ان تجربات اورمہارتوں کو ہندوستان کے ساتھ شئیر کرنے کی آمادگی ظاہر کرتا ہے جو مقبوضہ فلسطین میں آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لئے وہ استعمال کرتا رہا ہے تاکہ ہندوستان اسے مقبوضہ کشمیر میں حق خود ارادیت کے لئے جدوجہد کرتے کشمیری عوام کیخلاف بروئے کار لاسکے ۔
جبکہ صرف ایک سال بعد ہی 2002اسرائیلی وزیر خارجہ ہندوستان کا دورہ کرتا ہے اور طرفین میں مزید عسکری تعاون میں پیشرفت کے ساتھ دہشتگردی کیخلاف مشترکہ کوششوں کے معاہدے ہوتے ہیں یوں کبھی دھلی اور تل ابیب تو کبھی مقبوضہ قدس میں دہشتگردی کیخلاف تعاون کے عنوان سے متعدد ملاقاتیں اور میٹنگز معمول بن جاتی ہیں ۔
دونوں ممالک میں موجود مشترکات میں سے ایک اہم نکتہ اشتراک دہشتگردی کی مشترکہ تعریف اور اس کے مظاہر ہیں کہ جس میں جہاں اسرائیلی قبضے کیخلاف فلسطینیوں کی جدوجہد دہشتگردی قرار پاتی ہے تو وہیں پر کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی بھی دہشتگردی قراردی جاتی ہے ۔
سن 2002میں اسرائیلی اخبار ہاآرٹس انکشاف کرتا ہے کہ اسرائیل اور ہندوستان اسپیس ٹیکنالوجی میں بھی مشترکہ تعاون کررہے ہیں کہ جس میں اسرائیل نے ہندوستان کو فضائی تحقیقات کے لئے انتہائی جدید آلات فراہم کیا ہے
سن 2003میں اسرائیل وزیر اعظم ایریل شارون کے دورہ ہندوستان کے دوران اسرائیل اپنا جدید انتباہی سسٹم فالکن ہندوستان کو فروخت کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے جبکہ اس سے اگلے سال اسرائیلی وزیر خارجہ کے دورہ ہندوستان کے وقت ہندوستان اسرائیل سے مزید پیشگی انتباہی نظام سے لیس فالکن ریڈار طیارے خریدنے کا معاہدہ کرتا ہے جبکہ صرف دوسال بعد ہندوستان اسرائیل سے پاکستان اور چین کے سرحدی علاقوں کی نگرانی و جاسوسی کے لئے پانچ جاسوس ڈورن طیارے خرید لیتا ہے ۔
سن 2009میں اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان دو ارب ڈالر کی مالیت پر مشتمل میزائلوں کی خریدو فروخت کا ایک ایسا معاہدہ ہوتا ہے کہ جسے اسرائیلی تاریخ کا سب سے بڑا عسکری معاہدہ کہا گیا کہ جس کی تفصیلات منظر عام پر نہیں لائی گئی گرچہ اتنا ضرورکہا گیا کہ اسرائیل اپنے اہم عسکری سازوسامان بشمول میزائلوں کے ہندوستان کو فروخت کررہا ہے ۔
سن 2014میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کیخلاف انسانی حقو ق کونسل میں ہندوستان نے اسرائیل کیخلاف ووٹ دینے سے انکار کردیا جو غزہ میں اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف وزرزیوں پر پیش کیاجارہا تھا ،ظاہر ہے کہ ہندوستان کیسے ایسی قرارداد کے حق میں ووٹ دے سکتا ہے کہ جس میں خود بھی ملوث ہے اور وہ آئے دن کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کا ارتکاب کررہا ہوتا ہے ۔
گذشتہ سال 2017میں ہندوستان کا وزیر اعظم اپنے دورہ مشرق وسطی میں ایک طرف جہاں تیل سے مالامال عرب ممالک کا دورہ کرتا ہے وہیں پراس کا تل ابیب میں انتہائی گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا جاتا ہے ۔
ہندوستان اب تک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کی گرمجوشی کو قدر پوشیدہ اور کم رنگ رکھنے کی اس لئے کوشش میں رہتا تھا کہ عرب مماک سے وابستہ اس کے مفادات کو کوئی زک نہ پہنچے لیکن اب جبکہ خود عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو نارمل کرنا چاہتے ہیں تو ایسے میں ہندوستان کیسے پچھے رہ سکتا ہے ۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے مودی کے اس دورے کو تاریخی اور جڑواں پالیسی کانام دیا اور کہا کہ اسرائیل اور ہندوستان گذشتہ کئی دہایوں سے گہری دوستی میں جڑے ہوئے ہیں ۔
نریندار مودی نے اس بات کی بھی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی کہ دنیا کے دیگر سربراہوں کی طرح توازن کو برقرار رکھنے کے لئے رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی سے ہی کم ازکم ملاقات کرتا ۔
ہندوستان میں مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات مزید گہرے اور اسٹراٹیجک ہوتے جارہے ہیں طرفین میں تجارت کا حجم اب بڑھ کر ساڑھے چار ارب ڈالر کو تجاوز کرچکا ہے
یہ بات واضح ہے کہ جہاں ایک طرف ہندوستان میں ہندو نسل پرست بھارتیا جنتا پارٹی اور مودی جیسے کٹر ہندو سوچ کے حامل شخص کے وزیر اعظم بننے کے بعد اسرائیل اور ہندوستان میں تعلقات کی نوعیت مزید گہری ہوگئی ہے وہیں پر عرب ممالک خاص کر سعودی عرب جیسے اہم مسلم ملک کے اسرائیل کے ساتھ انجام پانے والے حالیہ معاشقوں کی خبروں نے ان تمام ممالک بشمول ہندوستان کو شہ دی ہے جو اس سے پہلے عربوں سے وابستہ مفادات کے سبب قدر جھجھک رکھتے تھے ۔
ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان جہاں مشترکہ مفادات وابستہ ہیں کہ جس میں ہندوستان کے اسلحے کی ضروریات اسرائیل پوری کررہا ہے اور عالمی سطح پر صیہونی لابی پاکستان اور چین کیخلاف ہندوستان کی مدد کرتی ہے وہیں پر ان دونوں ملکوں میں موجود خاص نسل پرستانہ سوچ کا بھی اشتراک پایا جاتا ہے کہ جو اب ہندوستان میں مودی سرکار کے سبب مزید بڑھتی دیکھائی دیتی ہے ۔
ایک طرف جہاں ہندوستان پاکستان کے وجود کو اب تک ہضم نہیں کرپایا ہے تو دوسری جانب اسرائیل پاکستان اور اس کی ایٹمی صلاحیت کو اپنے لئے خطرناک سمجھتا ہے واضح رہے کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد اسرائیل نے اسے اسلامی بم کہا تھا جو کہ ایک انتہائی غلط طرز فکر ہے جسے ہندوستان اور اسرائیل دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں ۔
اگر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو مسلم ملک ہونے کے سبب اسلامی بم کہا جاسکتا ہے تو پھر ہندوستان اور اسرائیل کے بارے میں بھی ایسی ہی اصطلاح کا استعمال کیوں نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہندو بم اور یہودی بم ہے ۔
ہندوستان کا یہ خواب رہا ہے کہ وہ ایشیا کا پولیس مین بن جائے اور ظاہر ہے کہ اسرائیل اور اس کی لابی اس سلسلے میں اسے مدد فراہم کرسکتی ہے جیساکہ اس وقت اس کا مشاہد ہ کیا جاسکتا ہے جبکہ اسرائیل کے لئے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک کے ساتھ بہتر سے بہتر تعلقات قائم رکھے خاص کر کہ ہندوستان کے ساتھ کہ جو واحدمسلم ایٹمی ملک پاکستان کا ہمسائیہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے وجود کو اب تک ہضم نہیں کرپایا ہے ۔
ہندوستان سے آنے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیل اور ہندوستان مزید عسکری ،تجارتی ،سیکوریٹی اور زراعت کے شعبوں میں تعاون کے علاوہ طرفین میں براہ راست کمرشل پروازوں کی بھی بات چیت ہوئی ہے جس کے لئے سعودی عرب کی فضائی حدودکو استعمال کیا جائے گا ۔
اسرائیلی ٹی چینل نمبر سات کے مطابق سعودی فضائی حدو د کے استعمال سے فیول اور وقت کی بچت ہوگی اور اسے طرفین میں سیاحت کو بھی فروغ ملے گا ۔
گذشتہ چند ماہ میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان غیرسرکاری تجارتی وفود کا تبادلہ دیکھنے کو ملاہے کہ جس میں سعودی غیر سرکاری ایک وفد کا دورہ اسرائیل بھی شامل ہے
اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ ہمسائیہ عرب ممالک کے ساتھ ان تعلقات عنقریب اعلانیہ شکل اختیار کرلینگے جبکہ اسرائیلی اخبار یدیعوت احرنوت کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ٹرین کی پیٹری بچھانے کے ایک منصوبے پر بھی بات چیت چل رہی ہے ۔
بلاگر: عمران خان
کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد نے کہا ہے کہ پاک فوج کے خلاف لڑنا حرام ہے، اگر پاک فوج نہ ہوتی تو ملک کب کا تقسیم ہوچکا ہوتا۔ پاک فوج اور ریاست کے خلاف سب سے پہلے مسلح جدوجہد کی شرعی توجیہات پیش کرنے والے صوفی محمد نے نجی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کلمہ گو مسلمان کو قتل کرنا حرام اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانا خلاف شریعت ہے۔ واضح رہے کہ ماضی میں صوفی محمد کے نافذ کردہ نظام شرعی میں ہی سوات کے چوک میں کتنے ہی مسلمانوں کے سرقلم کئے گئے، ان میں کئی ایسے کلمہ گو بھی تھے کہ جن کی لاش اتارنے کی بھی اجازت نہیں تھی اور کئی دنوں تک لاشیں لٹکتی رہتی تھیں۔ صوفی محمد نے مزید کہا کہ خواتین اور بچوں کو مارنا حرام ہے، خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں، انہی کے داماد اور پاکستان کو انتہائی مطلوب ترین ملا فضل اللہ نے سوات کے نواحی اور دیہی علاقوں سے سینکڑوں بچیاں اغواء کیں اور اپنے دہشت گرد ساتھیوں میں جبری نکاح کے ساتھ بانٹ دیں۔
صوفی محمد نے کہا کہ آرمی پبلک اسکول میں بچوں کو شہید کرنے والے کافر سے بھی بدتر ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور میں ہونے والے قتل عام کا ماسٹر مائنڈ ملا فضل اللہ ہی تھا، جبکہ ملا فضل اللہ صوفی محمد کا نہ صرف داماد ہے بلکہ صوفی محمد نے ملا فضل اللہ کو اپنا جانشین اور فرزند بھی قرار دیا تھا۔ اپنے اسی فرزند سے متعلق صوفی محمد مزید گویا ہوئے اور کہا ہے کہ ملا فضل اللہ نے طالبان سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ شامل ہوگیا، حالانکہ ملا فضل اللہ نے اپنی ملک و اسلام دشمن سرگرمیوں کا آغاز طالبان کے پلیٹ فارم سے نہیں بلکہ نام نہاد تحریک نفاذ شریعت محمدی کے پلیٹ فارم سے کیا تھا، جس کے سربراہ یہی صوفی محمد تھے۔ صوفی محمد کا مزید کہنا تھا کہ میں نے وصیت نامہ لکھوایا کہ یہ لوگ (طالبان) خوارج سے بھی بدتر ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو صوفی محمد نے اسلام اور وطن پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے اس وقت ان خوارج کے خلاف حق بات کہنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی، جب سوات میں اسلام کے نام پہ ان دہشتگردوں نے ظلم و تشدد کا بازار گرم کیا ہوا تھا۔
صوفی محمد کا مزید کہنا تھا کہ فضل اللہ نے غیر مسلموں سے بھی زیادہ اسلام کو نقصان پہنچایا، صوفی محمد کی اس بات سے اختلاف ممکن نہیں کہ اسلام کو نقصان غیر مسلموں سے زیادہ فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں نے پہنچایا۔ نفاذ شریعت کی تحریک کا آغاز صوفی محمد نے کیا، فضل اللہ اسی تحریک کے ساتھ، صوفی محمد کا داماد اور جانشین بن کر منظر عام پہ آیا اور صوفی محمد نے بھی اسے اپنا فرزند قرار دیا۔ اب اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ جو فرزندی میں لینے کیلئے درست کا انتخاب نہیں کرسکتا، وہی شخص ملک بھر کے عوام کیلئے نظام تجویز اور نافذ کرنے کیلئے بضد رہا اور اس ضد میں نہ صرف سینکڑوں افراد لقمہ اجل بنے بلکہ پوری دنیا میں وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تشخص کو بھی شدید دھچکا لگا۔ صوفی محمد نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا کہ میرے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی فضل اللہ نے کی، کیونکہ فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں نے میری تحریک ختم کی، فضل اللہ کی سزا صرف اور صرف موت ہے۔ آج فضل اللہ کیلئے میڈیا کے سامنے سزائے موت تجویز کرنے والا صوفی محمد اس وقت فضل اللہ کے ظالمانہ، دہشتگردانہ اقدامات کی اپنے فیصلوں اور فتوؤں کے ذریعے توثیق کرتا رہا، جب عالمی میڈیا دعوے کر رہا تھا کہ طالبان اور اسلام آباد کے درمیان بس دو پہاڑیوں حائل ہیں۔
اپنی گفتگو میں صوفی محمد نے مزید کہا کہ پاک فوج کے ساتھ جنگ کرنا حرام ہے، اگر فوج نہ ہوتی تو پاکستان کب کا تقسیم ہوچکا ہوتا، یقیناً فوج نہ ہوتی تو پاکستان مزید تقسیم ہوچکا ہوتا، بالخصوص سوات اور جس طرح پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کا سہرا پاک فوج کے سر ہے، اسی طرح وطن عزیز میں نت نئے فسادات اور فتنوں کے بیج بونے کا نمایاں دھبہ صوفی محمد کے اپنے دامن پہ بھی نمایاں ہے، اس دھبے میں بے گناہ لہو کی سرخی اور بارود و فساد کی سیاہی شامل ہے اور اس دھبے کو صاف کرنے کیلئے صوفی محمد کا یہ ایک انٹرویو ہرگز کافی نہیں۔ صوفی محمد دورانِ انٹرویو یوں بھی گویا ہوئے کہ پاک فوج کے جوان ہمارے لئے مجاہدین ہیں اور فوج کی بدولت ملک میں امن قائم ہوا، جیل یاترا سے قبل صوفی محمد کے نظریات اس کے یکسر برعکس تھے۔ ان کی تحریک سے وابستہ بالخصوص ان کے داماد اور جانشین فضل اللہ اور اس کے حواری ہی صوفی محمد کے نزدیک مجاہدین تھے، یہ نام نہاد مجاہدین کسی اور کے نہیں بلکہ پاکستانی ریاست اور اداروں کے خلاف ہی سرگرم تھے، جبکہ ان نام نہاد اور صوفی محمد کے مجاہدین نے جہاد کا باقاعدہ آغاز پولیس اور پاک فوج کے خلاف ہتھیار اٹھا کے ہی کیا تھا۔ وہی صوفی محمد کہ جنہوں نے نفاذ شریعت کے نام پہ سوات میں بچیوں کی تعلیم پہ دروازے بند کرنے کا آغاز کیا اور اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے انہی کے جانشین فضل اللہ کے ہرکاروں نے سکولوں بالخصوص بچیوں کے سکولز کو نشانہ بنایا اور ہزاروں بچیوں کے تعلیمی سال ضائع ہوئے۔ وہی صوفی محمد اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ملالہ پر جب حملہ ہوا تو وہ اس وقت جیل میں تھے، تاہم یہ حملہ نہیں ہونا چاہیے تھا، میں بچیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہوں اور تعلیمی اداروں پر حملوں کو حرام سمجھتا ہوں، علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔
جن خیالات کا اظہار صوفی محمد میڈیا پہ ابھی کر رہے ہیں، ان کے بیان کی ضرورت اس وقت کہیں زیادہ تھی، جب سوات بدامنی اور لاقانونیت کے تاریک ترین دور سے نہیں گزرا تھا، حالانکہ یہ دور بھی کسی حد تک صوفی محمد کی ہی مرہون منت تھا۔ غور فرمائیں تو صوفی محمد کے طریقہ کار اور میڈیا یا ریاستی اداروں کے طریقہ کار میں ایک خاص قسم کی مماثلت محسوس ہوتی ہے۔ وہ مماثلت ’’پروٹوکول‘‘ یا ’’تعلق‘‘ کے ضمن میں دکھائی دیگی۔ سوات آپریشن سے قبل صوفی محمد کا داماد اور جانشین ملا فضل اللہ تھا جبکہ آج صوفی محمد خود کو بری الذمہ جبکہ فضل اللہ کیلئے موت کا اعلان کر رہا ہے۔ یہاں بھی حالات کچھ اسی طرح کے ہی ہیں، پاک سپہ سالار نے آج ہی دس دہشت گردوں کی سزائے موت پہ عملدرآمد کی توثیق کی ہے، تاہم ہزاروں پاکستانیوں کے قتل کی اعلانیہ ذمہ داریاں قبول کرنے والا احسان اللہ احسان سرکاری مہمان ہے۔ اسی طرح ملا فضل اللہ کو گرفتار یا نشانہ بنانا کے لئے سرجیکل سٹرائیکس سمیت امریکہ و افغانستان سے روزانہ کی بنیاد پہ تبادلہ خیال جاری ہے، جبکہ اسی فضل اللہ کے باپ، استاد، امیر کو رہائی کا پروانہ تھما کر آزاد کرکے باقاعدہ میڈیا پہ لا بٹھایا ہے۔ آج ہی کی خبر ہے کہ افغان سرحد پہ پاک فوج نے کارروائی کرکے طالبان کے ریڈیو نیٹ ورک یعنی عمر میڈیا کا ٹاور تباہ کر دیا ہے۔؟ آج ہی کے دن اس شخص کو میڈیا پہ آزادانہ رائے کیلئے بٹھایا گیا ہے، جس نے ہر قسم کے آئین و قانون کو مسترد کرتے ہوئے بذریعہ ریڈیو نشریات کا آغاز کیا اور یہی آغاز پاکستان بالخصوص سوات میں امن و آشتی کا اختتام ثابت ہوا تھا۔ میرے لئے تشویش کی بات یہ ہے کہ ریڈیو سے اتنی تباہی پھیلانے والا اب ٹی وی تک پہنچ گیا ہے۔
پاکستان کی 4 فی صد سے بھی کم آبادی غیر مسلموں پر مشتمل ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں اپنے اردگر بسنے والی غیر مسلم اقلیتوں کا ہر طرح سے خیال رکھنے کا درس دیا گیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم غیر مسلم اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے کو تیار ہیں؟
آگے بڑھنے سے پہلے شہنیلہ سے مل لیجیے۔ سانولی رنگت، چمکتی آنکھیں، پنجابی لب و لہجے والی 15 سالہ عیسائی لڑکی شہنیلہ میٹرک کی طالبہ ہے، جس کا باپ اس دنیا میں نہیں رہا اور ماں کی زندگی دوسروں کے گھروں میں کام کرتے گزر گئی، ماں کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی کہ اس کے بچے پڑھ لکھ جائیں۔
لہٰذا شہنیلہ کے تعلیم کے شوق کی راہ میں نہ اس کے والد کی موت رکاوٹ بنی اور نہ ہی وقتی طور پر رکنے والے تعلیمی سلسلے سے اس کا عزم کمزور ہوا۔ شہنیلہ نے اپنے تعلیمی سلسلے کو دوبارہ اسی محلے کے پیلے یعنی گورنمنٹ اسکول کے بجائے انگلش میڈیم اسکول سے شروع کیا۔
اس نے نویں جماعت پاس کی لیکن میٹرک میں آتے ہی اسلامیات پڑھنے کا مسئلہ درپیش آگیا۔ شہنیلہ نے بتایا کہ پہلے اسلامیات کے اسباق اتنے مشکل نہیں تھے اور نہ ہی پرانے اسکول میں اخلاقیات کا مضمون موجود تھا۔وہ اس بار بھی شاید اسلامیات کا مضمون پڑھ لیتی لیکن میٹرک کی اسلامیات کی کتاب میں بڑی قرآنی آیات اور احادیث شامل ہیں ۔شہنیلا نے بتایا کہ اس کی والدہ نے اسکول میں بات کی کہ وہ اخلاقیات پڑھنا چاہتی ہے لیکن وہاں ٹیچر کی عدم دستیابی کی نوید اور اخلاقیات میں نمبر کم آنے کی خبر سنادی گئی ۔
شہنیلہ نے 8 ماہ تک اسلامیات پڑھی یہاں تک کہ امتحانی فارم چلے گئے، اس نے بھی سمجھ لیا تھا کہ بات ختم ہوگئی۔ جیسے تیسے اس کو اسلامیات کا ہی پرچہ دینا ہے لیکن ٹیوشن کی ٹیچر کے کہنے پر امتحانات سے کچھ عرصہ پہلے اس نے میٹرک بورڈ سے خود رجوع کیا اور بھاگ دوڑ کے نتیجے میں آخرکار وہ اسلامیات کے بجائے اخلاقیات کا پرچہ دے گی۔
جب اسکول انتظامیہ سے ان کا موقف لیا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے اخلاقیات کی الگ سے ٹیچر اور کلاس نہیں رکھی گئی اور پھر طلبہ نے بھی کبھی اس حوالے سے شکایت نہیں کی۔
چلیں یہ تو ایک پرائیوٹ اسکول کا حال ہے۔ سرکاری اسکول کے غیر مسلم طالب علم اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہ بھی جان لیتے ہیں۔
سکینہ ایک سرکاری اسکول میں میٹرک کی طالبہ ہے۔ اس نے بتایا کہ اس نے چھٹی سے آٹھویں جماعت تک تو اسلامیات کا مضمون ہی پڑھا لیکن میٹرک میں اسے اخلاقیات کا مضمون الگ سے پڑھوایا گیا۔
ایک سرکاری اسکول کی اساتذہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے اسکول میں غیر مسلم بچوں کو اخلاقیات کا مضمون ہی پڑھایا جاتا ہے لیکن اگر کوئی طالب علم اسلامیات پڑھنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے۔
اس ساری صورت حال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ صرف ایک شہنیلہ کا مسئلہ نہیں بلکہ تازہ ترین مردم شماری کے مطابق تین اعشاریہ چار فیصد غیر مسلم آبادی کا مسئلہ ہے۔ یقیناً ایسے درجنوں غیر مسلم طلبہ و طالبات ہوں گے جو اسکول انتظامیہ کی غفلت کا شکار ہیں۔
پاکستان کا آئین ہر پاکستانی کو مکمل مذہبی آزادی دیتا ہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں بڑے پیمانے میں تعلیمی اصلاحات کی گئیں اور جغرافیہ، تاریخ اور شہریت کے مضامین ضم کرکے مطالعہ پاکستان کا مضمون شروع ہوا جس کے نتیجے میں اخلاقیات کا مضمون غیر مسلموں کے ساتھ جڑا اور اسلامیات مسلم طلبہ کا اولین انتخاب بن گیا۔
یکسانیت کا شکار ان تدریسی کتب کو اگست 2009 میں نئی نیشنل ایجوکیشن پالیسی کے ذریعے نئی زندگی دی گئی ۔ اس تعلیمی پالیسی کے آرٹیکل 4 کی رُو سے ساتویں جماعت سے غیر مسلم طلبہ کے لیے اخلاقیات کا مضمون اور اس کی ٹیچر لازمی قرار پائے۔
سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے ڈائریکٹر سید ذاکر علی شاہ نے دعویٰ ضرور کیا تھا کہ غیر مسلم طلبہ کے مذہبی رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوئے اخلاقیات کی نئی کتب کی تیاری جاری ہے اور میٹرک کے امتحان نئے کورس کے مطابق لیے جائیں گے مگر اردو بازار کے دکان داروں کا کہنا ہے کہ 2007 کے بعد سے اخلاقیات کا کوئی نیا نصاب نہیں آیا۔
اس حوالے سے سید ذاکر علی شاہ صاحب نے بتایا کہ محکمہ تعلیم سندھ کی خاص ہدایات پر اخلاقیات کی نئی کتب تیار کی جارہی ہیں اور اس سلسلے میں یونس ماسٹر، کاسنڈرا فرنینڈس، افضل جیک، اے جے جاگ روم، گنیش مال اور نکہت سنگھ کی رائے اور بھرپور مدد حاصل ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ساتویں جماعت کی نئی کتاب اسکولوں تک پہنچ چکی ہے ۔ اگلے مرحلے میں آٹھویں جماعت اور پھر میٹرک کی کتاب طلبہ کے ہاتھوں میں ہوگی۔لیکن پاکستان مائنورٹی ایسوسی ایشن کے صدر انجم پال سندھ بورڈ کے نصاب سے متفق نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب مذاہب کا بین التقابلی جائزہ پیش کرتی ہے کیونکہ اس کتاب میں سات مذاہب کے بارے میں تعارفی مضامین ہیں جو پاکستان کے آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ پال صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئین کی رو سے ہر پاکستانی کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا، ‘خود بتائیں، ایک ہندو بچہ عیسائی مذہب سے متعلق مضامین کیوں پڑھے؟’
بنیادی سوال ہے کہ کیا ہم اپنے بچوں کو بائبل، بھگوت گیتا اور دیگر مذاہب کی کتابیں پڑھنے کی اجازت دیں گے؟ پھر ہمارے ہاں بین المذاہب یا تقابلی جائزے کا بھی کوئی رجحان نہیں۔ پاکستان کا المیہ تو یہ ہے کہ یہاں کُل بجٹ کاصرف پانچ سے چھ فی صد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے، جو سندھ حکومت تک پہنچتے پہنچتے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بن جاتا ہے۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 24 ملین بچے اسکول نہیں پہنچ پاتے اور جو پہنچ پاتے ہیں اس میں سے بھی 31 فی صد طلبا میٹرک تک آتے آتے اسکول چھوڑ چکے ہوتے ہیں، لہذا حکومت کو بھی چاہیے کہ تعلیم جیسے اہم شعبے کو نظر انداز نہ کرے کیونکہ ہر دور میں تعلیم ہی کے ذریعے لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہوئی ہیں۔
ہمارے ملک کی غیر مسلم آبادی وسائل کی کمی کا شکار طبقہ ہے۔ خدارا ان کے ساتھ ایسی مجرمانہ غفلت نہ برتیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں ایک ساتھ رہنا ہے۔ تھوڑی سی توجہ سے یہ گروہ ہمارے معاشرے کا بہترین چہرہ بن سکتا ہے ۔ اگر یہ مطمئن ہیں تو پھر کسی کی ہمت نہیں کہ ہم پر انگلی اٹھائے ۔ ہم ان سے ہیں اور یہ ہم سے ہیں، حکومت کے ساتھ ساتھ اسکولوں کی انتظامیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ کسی پاکستانی کے بنیادی حقوق کا سلب نہ ہوں۔
ان دنوں پاکستان میں سیزنل انفلوئنزا ایک وبائی صورت اختیار کیے ہوئے ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے قارئین کے لیے ایک تحریر پیش کی جارہی ہے جس سے معاشرے کا ہر طبقہ استفادہ کرتے ہوئے اس مرض سے بچ سکتا ہے۔
سیزنل انفلوئنزا ایک متعدی بیماری ہے جس کا موجب ایک وائرس ہے جو کہ بڑی آسانی سے ایک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل ہوجاتا ہے۔سیزنل انفلوئنزا کے جراثیم پوری دنیا میں گردش کر رہے ہیں اور کسی بھی جنس، عمر اور علاقے کو متاثر کرسکتے ہیں۔ موسمی فلو ایک بین الاقوامی مرض کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے کرہ ارض کے شمالی علاقوں میں یہ مرض موسمِ سرما میں پھیلتا ہے اور کرہ ارض کے جنوبی حصوں میں موسم گرما میں پھیلتا ہے۔اس بیماری کی تاریخ بڑی پرانی ہے پہلی بار یہ بیماری وسیع پیمانے پر سن 1580ء میں سامنے آئی۔ موجودہ جدید انسانی تاریخ میں انفلوئنزا کے 3 بڑے عالمی وبائی چکر ریکارڈ میں آچکے ہیں جن میں پہلی وبائی صورت حال 1908ء سے 1919ء تک ’’اسپینش فلو‘‘ کے طور پر سامنے آئی۔ دوسرا پھیلاؤ 1957ء سے 1958ء ’’ایشین فلو‘‘کے طور پر سامنے آیا اور تیسرا پھیلاؤ 1968ء سے 1969ء جاری رہا جسے ’’ہانگ کانگ فلو‘‘کا نام دیا گیا۔
جیسا کے پہلے بتایا گیا ہے کہ کرۂ ارض کے وہ علاقے جہاں موسم بہت سرد یا بہت ٹھنڈا رہتا ہے، یہ بیماری موسم سرما میں پھیلتی ہے اور وہ علاقہ جات جہاں پر موسم متعدل رہتا ہے، یہ بیماری تقریباً سارا سال پھیل سکتی ہے۔موسمی فلو (سیزنل انفلو ئنزا ) صرف انسانی صحت کو متاثر نہیں کرتا بلکہ کسی بھی معاشرے میں معاشی و اقتصادی نظام کو بھی متاثر کرتا ہے کیونکہ یہ کام کرنے والے افرا د یعنی ورک فورس اور محکمہ صحت کے اوپر بھی ا ضافی بوجھ ڈالتا ہے۔بنیادی طور پر چار قسم کے انفلوئنزا وائرس دریافت ہوچکے ہیں جو کہ ٹائپ اے، بی، سی اور ڈی ہیں جن میں ٹائپ A اور B زیادہ بیماری پھیلانے والے جراثیم ہیں۔ علاوہ ازیں ٹائپ A کے جراثیم کی مزید گروہ بندی موجود ہے۔ ٹائپ B کی مزید کوئی سب ٹائپ نہیں ہے۔ ٹائپ C معمولی بیماری پیدا کرتی ہے اور ٹائپ D صر ف جانوروں کو متاثر کرتی ہے۔انفلوئنزا وائرس کی ٹائپ اے 1933ء میں دریافت ہوئی، ٹائپ B کو 1940ء میں دریافت کیا گیا جبکہ انفلوئنزا کی ویکسین پہلی بار 1940ء کے اوائل میں بنائی گئی لیکن یہ ویکسین زیادہ موثر نہ تھی۔
علامات:
سیزنل فلو کی عمومی علامات میں اچانک بخار کا ہوجانا، زیادہ تر خشک کھانسی، سر میں درد ، پٹھوں اور جوڑوں میں درد ، گلے کا خراب ہونا ، ناک کا بہنا شامل ہیں۔ عام علامات میں سر درد، بخار، پٹھوں اور جوڑوں میں درد، کھانسی اور ناک کا بہنا، گلے کا خراب ہونا شامل ہیں۔ یہ علامات عام نزلہ و زکام میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن سیزنل انفلوئنزا میں ان علامات کی شدت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔علاوہ ازیں عام نزلہ و زکام میں بچوں اور بزرگوں میں اسہال ، متلی و الٹی زیادہ ہوتی ہے ایک مستند معالج، جامع ہسٹری اور معائنے سے ان دونوں بیماریوں کی تشخیص کر سکتاہے۔ انفلوئنزا فلو شدید بیماری سے لے کر موت بھی لاسکتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت عالمی سطح پر سالانہ 3 سے 5 ملین افراد اس وائرس سے متاثر اور تقریباً 3 سے 6.5 ملین سالانہ ہلاک ہوجاتے ہیں۔یہاں یہ ابہام بھی دور ہوجانا چاہیے کہ زکام اور سیزنل انفلوئنزا دو الگ الگ بیماریاں ہیں اور ان کے جراثیم بھی الگ الگ ہیں البتہ دونوں کی علامات بہت ملتی جلتی ہیں۔ اس کے علاوہ زکام کی علامات کم شدت کی ہوتی ہیں اور یہ جلد ٹھیک ہو جاتی ہیں۔میڈیسن کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’اگر آپ زکام کا علاج کرنا چاہتے ہیں تو اس کا دورانیہ سات دن ہے اور اگر آپ علاج نہیں کرتے تو آپ ایک ہفتے کے اند ر ٹھیک ہو جائیں گے‘۔ عام زکام کے مقابلے میں سیزنل انفلوئنزا کی علامات زیادہ شدید ہوتی ہیں اور اس کی پیچیدگیاں زیادہ ہوتی ہیں جن میں نمونیا سرفہرست ہے۔
پھیلاؤ:
موسمی انفلوئنزا عموماً متاثرہ شخص کے کھانسنے اور چھینکنے سے دوسر ے شخص کو براہ راست منتقل ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں مریض کے ہاتھوں، رومال، تولیہ ، ٹشو پیپر وغیرہ جن پر ناک اور گلے کی رطوبات لگی ہوں، ان سے بھی یہ مرض دوسرے افراد تک منتقل ہو سکتا ہے۔ اس لیے انفلوئنزا سے متاثرہ شخص کو چاہیے کہ جب بھی کھانسے یا چھینکے تو اپنی ناک اور منہ کو ڈھانپ کر رکھے۔یہ بات انتہائی توجہ طلب ہے کہ متاثرہ شخص کے کھانسنے یا چھینکنے سے 6 فٹ کے فاصلے تک جراثیم پھیل سکتے ہیں۔ اس لیے متاثرہ شخص سے فاصلہ رکھنا ضروری ہے اور متاثرہ شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے منہ کو ماسک سے بھی ڈھانپ کر رکھے ماسک دستیاب نہ ہونے کی صورت میں مریض کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلیوں پر نہیں کھانسنا چاہیے اور اگر کھانسی یا چھینک روکنا ناممکن ہو تو قمیص کی آستین کو استعمال کرے۔اس کے علاوہ معاشرے کے عام افراد اپنے ہاتھ باقاعدگی سے دھوئیں اور خشک کریں۔ خصو صاً کھانسنے اور چھینکنے کے بعد بھی ہاتھوں کو اچھی طرح سے دھوئیں اس ضمن میں انٹی سیپٹک ہینڈ واش بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مریض کو چاہیے کہ وہ آنکھ ، ناک اور منہ کو بلا ضرورت ہاتھ نہ لگائے۔ایک شخص کے جسم میں وائرس کے داخلے کے 1 سے 4 روز کے اندر بیماری کی علامات پیدا ہوتی ہیں اور بیماری تقریبا ًایک سے تین ہفتے میں ختم ہوجاتی ہیں لیکن یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ رو بصحت ہونے کے بعد بھی دو سے تین ہفتے تک جراثیم کا اخراج کھانسنے اور چھینکنے سے جاری رہتا ہے اسی لیے مریض اور مریض کے لواحقین دونوں کو احتیاط کی ضرورت رہتی ہے۔
تشخیص:
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ زیادہ تر مریضوں کی تشخیص روٹین میڈیکل چیک اپ کے ذریعے آسانی سے ہوجاتی ہے البتہ 100 فیصد تشخیص کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں جن کے ذریعے وائرس Antigen یا (Genome) ناک اور گلے سے حاصل کی گئی رطوبات سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بلڈ ٹیسٹ T-PCR, ELSA, Immunofluoresense ، Virus Culture اور وائرس کلچر بھی کرائے جاسکتے ہیں۔ یہ تمام ٹیسٹ پاکستان میں ہر جگہ بآسانی دستیاب ہیں اور عوام کی پہنچ میں ہیں۔
علاج :
تشخیص کے بعد مریضوں کا ان کی علامات کے مطابق علاج کیا جاتا ہے جس میں گھر پر بیڈ ریسٹ دیا جانا چاہیے تا کہ معاشرے کے دیگر افراد تک جراثیم نہ پہنچیں۔ بخار اور درد کو کم کرنے والی ادویات بھی دی جاتی ہیں۔مر یض کی خوراک کو بہتر کیا جا تا ہے اور اس کے علاوہ جراثیم کے خلاف اینٹی وائرل ادویات دی جا تی ہیں بہتر نتائج کے لیے جتنا جلدی ممکن ہوسکے یہ ادویات شروع کردینی چاہئیں۔اس کے ساتھ ساتھ آج کے جدید دور میں ویکسی نیشن بھی کی جاتی ہے جس کا اثر تقریباً ایک سال تک رہتا ہے۔ جہاں پر ویکسین دستیاب نہ ہو وہاں پر اینٹی وائرل ادویا ت دینی چاہئیں اس کے ساتھ ساتھ اینٹی وائرل اور ویکسی نیشن اکٹھی بھی دی جاسکتی ہیں یہ ویکسین مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہے اور زیادہ مہنگی بھی نہیں لیکن 6 ماہ سے کم عمر بچوں کو ویکسی نیشن نہیں دینی چاہیے۔ اگرچہ موسمی فلو سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ ویکسی نیشن ہے لیکن یہ ویکسی نیشن 70 فیصد تک تحفظ فراہم کرتی ہے اور اس کا دورانیہ بھی صرف ایک سال تک محدود ہوتا ہے اور ہر سال نئی ویکسی نیشن کی ضرورت رہتی ہے۔
سب سے پہلے مبتلا ہونے والے افراد
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہائی رسک گروپ میں جو لوگ شامل ہیں، ان میں 65 برس سے زائد افراد، 6 ماہ سے 5 سال تک کے بچے، حاملہ خواتین، ہیلتھ ورکرز ، ایک ہی جگہ پر رہائش پذیر یا کام کرنے والے افراد اور بچے مثلاً نرسنگ ہومز، اولڈ ہومز، ورکنگ ہاسٹلز اور اسکولز ہاسٹلز میں رہائش پذیر اساتذہ و طالب علم ہیں۔ ان دنوں میں لوگوں کی نقل حرکت کو محدود رکھا جائے، اوور کراوئڈنگ کو کم کیا جائے، غیر ضروری میل جول سے اجتناب برتا جائے اور پبلک مقامات سے دور رہا جائے۔ان ہائی رسک گروپ میں شامل افراد کو لازمی طور پر ویکسی نیشن کرانی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹائپ A اور ٹائپ B شوگر کے مریض، سانس کی بیماریوں مثلاً دمہ و الرجی، امراض قلب، جگر اور گردوں کے پرانے مریض، کم قوتِ مدافعت والے افراد، کینسر کے مریض، ایچ آئی وی کے مریض، ذہنی و جسمانی معذوری کے شکار کو بھی ویکسی نیشن لازمی کرانی چاہیے۔یہ بات بڑی توجہ سے زیر غور لانی چاہیے کہ وہ تمام خواتین و حضرات جن کا باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) 40 سے زیادہ ہے، عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز کے مطابق انہیں بھی ویکسی نیشن لازمی طور پہ کروانی چاہیے۔
یہ پاکستان میں سردی میں ہی کیوں پھیلتا ہے؟
یہ پہلو بھی قابل تجسس ہوگا کہ سیزنل انفلوئنزا شمالی کرۂ ارض بشمول پاکستان میں سردی کے موسم میں کیوں ہوتا ہے؟ اس میں چند وجوہات یہ ہوسکتی ہیں کیونکہ سرد موسم میں لوگ سردی سے بچنے کے لیے بند کمروں میں زیادہ تعداد اور زیادہ دیر تک رہتے ہیں، اوور کراؤڈنگ کرتے ہیں اس دوران متاثرہ شخص کے کھانسنے یا چھینکنے سے مرض بڑی آسانی سے پھیل سکتا ہے جب کہ باہر ایسا امکان کم ہے کیوں کہ قدرت نے سورج کی روشنی میں پائے جانے والی الٹرا وائلٹ شعاعوں کو جراثیم کش بنایا ہے۔موسم سرما میں کیونکہ سورج کی روشنی بھی کم ہوتی ہے یا اس کی طاقت کم ہوتی ہے اس وجہ سے الٹرا وائلٹ ریڈی ایشن جراثیم کو نہیں مار سکتی۔ علاوہ ازیں ٹھنڈے موسم میں ہوا خشک ہوجاتی ہے جو کہ سانس کی نالیوں میں موجود جھلیوں کو خشک کردیتی ہے اور جراثیم آسانی سے نظام تنفس کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سرد موسم کی وجہ سے انفلوئنزا کا وائرس جلد ی Decompose نہیں ہو تا اس لیے یہ روز مرہ کی قابلِ استعمال چیزوں مثلاً تولیہ، رومال، ٹشو، دروازے کے ہینڈل وغیرہ پر زیادہ دیر تک موجود رہتا ہے۔قارئین کے لیے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ سورج کی روشنی جب جلد پر پڑتی ہے تو اس سے وٹامن ڈی بنتا ہے جو کہ جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے۔ کم روشنی کے باعث وٹامن D کم بنتا ہے، جس کی وجہ سے جسم کا دفاعی نظام کمزور ہو جاتا ہے اور انسان بآسانی انفلوئنزا وائرس کا شکار ہوسکتا ہے۔
کیا سیزنل انفلوئنزا قابلِ کنٹرول ہے؟
سیزنل انفلوئنزا ایک قابلِ کنٹرول بیماری ہے جو پاکستان میں ہر سال نومبر سے اپریل تک رہتی ہے۔ اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومتیں خصوصاً پنجاب حکومت سیزنل انفلوئنزا سے بچاؤ، روک تھام اور علاج کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے۔ ہر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں انفلوئنزا فلو کے لیے الگ یونٹ بنائے جاچکے ہیں اور لوگوں کو علاج کے لیے سہولیات مہیا کر رہے ہیں لیکن سب سے بہتر کنڑول صفائی جیسے سنہرے اصول میں پنہاں ہے۔ امید ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنا بھرپور کردار ادا کرے تو اس مرض پر قابو پانا ممکن ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق وہ علاقے جن میں انفلوئنزا کا پھیلاؤ کم ہے:
1- وسطی ایشیا
2- کیریبین
3- جنوبی امریکا
4- وسطی امریکا
5- جنوب مشرقی ایشیا
6- مشرقی یورپ
عالمی ادارہ صحت کے مطابق وہ علاقے جن میں انفلوئنزا کا پھیلاؤ زیادہ ہے:
1- جنوبی امریکا ( کینیڈا، میکسیکو)
2- جنوبی افریقا ( مصر، مراکش، تیونس)
3- مغربی ایشیا (اسرائیل، اردن)
4- مشرقی ایشیا ( شمالی چین، کوریا)
5- مشرقی افریقا (مڈگاسکر،موزمبیق)
زینب قتل کیس کہنے کو اغوا کے بعد زیادتی اور زیادتی کے بعد قتل کی ایک عام سی واردات لگتی ہے، لیکن اس قتل کے پیچھے اتنے ہولناک حقائق ہیں جسے قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔معاملہ سیریل کلنگ کا ہو یا ٹارگٹڈ ریپ کا لیکن یہ طے ہے کہ سکیورٹی اداروں کی اس قتل اور ایسی کئی دیگر وارداتوں سے جڑےحقائق پر پردہ ڈالنے ہی میں عافیت ہے۔
نامور کالم نگار جمیل فاروقی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔ جو پردہ اٹھائے گا، اس کا انجام بھیانک ہوگا کیونکہ یہ مافیا بزنس مینوں سے لے کر سیاست دانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ عام جنسی تشدد اور شہوت سے جڑی واردات میں قاتل کارروائی کرتے ہیں اور قتل کر کے ثبوتوں کو صاف کرنے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں لیکن جنسی زیادتی سے جڑے اس ہولناک قتل کے دوران زینب کی دونوں کلائیوں کو چھری سے کاٹا گیا، گلے کو پھندے سے جکڑا گیا، جسم پر بے پناہ تشدد کیا گیا، اعضائے مخصوصہ کو تیز دھار آلے سے نشانات پہنچائے گئے اور زبان کو نوچا گیا۔ ایسا عام طور پر جنسی زیادتی اور قتل کی وارداتوں میں نہیں ہوتا۔ ایسا کسی اور مقصد کے لیے کیا جاتا ہے اور وہ مقصد ہے بے پناہ پیسے کاحصول۔
پولیس حقائق سے پردہ اٹھائے یا نہ اٹھائے، پیسے سے جڑے جن حقائق سے میں پردہ اٹھانے جا رہا ہوں اس کے لیے آپ کو اپنے دلوں کی دھڑکنوں کو تھامنا ہوگا۔
دنیا میں انٹرنیٹ کی ایک ایسی کمیونٹی بھی ہے جسے گوگل تک سرچ نہیں کرسکتا۔ یہ کمیونٹی دنیا کے مختلف حصوں سے انسانی اعضاء کی خریدو فروخت سمیت بچوں کے ساتھ جنسی فعل اور بچوں پر جنسی تشدد کے بعدان کے تشدد زدہ اعضاء کی تشہیر سے وابستہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کمیونٹی سے جڑے لوگوں کو اپنے اپنے ٹاسک پورے کرنے کے لاکھوں ڈالر ادا کیے جاتے ہیں، اور پیمنٹ کا طریقہ کار اتنا خفیہ ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں یا خفیہ ایجنسیز کو بھنک تک نہیں پڑسکتی۔ اس کمیونٹی تک ایک عام صارف کی رسائی نہیں ہوتی بلکہ مکمل چھان بین کے بعد دنیا بھر سے سب سے زیادہ قابل اعتماد اور قابل بھروسہ لوگوں کو اس کمیونٹی کا ممبر بنایا جاتا ہے۔
ورلڈ وائیڈ ویب یعنی انٹرنیٹ پر موجود جنسی ہیجان اور انسانی جسمانی اعضاء کی خریدو فروخت کے گورکھ دھندے سے جڑی اس حقیقت کو ڈارک ویب یا ڈارک نیٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی جریدوں کے 2007ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس دھندے سے وابستہ لوگوں کی تعداد چار اعشاریہ پانچ ملین ہے جو کروڑوں ڈالر کی تجارت سے جڑی ہے۔
جنوری 2007ء سے دسمبر 2017ء تک اس کاروبار کے صارفین اور ناظرین کی تعداد میں خطرناک حد تک پانچ سو گنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ قانونی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی اس دھندے تک واضح رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اعداد شمار کا یہ تخمینہ اس سے بھی بڑھ کر ہوسکتا ہے۔ اس دھندے کا سب سے اہم جزو پیڈوفیلیا یا وائلنٹ پورن انڈسٹری ہے جس میں بڑی عمر کے لوگ بچوں یا بچیوں سے جنسی فعل کرتے ہیں یا انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ یہ ڈارک ویب کی سب سے زیادہ منافع پہنچانے والی انڈسٹری ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کے بچے اور بچیاں ڈارک ویب پر بیچے جانے والے مواد کا آسان ترین ہدف ہیں۔ ان ممالک میں بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، ایران، افغانستان اور نیپال شامل ہیں۔ یہاں پر بھارت میں ہونیوالے رادھا قتل کیس کا حوالہ دینا بہت ضروری ہے۔
2009ء میں بھارتی شہر ممبئی کے ایک اپارٹمنٹ سے رادھا نامی چھ سالہ بچی کی تشدد زدہ لاش ملی تھی جسے جنسی درندگی کے دوران شدید جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ہاتھ اور کلائیاں کاٹی گئی تھی، زبان نوچی گئی تھی اور اعضائے مخصوصہ پر چھرئیوں کے وار کیے گئے تھے۔ ممبئی پولیس نے اس کیس کی تحقیقات قاتل کے نفسیاتی ہونے کے زاویے پر کیں اور قاتل کو سیریل کلر کا نام دے کر فائل کو بند کردیاتھا، لیکن اصل میں معاملہ یہ نہیں تھا۔ ٹھیک دوسال بعد ممبئی ہی میں بیٹھے ہوئے ایک ہیکر نے ڈارک ویب کی کچھ جنسی ویب سائیٹس کو ہیک کیا تو وہاں اسے رادھا کی ویڈیو ملی۔ ویڈیو پر دو سال قبل کیے جانے والے لائیو براڈ کاسٹ کا ٹیگ لگا ہوا تھا۔ ہیکر نے ممبئی پولیس کو آگاہ کیا توتفتیش کو پورن انڈسٹری سے جوڑ کر تحقیقات کی گئیں۔ ان تحقیقات کے بعد ہولناک اور انتہائی چشم کشا انکشافات سامنے آئے۔ رادھا کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے انٹرنیٹ پر براہ راست نشر کیا گیا۔ اس کے ساتھ کئی لوگوں نے ریپ کیا۔ ہاتھ اور کلائیاں کاٹنے کے ٹاسک ملے تو ہاتھ اور کلائیاں کاٹی گئیں۔ اعضائے مخصوصہ پر چھریاں مارنے کا ٹاسک ملا تو بے دردی سے چُھریاں ماری گئیں۔ اور اس براڈکاسٹ کے لیے کئی لاکھ ڈالر ادا کیے گئے۔ تحقیقات کا دائرہ اور بڑھایا گیا تو بڑے بڑے بزنس مینوں سے لے کر سیاست دانوں تک لوگ اس قتل کی واردات سے جڑے ہوئے پائے گئے۔
پولیس والوں کے پرَ جلنے لگے تو فائل بند کردی گئی اور آج تک قاتل کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی زینب قتل کیس میں بھی ہوا ہے۔ قصور میں جنسی درندگی کے بعد تشدد اور پھر قتل کایہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ زینب قصور شہر میں قتل کی جانے والی بارہویں بچی ہے۔ پولیس کہتی ہے کہ قاتل سیریل کلر ہے لیکن اس تک پہنچ نہیں پاتی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم کی شکل واضح ہونے کے باوجود غلط خاکہ تیار کیا جاتا ہے۔ پولیس کی یہی حرکتیں ہیں جس کے باعث ان بارہ بچیوں میں سےایک بھی مقتولہ بچی کا کیس آج تک حل نہیں ہوسکا۔ کیا پولیس واقعی اتنی نااہل ہے یا کیس اتنا ہی سادہ ہے؟ اصل میں معاملہ یہ نہیں بلکہ معاملہ مبینہ طور پر مقامی ایم این اے، ایم پی اے اور اس دھندے میں ملوث پولیس کے اعلیٰ عہدیداران کو بچانے کا ہے۔ اس دھندے سے وابستہ بزنس میں بڑے بڑے نام ملوث ہیں۔ 2015ء میں قصور شہر ہی میں ڈھائی سو سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، ریپ اور بعد ازاں ویڈیوز بنانے کا جو معاملہ میڈیا نے اٹھایا تھا، اس کے پیچھے بھی بہت بڑے مافیا کا ہاتھ تھا۔ مقامی حکومتی عہدیداروں، ایم این اے اور ایم پی اے کے کہنے پر پولیس نے مبینہ طور پر اس کیس کی فائل کو بند کردیا تھا کیونکہ اس کیس کے تانے بانے بین الاقوامی طور پر بدنام زمانہ چائلڈ پورنوگرافی اور وائلنٹ پورن سے ملتے تھے اور سچی بات یہ ہے کہ جرم میں ملوث افراد اتنے بااثر ہیں کہ عام آدمی انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ زینب اور زینب سمیت دیگر بچیوں اور بچوں کا قتل رادھا قتل کیس سے بہت مشابہت رکھتا ہے، لیکن پولیس غلط خاکہ تیار کرنے سے لے کر تحقیقات غلط زاویے پر چلانے تک ملزمان کو ہر طرح سے پروٹیکٹ کر رہی ہے۔
ذرا سوچیے کہ زینب یا دیگر بارہ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی، مبینہ طور پر لائیو براڈ کاسٹ یا ویڈیو بناکر نوٹ چھاپے گئے، لاوارث سمجھ کر لاش کو کچرے میں پھینک دیا گیا لیکن پولیس اسے محض ایک جنسی زیادتی کا کیس بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس قتل کا ڈارک ویب سے جڑے ہونے کا واضح ثبوت کٹی ہوئی کلائیاں اور جسم پر تشدد کے واضح نشانات ہیں جسے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کھل کر بیان کیا گیا ہے۔ اب بھی اگر حقائق سے روگردانی کرتے ہوئے قتل میں ملوث بڑے بڑے ناموں کو بچانے کی کوشش کی گئی تو آپ اور ہم میں سے کسی کی بھی بہن یا بیٹی ڈارک ویب سے جڑے اس گورکھ دھندے کی بھینٹ کبھی بھی چڑھ سکتی ہے، اس لیے اپنی سوچوں کے زاویوں کو مثبت ڈگر پر چلاتے ہوئے اس مافیا کے خلاف یک زبان ہوجائیں، ایک ہوجائیں اور اس دھندے میں ملوث چہروں کو بے نقاب کریں۔ ایک ۔۔ صرف ایک زینب کا کیس درست سمت میں تحقیقات سے حل ہوگیا تو آیندہ کسی بدمعاش مافیا کو یہ جرات نہیں ہوگی کہ وہ ہماری بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ پیسوں کی خاطر درندوں والا سلوک کرے۔ اس لیے ڈارک ویب سے نمٹنے کے لیے برائٹ سوسائٹی کا کردار ادا کیجیے اور صرف برائٹ سوسائٹی ہی اس مافیا سے نمٹ سکتی ہے ورنہ ارباب اختیار سے وابستہ اس دھندے کے حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔
امریکا نے ایک بار پھر زور دیا ہے کہ پاکستان ممبئی حملوں کے ذمہ داروں خاص کر حافظ سعید کے خلاف کارروائی کرے، ٹرمپ کی ٹویٹ کے بعد پاک امریکا تعلقات میں جوخلیج پیدا ہوئی ہے اس کے تناظر میں دیکھا جائے تو ممبئی دہشت گرد حملوں کے معاملے پر بھارت کی زبان بولنے کے امریکی طرز عمل میں چند ہفتوں سے تیزی آنے کی وجوہ کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں۔مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ممبئی حملوں کو لے کر پاکستان کو دباؤ میں لانے کے پرانے حربے کو پھر سے استعمال کرنے کے غبارے سے ہوا خود بھارت میں شائع ہونے والی تحقیقاتی کتاب ’’Betrayal of India – Revisiting the 26/11 Evidence‘‘ نے ہی نکال دی ہے۔ ممبئی حملوں سے متعلق ہوش ربا انکشافات اور حقائق پر مبنی تجزیے پر مشتمل یہ کتاب بھارتی پبلشر فروز میڈیا، نیو دہلی کی شائع کردہ ہے۔ مصنف معروف تحقیقاتی صحافی ایلیس ڈیوڈسن کی، جن کا تعلق یہودی مذہب اور جرمنی سے ہے، غیرجانبداری نے سامنے لائے گئے حقائق کو مصدقہ اور قابل بھروسہ بنا دیا ہے۔
2017 میں سامنے آنے والی اس کتاب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دہلی سرکار اور بھارت کے بڑے اداروں نے حقائق مسخ کیے، بھارتی عدلیہ انصاف کی فراہمی اور سچائی سامنے لانے کی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی۔ ممبئی حملوں کے مرکزی فائدہ کار ہندو انتہا پسندو قوم پرست رہے کیوں کہ ان حملوں کے نتیجے میں ہیمنت کرکرے اور دوسرے پولیس افسران کو راستے سے ہٹایا گیا۔ انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ ساتھ نہ صرف بھارت بلکہ امریکا اور اسرائیل کے کاروباری، سیاسی اور فوجی عناصرکو بھی اپنے مقاصد پورے کرنے کےلیے ان حملوں کا فائدہ پہنچا جب کہ صحافی ایلیس ڈیوڈسن اپنی تحقیقات میں اس نتیجے پر بھی پہنچا کہ ممبئی حملوں کا پاکستانی حکومت اور فوج کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
مصنف ایلیس ڈیوڈسن کی تحقیقات کے مطابق ممبئی دہشت گرد حملوں کے حقائق چھپانا بھارتی سیکیورٹی و انٹیلی جنس اداروں کی نااہلی نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے تحت حقائق میں جان بوجھ کر کی گئی ہیرا پھیری تھی۔ اس کیس کی عدالتی کارروائی بھی غیرجانبدار نہیں تھی بلکہ اہم ثبوت اور گواہوں کو نظرانداز کیا گیا۔تحقیقاتی صحافی کے نزدیک ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی و عمل درآمد کی سازش میں بھارت کے ساتھ ساتھ امریکا اور اسرائیلی کردار بھی پنہاں ہے۔ مصنف نے ممبئی حملوں کو خفیہ آپریشنز طرز کے حملے قرار دیا جس سے یہ تاثر قائم کیا گیا کہ بھارت کو دہشت گردی سے مستقل خطرہ ہے۔ اس سے بھارت کو دہشت گردی کی عالمی جنگ کے لیڈنگ ممالک کے ساتھ کھڑا ہونے میں مدد ملی۔ ممبئی حملوں میں ہیمنت کرکرے اور دوسرے پولیس افسروں کے قتل کے حوالے سے اہم اطلاعات کو بھی چھپایا گیا۔مصنف نے اجمل قصاب والے پہلو پر بھی بھرپور توجہ دی۔ ایلیس ڈیوڈسن کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ ممبئی حملوں کے ان متاثرین اور گواہوں کے بیانات نہیں لیے گئے جو واقعے کے سرکاری بیانیے کو اپنانے پر تیار نہ ہوئے۔ ان گواہوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے نریمان ہاؤس میں حملوں سے دو روز قبل اجمل قصاب اور چند دیگر افراد کو اکٹھا ہوتے دیکھا۔ کچھ مقامی دکاندار اور رہائشیوں نے یہ گواہی بھی دی کہ شدت پسند کم از کم پندرہ دن نریمان ہاؤس میں رہتے رہے۔کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کئی گواہوں کو سکھایا گیا کہ کس طرح انہیں سرکاری مؤقف اختیار کرنا ہے۔ بھارتی اور اسرائیلی حکومتیں نریمان ہاؤس واقعے سے متعلق ثبوت گھڑتی رہیں اور مرضی کی گواہیاں حاصل کرنے میں ملوث نظر آئیں۔ دہشت گردوں کے سہولت کار فون نمبر 012012531824 استعمال کرتے رہے جو امریکا میں تھا۔اجمل قصاب کے اقبالی بیان کے مطابق وہ ممبئی سے حملوں سے بیس دن پہلے گرفتار کیا گیا اور پھر ملوث کیا گیا۔ بعد ازاں اجمل قصاب اپنے اس بیان سے مکر گیا۔ مصنف نے اپنے تجزیئے میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ دعوی کیا گیا کہ قصاب پورے تاج ہوٹل کو اڑانا چاہتا تھا، تاہم اس مقصد کےلیے اس کے پاس آٹھ آٹھ کلو کے محض چار بم تھے جو بہت ہی ناکافی تھے۔Betrayal of India – Revisiting the 26/11 Evidence نے ممبئی حملوں کے نام پر پاکستان کو دباؤ میں لانے کے امریکا، بھارت اور اسرائیلی گٹھ جوڑ کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔ مگر یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان معروف تحقیقاتی صحافی کی کتاب میں اٹھائے گئے اہم پہلوؤں کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں روایتی سستی کیوں دکھا رہا ہے جس کےلیے دفتر خارجہ کا کردار نہایت اہم ہے۔
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے مدرسہ سروے سے متعلق قومی سطح کی رپورٹ جاری کردی ہے۔ یہ رپورٹ”After Study Hours: Exploring the Madrassah Mindsetکے نام سے منظر عام پر آئی ہے، جس کی تقریب رونمائی اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب کی صدارت چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کی جبکہ سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر خالد مسعود،معروف دانشور حارث خلیق،خورشید ندیم ،پاک انسٹی ٹیوٹ فارپیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے گفتگو کی۔ اس رپورٹ کا مرکزی خیال یہ ہے کہ تاریخ کو تنقیدی مگر دلچسپ پیرائے میں طلبہ مدارس کے سامنے رکھا جانا چاہیے جو منطق اور علم الکلام، جو پہلے ہی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں، سے مطابقت پیدا کرنے میں معاون ثابت ہو،یہ عمل انہیں محدود ذہنی حصار سے باہر نکل کر غورو فکر کرنے کی جانب مائل کرسکتا ہے۔اس بنا پرطلبہ کو نہ صرف مدارس کے مخصوص ماحول سے نکالا جا سکتا ہے بلکہ اس عمل سے عقلی و منطقی علوم میں ان کی دلچسپی کو بھی مہمیز مل سکتی ہے۔
مدرسہ “اصلاحات” کی شروعات ہمیشہ اس نکتے سے ہوتی ہیں کہ مدارس کا نصاب بدل دیا جائے۔ پاکستانی حکومتیں طلبہ مدارس میں سائنسی فکر کو پروان چڑھانے کے لیے متعلقہ مضامین کو مدارس کے نصاب کا حصہ بنانے کی لگاتار کوششیں کرتی رہی ہیں۔ 2018 میں بھی یہ کوششیں جاری رہتی نظر آرہی ہیں۔
ایک ہی جیسا نصاب پڑھنے کے باوجود بھی طلبہ مسلکی مدار سے باہر نہیں نکل سکتے۔ وہ بلاشبہ ایک ہی چیز پڑھتے ہوں، مگر اس چیز کے تفصیلی تجزیے کے لیے وہ اپنے مسلک کے علماء سے رجوع کرتے ہیں اوروہ انہیں علماء کو اپنے لیےقابلِ عمل نمونہ بھی سمجھتے ہیں۔ ان کے سیاسی نظریات پر بھی مسلکی چھاپ نظر آتی ہے ،باوجود اس کے کہ بعض بڑے مسالک میں علاقائی تنوع بھی موجود ہے۔
رسمی یا غیر رسمی، ہر دو طرح کے مکالموں میں طلبہ کی دلچسپی کے موضوعات میں تعلیمی اور مذہبی مسائل سرِ فہرست ہیں ۔ خاص افراد سے طلبہ کی عقیدت ان کے علم و مرتبے کے سبب ہوتی ہے۔ طلبہ ان کا اس درجے احترام کرتے ہیں کہ چھٹی کے اوقات میں بھی حدِ ادب کے باعث طلبہ اور اساتذہ کے درمیان فاصلے حائل رہتے ہیں۔
بیشتر معاملات میں طلبہ مدارس کے ذہن میں موجود برائی، اچھائی کے تصورات عام سماج سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد قومی روزناموں کے قاری اور مقبول کالم نگاروں کے مداح ہیں، اور سماجی ویب سائیٹس کاباقاعدگی سے استعمال بھی کرتے ہیں۔ ایک ہی مکتبِ فکر کے طلبہ کے مابین اس حوالے سے تنوع بھی پایا جاتا ہے۔
یہ مطالعہ طلبہ مدارس میں منطق اور فلسفہ جیسے مضامین میں دلچسپی بڑھانے کی ضرورت پر زور دیتا ہے ، جو پہلے ہی مدارس کے نصاب میں شامل ہیں ۔ایسا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ متنوع تاریخی تشریحات کو ان کے سامنے رکھا جائے، جس سے طلبہ میں تاریخ سے دلچسپی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اساتذہ میں سماجی ہم آہنگی کا شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف مسالک کے طلبہ کو ایک دوسرے سے میل جول کے مواقع فراہم کیے جانے چاہییں۔
ذیل میں ملک بھر سے تمام مسالک کے نمائندہ 44 مدارس کے 135 طلبہ کے مطالعے کے نتائج دیے گئے ہیں۔
شخصی پسِ منظر:
جن طلبہ کا جائزہ لیا گیا ، ان کی عمریں 18 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔ بیشتر طلبہ اپنے پیدائشی صوبوں یا انتظامی اکائیوں میں قائم دینی اداروں میں ہی زیرِ تعلیم تھے۔ مثلاً پنجاب سے تعلق رکھنے والے طلبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے طلبہ خیبر پختونخوا میں قائم مدارس میں زیرِ تعلیم تھے۔
تاہم کچھ طلبہ دیگر صوبوں میں بھی زیرِ تعلیم تھے، مگر قریبی صوبوں میں جیسا کہ سندھ کے طلبہ بلوچستان ، پنجاب کے خیبر پختونخوا اور خیبر پختونخوا کے پنجاب کے مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ لیکن زیادہ تر یہ طلبہ دوسرے صوبے کے متصل اضلاع سے تعلق رکھتے تھے۔
ایسے طلبہ بھی تھے جو اپنے آبائی صوبے سے بہت دور تعلیم حاصل کررہے تھے۔ جیساکہ گلگت بلتستان کے طلبہ کراچی جیسے دور افتادہ شہر کے مدارس میں داخلہ لیے ہوئے تھے۔تاہم اس بارے کچھ کہنا مشکل ہے کہ ان طلبہ کےخاندان گلگت بلتستان میں رہائش پذیر ہیں یا وہ بھی کراچی میں مقیم ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ اپنے ہی صوبے میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ ضروری نہیں اسی شہر کے رہائشی ہوں، جہاں ان کی مادرِ علمی قائم ہے۔لاہور میں قائم ایک مدرسے کے طلبہ لاہور کے علاوہ پنجاب کے دیگر علاقوں، جیسا کہ فیصل آباد اور قصور سے بھی تعلق رکھتے تھے۔
بیش تر طلبہ اپنے ہی اضلاع یا پھر متصل اضلاع میں قائم مدارس میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ ترقیاتی حوالے سے قصور اور فیصل آباد لاہور سے کئی درجے نیچے ہیں اور یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ زیادہ تر طلبہ نسبتاً پسماندہ علاقوں سے سفر کر کے ترقیاتی حوالے سے مستحکم شہروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
لیکن ایک قابلِ ذکر تعدا د ایسے طلبہ کی بھی ہے جو نسبتاً مستحکم اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں، مگر تعلیم کے حصول کے لیے پسماندہ علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈیرہ اسمٰعیل خان میں قائم جامعہ سراج ، جہاں جنوبی پنجاب کے متصل اضلاع کے طلبہ زیرِ تعلیم ہیں، جبکہ جنوبی پنجاب کے یہ اضلاع ڈیرہ اسمٰعیل خان کی نسبت مستحکم اور بہتر ہیں۔
ایک حد تک طلبہ کےآبائی صوبوں کا بھی عمل دخل رہتا ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ سے واسطہ نہ رکھنے والے زیادہ تر طلبہ، بہاولنگر، بٹگرام، گلگت، اور قصور کے چھوٹے قصبوں اور دوردراز علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
نصابی ، ہم نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں:
بیش تر طلبہ کا کہنا تھا کہ ان کے نصاب میں کوئی ایسا مواد موجود نہیں جو انہیں مخالف مسلک یا عقیدے کے افراد سے میل جول سے منع کرتا ہے۔ بہت قلیل تعداد ایسی بھی تھی ، جن کا جواب ہاں میں تھااورانہوں نے اپنے جواب کی توثیق کے لیے اقلیتوں کے عقائد کا حوالہ دیا۔
طلبہ کی کثیر تعداد اپنے نصاب سے انتہائی مطمئن تھی اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمارا نصاب ہماری فکری نمو کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری مذہبی اور تعلیمی ضروریات پوری کرتا ہے۔یقیناً کچھ طلبہ نے اس سے مختلف آراء کا اظہار کیا تاہم وہ اس کی کوئی وجہ بتانے سے قاصر رہے اور ایسے طلبہ میں سے بیشتر کی عمر 20 سال سے کم تھی۔
باوجود اس کے کہ مدارس کا تعلیمی نصاب دوسرے مسالک سے تعلق نہ رکھنے پر مجبور نہیں کرتا لیکن اکثرطلبہ بین المسالک تعلقات رکھنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ تعداد ایسے طلبہ کی تھی جو سماجی ویب سائٹس پر اپنے ہم مدرسہ اور ہم جماعت ساتھیوں سے دوستی رکھتے ہیں اور پھر بالترتیب دوسرے مدارس کے طلبہ و اساتذہ ، دوسرے مسالک اور دیگر عقائد رکھنے والے افراد سے دوستی کی شرح خاطر خوا ہ کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
مدارس کے نصاب میں شامل مضامین میں طلبہ کا اکثریتی رجحان منطق، فلسفہ، علم الکلام اور مطالب و مفاہیم کے بجائے قرآن، حدیث اور اصولِ حدیث کی جانب دیکھا گیا ہے۔ جبکہ شیعہ مکتبِ فکر میں یہ رجحان باقی ماندہ مکاتبِ فکر کے طلبہ سے مختلف نظر آتا ہے۔
نصابی مضامین کے علاوہ زیادہ تر طلبہ کی دلچسپی تاریخ کے مضمون میں دیکھنے کو ملی، جبکہ کچھ طلبہ نے کمپیوٹر میں بھی دلچسپی ظاہر کی۔
20فیصد طلبہ کا کہنا تھا کہ ان کے مدارس میں ہم نصابی سرگرمیوں میں انہیں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اجازت میسر ہے ۔ جبکہ بیش تر نے اس حوالے سے کھیلوں کا ذکر کیا۔
طلبہ کی اکثریت نے کہا کہ ان کے مدارس میں مکالموں اور مباحثوں کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ تمام مکاتبِ فکر کے بیش تر طلبہ تقریر و وعظ کو اظہارِ رائے کا پسندیدہ ذریعہ کہتے ہیں۔
جن موضوعات پر مباحثے یا مکالمے منعقد ہوتے ہیں، وہ زیادہ تر تعلیم اور مذہب پر محیط ہوتے ہیں۔یہی موضوعات طلبہ کے مابین اور طلبہ اور ان کے اساتذہ کے مابین زیادہ زیرِ بحث لائے جاتے ہیں اور ان دونوں موضوعات میں بھی مذہب کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جبکہ تعلیم کا موضوع ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ جماعتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام چلنے والے مدارس میں یہ رجحان قدرے مختلف ہے جہاں سیاست بھی ایک اہم موضوع کے طور پر زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔
طلبہ کی انتہائی قلیل تعداد نے کہا کہ وہ غیر نصابی سرگرمیوں ،جس کا مطلب مدرسہ کی حدود سے باہر ہے، کے طور پر باہمی محافل میں مسلکی موضوعات کو زیرِ بحث لاتے ہیں۔ جبکہ بیش تر طلبہ نے کہا کہ اس دوران وہ مذہبی مجالس اور کانفرنسز میں شرکت کرتے ہیں۔طلبہ کی ایک قابلِ ذکر تعداد نے کہا کہ وہ کھیلوں، سیر و سیاحت اور تفریح میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ جماعتِ اسلامی اور اہلِ حدیث طلبہ کی اکثریت فلاحی کاموں کا انتخاب کرتے ہیں۔
عالمی تناظر:
تمام طلبہ اپنےہی مکتبِ فکر کی سیاسی مذہبی جماعتوں سے متاثر نظر آئے۔ دیوبندی مدارس کے طلبہ نےبطور پسندیدہ سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام اور بریلوی مدارس کے طلبہ نے جمعیت علمائے پاکستان کا انتخاب کیا۔ بیش تر طلبہ نے کہا کہ وہ اپنے قائدین سے ملاقات کے مواقع حاصل کر چکے ہیں اور وہ ان جماعتوں کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ کچھ طلبہ نے قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں کی پسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔ زیادہ تر طلبہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے جماعتی قائدین سے نہیں مل پاتے اور نہ ہی ان جماعتوں کی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔
طلبہ کی کثیر تعداد اردو زبان میں چھپنے میں معروف قومی و صوبائی روزنامے پڑھتی ہے۔ ان کے پسندیدہ کالم نگاروں میں مذہبی شخصیات کے ساتھ ساتھ معروف اردو لکھاری بھی شامل ہیں۔
طلبہ اپنے مکاتبِ فکر سے وابستہ متنوع اردو جریدوں کا مطالعہ بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نسبتاًمعتدل فکر کے حامل ہیں ۔ تاہم یہ جریدے اپنے مخالف مکاتبِ فکر سے پسندیدگی کی سند حاصل نہیں کر سکے۔یہی رجحان پسندیدہ جریدہ لکھاریوں کے حوالے سے بھی سامنے آتا ہے۔
حتیٰ کہ طلبہ کی پسندیدہ شخصیات میں بھی مسلکی رنگ نمایاں ہے اور کسی ایک مسلک کی شخصیت کسی دوسرے مسلک کے طلبہ مدارس کی پسندیدہ شخصیات میں شامل نہیں ہے۔یہ شخصیات مذہبی ، سیاسی اور سماجی مقام و مرتبے کے لحاظ سے پسندیدہ منتخب کی گئی تھیں۔
مسلکی تقسیم:
طلبہ مدارس کے زیادہ تر رجحانات میں فطری طور پر مسلکی رنگ نظر آتا ہے۔ ایک حد تک یہ قابلِ فہم ہے کیونکہ ہر مدرسہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلکی بنیادوں پر قائم وفاق سے ملحق ہوں، جن کی تعدا د پانچ ہے اور وہ دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث، شیعہ اور جماعتِ اسلامی مکاتبِ فکر سے منسلک ہیں۔ تاہم اس جائزے کے دوران تمام مکاتبِ فکر کے طلبہ میں متنوع رجحانات دیکھنے میں آئے ہیں، جو حسب ذیل ہیں:
دیوبندی طلبہ صوبائی اور نظریاتی سطح پر باہم مختلف رجحانات رکھتے ہیں۔ دوسرے طلبہ کی طرح ان کا جھکاؤ بھی مسلکی سیاسی جماعتوں کی طرف دکھائی دیتا ہے۔ تاہم زیادہ تر طلبہ ، بالخصوص خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام کی پیروی کرتے ہیں، دوسرے نمبر پر بالخصوص پنجاب اور آزاد جموں و کشمیر میں وہ اہلسنت والجماعت پاکستان کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں جو کہ ایک کالعدم تنظیم ہے۔ باقی مکاتبِ فکر سے وابستہ طلبہ کے برعکس دیوبندی طلبہ سماجی ویب سائٹس پر سماجی و سیاسی رہنماؤں کو اپنے دوستوں کی فہرست میں شامل کرنے میں پیش پیش ہیں۔
بریلوی طلبہ میں بھی اسی طرح سیاسی حوالے سے مختلف رجحانات دیکھنے میں آئے ہیں۔ وہ پہلے نمبر پر جمعیت علمائے پاکستان اور دوسرے نمبر پر جماعتِ اہلِ سنت کی طرف مائل ہیں، جبکہ دونوں جماعتیں ایک ہی طرح کی سیاسی فکر کی حامل ہیں۔ اپنے اساتذہ کے ساتھ چار گھنٹوں سے زیادہ وقت گزارنے والے طلبہ کی اکثریت بریلوی مکتبِ فکر سے وابستہ ہے۔
شیعہ طلبہ باقی ماندہ تمام مکاتبِ فکر کے برعکس مختلف رجحانات کے حامل ہیں۔ شیعہ طلبہ کی کثیر تعداد نے منطق اور فلسفہ کو اپنا پسندیدہ مضمون قرار دیا۔ کسی ایک شیعہ طالبِ علم نے بھی یہ نہیں کہا کہ ان کے مدرسے میں مباحثوں کا انتظام نہیں کیا جاتا۔
جبکہ طلبہ کی اکثریت تاریخ میں دلچسپی رکھتی ہے، اہلِ حدیث طلبہ مطالعہ پاکستان کو حد درجہ پسند کرتے ہیں۔ ان میں سیاسی رجحانات میں تنوع نہیں پایا جاتا، اکثر طلبہ نے جمعیت اہل حدیث کو اپنی پسندیدہ جماعت کے طور پر منتخب کیا۔
جماعتِ اسلامی کے طلبہ بھی دیگر جماعتوں کے بارے میں زیادہ وسعت نہیں رکھتے۔ دیگر مکاتبِ فکر کے برعکس جماعتِ اسلامی سے وابستہ مدارس کے طلبہ اپنے رسمی و غیر سمی مباحثوں میں مذہبی موضوعات کو بمشکل زیرِ بحث لاتے ہیں۔
اس سروے میں سبوخ سید، مجتبیٰ راٹھور اور محمد یونس نے بطور فیلڈریسرچر کام کیا جبکہ اس رپورٹ کی تیاری میں محمد اسماعیل خان،صفدر سیال اور زرغونہ عالم نے بھرپور کام کیا۔
’مجھے اپنی طرف اٹھتی لوگوں کی انگلیاں نظر آتی ہیں۔وہ کہتے ہیں، یہ ہے وہ لڑکا۔۔۔۔ معلوم ہے اس کے ساتھ کیا ہوا تھا؟‘ یہ شکوہ قصور کے نواحی حسین خان والا گاؤں میں ایک چھوٹے سے گھر میں بیٹھے ولید نے جیو ڈاٹ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اگر ممکن ہوتا، تو محمد ولید کالج چھوڑدیتا۔ اس طرح کم از کم ہر روز کلاس میں اس کا دل تو نہ ڈوبتا۔ اسے ساتھی طلبہ کے طعنے اور اساتذہ کی پراسرار سرگوشیاں تو نہ سننے کو ملتیں۔ کم از کم کالج چھوڑ کر وہ کسی ایسی پرسکون گمنامی میں جا سکتا تھا جہاں نہ تو کوئی اس کا نام جانتا اور نہ ہی اس کی دردناک کہانی ۔
18 سالہ محمد ولید بچوں سے جنسی استحصال کے گینگ کا نشانہ بنے جو قصور کے علاقے حسین خان والا میں آپریٹ کرتا تھا۔
ولید کی طرح اس گاؤں کے سینکڑوں بچے اپنے ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہے ہیں انہی میں عید محمد کا بیٹا بھی شامل ہے جو واقعے کے بعد سے گاؤں چھوڑ کر لاہور منتقل ہوگیا۔ اس واقعے نے اس کی زندگی تباہ کردی۔
جب ولید نے پہلی دفعہ قصور ٹیکنیکل کالج میں داخلہ لینے کی کوشش کی تو انتظامیہ نے صاف انکار کر دیا جس کے بعد گاؤں والے عید محمد کے ساتھ کالج کے پرنسپل سے ملنے گیا۔
عید محمد نے بتایا کہ ’کالج والوں کومنانا آسان نہیں تھا۔ لیکن ولید کا کالج جانا، نہ صرف خود اس کے لیے بلکہ ہم سب کے لیے بھی بہت ضروری تھا۔‘
عید محمد گاؤں حسین خان والا میں الیکٹریشن کا کام کرتے ہیں۔ ان کا اپنا بیٹا بھی اس گاؤں کو چھوڑ لاہور چلا گیا ہے۔ آخری بار وہ اپنے والدین سے بقرعید پر ملنے آیا تھا اور فجر کی نماز کے بعد خاموشی سے واپس چلا گیا تھا۔
قصور کے تقریباً 300 بچے بھی عید محمد کے بیٹے کی طرح یا تو گاؤں چھوڑ چکے ہیں یا اب کسی کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ان کی زندگی اب ایک قیدی کی زندگی بن چکی ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا یہ ہولناک سلسلہ 2008 سے جاری ہے۔
قصور کے چھوٹے سے گاؤں حسین میں ہونے والی درندگی دنیا کے سامنے 2015 میں عیاں ہوئی اور معصوم بچوں کی زندگیوں کی تباہی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
محمد اکرم اور زبیدہ بی بی کی ایک تصویر۔ ان کے بیٹے ابو سفیان کو قصور میں 17 رکنی گینگ نے جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔
ان واقعات کی تفصیلات دل دہلا دینے والی ہیں جب کہ حکومتی سطح پر اس گھناؤنے کاروبار پر مجرمانہ خاموشی بھی حیران کن ہیں ۔6 سے10سال کی عمر کے 284 بچوں کو نہ صرف جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ان کی ویڈیوز بھی بنائی گئیں جن کے ذریعے زیادتی کرنے والے 17 مردوں نے بچوں کو بلیک میل کرکے ناصرف پیسے کمائے بلکہ اور انہیں کہیں کا نا چھوڑا۔
2008 میں ولید کی عمر دس سال تھی۔ اسکول کے بعد اس نے ایک شخص سے گھر تک کی لفٹ مانگی۔ لیکن وہ شخص ولید کو ایک خالی حویلی لے گیا۔ وہاں تین مرد انتظار کر ر ہے تھے جن میں سے ایک نے ولید کو پستول دکھا کر ڈرایا اور پھر تشدد کا نشانہ بنایا۔ جس کے بعد ان افراد نے ساتھ جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا شروع کیا۔
ان میں سے ایک شخص ولید کے ساتھ جنسی زیادتی کر رہا تھا تو دوسرا اس کی فلم بنا رہا تھا۔
ولید نے جیو ویب کو بتایا کہ ’مجھے مسکرانے کو کہتے تھے، اور اگر میں نہ مسکراتا تو کیمرہ روک کر مجھے مارتے۔‘
2008 سے 2015 تک ولید کو دس مرتبہ جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی ویڈیوز بھی بنائی گئیں ۔ اس کے گھر والے اس کی آزمائش سے بے خبر تھے۔ انہیں اس وقت پتہ چلا جب یکے بعد دیگرے ساری فلمیں گاؤں والوں کے موبائل فون پر آنا شروع ہوئیں۔
یہ گھناؤنا دھندہ جاری رہتا اگر انگریزی روزنامہ ’دی نیشن ‘ اس سے پردہ نا اٹھاتا۔ عوام کا ردعمل دیکھ کر پنجاب حکومت نے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی اور 17 ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ بہت سے وعدے بھی کیے گئے لیکن ایک بھی پورا نہ ہو سکا۔ آج 17 میں سے 10 ملزمان عدالت سے ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔ یہ ملزمان اب متاثرہ افراد کے گھر والوں کو دھمکیاں دے کر مقدمہ واپس لینے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
جب کہ متاثرین کا کہنا ہےکہ پولیس اور مقامی سیاستدانوں کے دباؤ میں آ کر چند بچوں کے لواحقین نے اپنے کیس واپس لے لیے ہیں۔
سات ملزمان ابھی بھی جیل میں ہیں جب کہ صرف دو کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔
اس سانحے کے منظرعام پر آنے کے بعد بھی قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور جنسی تشدد کے واقعات ختم نہیں ہوئے۔ اسلام آباد کی این جی او ’ساحل‘ کے مطابق 2016 میں قصور میں جنسی زیادتی کے 141 واقعات پیش آئے۔ لیکن سیاست اور پاناما لیکس کے شور میں قصور کے ان بے قصور بچوں کی آواز کسی نے نہ سنی ۔
رواں ماہ زینب کو اغواء کے بعد جنسی زیادتی کرکے قتل کر دیا گیا اور قصور ایک مرتبہ پھر شہ سرخیوں میں آ گیا ۔
قصور کی 7 سالہ بچی زینب کو چار جنوری کو اغواء کیا گیا تھا۔ پانچ روز بعد ایک کچرا کنڈی سے اس کی لاش ملی۔
جنوری کی چار تاریخ کو قصور کی 7 سالہ زینب اپنے گھر کے قریب سے غائب ہو گئی۔ پانچ دن بعد اس کی تشدد زدہ لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔ زیادتی کے بعد اس کو گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا ۔ سوشل میڈیا پر معصوم زینب کی تصویریں آگ کی طرح پھیل گئیں۔
مظاہرین قصور میں نکلے اور اپنے بچوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ سخت دباؤمیں آ کر انتظامیہ نے قاتل کو پکڑنے کے لیے صوبے بھر میں تلاش شروع کردی۔
بلآخر دو ہفتے کے بعد قاتل کا سراغ مل گیا جو کہ زینب کے گھر کے قریب ہی رہتا تھا۔ 24 سالہ ملزم محمد عمران نے تقریباً ایک سال سے بچیوں کو اپنی ہوس اور بے رحمی کا نشانہ بنایا۔ اس کا طریقہ واردات ایک ہی تھا۔ بچی کو غائب کرتا، زیادتی کرتا، پھر گلہ دبا کر مار دیتا اور لاش کو کوڑے کے ڈھیر میں یا کسی زیرِ تعمیر عمارت میں پھینک دیتا۔ ان میں سے صرف 6 سالہ کائنات بتول زندہ حالت میں پائی گئی لیکن اس کی حالت نازک ہے اور اس کو کچھ یاد نہیں۔
عمران کا ڈی این اے سب بچیوں کے جسم سے ملے ڈی این اے سے میچ کر گیا۔
تحقیقاتی ٹیم نے جیو ویب کو بتایا کہ عمران کئی کئی دن تک ایک ہی بچی پر نگاہ رکھتا۔ اسے ٹافیاں دیتا، گھماتا پھراتا اور اپنا اعتبار قائم کرتا۔ جس کے بعد وہ اسے۔۔۔
قصور میں ڈی پی او آفس کے پریس افسر ساجد حسین کے مطابق عمران بچیوں کو ٹافیاں دے کر ان سے دوستی کرتا تھا۔ اغواء کرنے کے بعد اسی رات نشہ دے کر ان کو بے ہوش کر دیتا اور زیادتی کے بعد قتل کر دیتا۔ حیرت انگیز طور پر عمران کا یہ گھناؤنا چہرہ محلے والوں سے چھپا رہا۔ عمران کو محلے والے اکثر نعت خوانی کے لیے اپنے گھر میلاد پر بلاتے تھے۔
یہ سب معلومات اہل علاقہ کی مدد سے ہی پتہ چلیں۔ قصور کے ایک رہائشی قیصر شیخ بتاتے ہیں کہ ’’ہمارے تحقیقاتی اداروں کا حال یہ ہے کہ اگر لوگ اپنی دکانوں کے باہر لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ نہ دیتے تو پولیس کو نہ پتہ چلتا کہ قاتل کیسا دکھائی دیتا ہے۔ ”
ساحل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر منیزے بانو کہتی ہیں کہ پنجاب میں راولپنڈی، فیصل آباد اور مظفر گڑھ میں قصور سے زیادہ کیس ریکارڈ کیے گئے ہیں لیکن 2015 کے واقعات کے بعد قصور نظروں میں رہتا ہے ۔
منیزے بانو کے مطابق کہیں بھی کیس کی تعداد بڑھے یا گھٹے، بچوں پر تشدد طاقت کا کھیل ہے۔
2015 میں ہونے والے اس گھناؤنے جرم پر قصور میں مجموعی طور پر 35 مقدمے درج کروائے گئے جن میں سے اب تک 8 خاندان اپنے مقدمات واپس لے چکے ہیں۔
متاثرہ خاندانوں کے وکیل، لطیف احمد سرا کا کہنا ہے کہ ان میں کچھ خاندانوں نے پولیس کےدباؤ کی وجہ سے اپنی ایف آئی آر واپس لی ہیں جب کہ دیگر کو کیس واپس لینے کے لیے مسلم لیگ (ن )کے مقامی ایم پی اے ملک سعید نے اپنے ڈیرے پر بلا کر پیسے دیے ۔
حسین خان والا کے ولید کو بھی ایسی ہی ایک کال موصول ہوئی۔ولید نے جیو ویب کو بتایا کہ’’2016 میں مجھے ملک سعید کے ذاتی نمبر سے کال موصول ہوئی۔ اس نے مجھےساڑھے 4لاکھ روپے (450000 )کی پیشکش کی۔ لیکن مجھے اس کی دولت نہیں، انصاف چاہیے۔ اگر انصاف نہ ملا تو میں اپنے آپ کو آگ لگا دوں گا۔‘‘
جب جیو ویب نے ملک سعید سے رابطہ کیا، انہوں نے اس الزام کی سختی سے تردید کر دی اور کہا “اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو سامنے لے کر آئے۔”
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اپنی رپورٹ میں پولیس اور سیاستدانوں کے کردار کو مشکوک قرار دیا اور یہ بھی لکھا کہ متعلقہ پولیس افسران نے تحقیقاتی ٹیم سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
پنجاب حکومت نے 2015 سے اب تک قصور میں6 ڈی پی او تبدیل کیے ہیں۔
حکومتی وزرا ءنے بھی واقعے کی شدت کو دبانے کی کوشش کی۔ صوبائی وزیرقانون رانا ثنا ء اللہ نے اس کو زمین کی ملکیت کا جھگڑا قرار دیا ہے جو کہ 400 ویڈیوز کے سامنے آنے کے بعد حیران کن بیان ہے۔
ایک متاثرہ بچے ابو صفیان کی والدہ زبیدہ بی بی کہتی ہیں کہ ’’زینب کے مرنے کے کچھ ہی گھنٹے بعد رانا ثناء یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ قاتل زینب کا رشتہ دار ہے۔ پتا نہیں ایسی باتیں وہ کیسے کر دیتے ہیں؟‘‘
زبیدہ بی بی کے ساتھ بیٹھے عید محمد کا کہنا تھا کہ “یہ زمین نہیں، ضمیر کا معاملہ تھا۔”
حسین خان والا کے واقعے سے یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ بچوں پر تشدد کے واقعات میں انصاف کم ہی ملتا ہے۔ ان بچوں کے والدین غریب ہیں اور مزدوری کرکے روزی روٹی کماتے ہیں۔ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ لاہور پیشیوں پر جا سکیں۔
2015 میں سب خاندان لاہور گئے اور شہباز شریف سے ملاقات کی۔ وزیراعلی ٰنے بہت سے وعدے کیے جن میں لاہور آنے جانے کے لیے اخراجات، وکیل کی فیس اور سیکیورٹی شامل تھیں۔ اب حالات یہ ہیں کہ والدین پیسے جمع کرتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے ٹولوں میں لاہور کی عدالت جاتے ہیں۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف صرف وکیلوں کی ٹیم مہیا کردیں تو ہماری مشکل آسان ہوجائے۔
اس صورتحال میں عید محمد کو امید نہیں ہے کہ زینب اور باقی بچیوں کو انصاف ملے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ “اگر ہمیں انصاف نہیں ملا تو زینب کے والدین کو کیسے ملے گا؟۔۔۔اگر میرے بیٹے کو اب بھی انصاف نہیں ملا تو ہم پنجاب اسمبلی کے باہر خود کو آگ لگا لیں گے۔ شاید ایسا کرنے سے ہمیں توجہ مل جائے۔”
لکھاری: مختار احمد
مقبوضہ کشمیر ہمارا اٹوٹ رنگ ہے جہاں نہ صرف سر سبز وادیاں، دلکش جھرنے، ندیاں، خوبصورت آبشار ہیں وہیں ہمالیہ کے سرکش پہاڑ بھی فخر سے کھڑے آسمان کی بلندیوں کو چھورہے ہیں۔ قدرت کی ان رعنائیوں کو دیکھ کر اس کا شمار پرستانوں میں کیا جاسکتا ہے۔
یہ برصغیر پاک و ہند کے شمال مغرب میں واقع ایک ریاست ہے جس کا کل رقبہ 69547 مربع میل ہے۔ 1947 کے بعد ریاست جموں کشمیر میں تقسیم ہوگئی۔ اس وقت بھارت 39102 مربع میل پر قابض ہے جو ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کا دارالحکومت سری نگر ہے، بقیہ علاقہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے جو 25 ہزار مربع میل رقبہ پر پھیلا ہوا ہے؛ اور اس کا دارالحکومت مظفر آباد ہے۔ ریاست کی کل آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے جس میں سے 25 لاکھ آزاد کشمیر میں ہیں۔
ہندو راجاؤں نے تقریباً 4 ہزار سال تک اس علاقے پر حکومت کی۔ 1846 میں انگریزوں نے ریاست جموں کشمیر کو 75 لاکھ روپوں کے عوض ڈوگرہ راجا غلام سندھ کے ہاتھوں فروخت کردیا۔ کشمیر کی آبادی 80 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ہندو راجا نے بزور شمشیر مسلمانوں کو غلام بنا رکھا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلمانوں کی مرضی کے خلاف 26 اکتوبر 1947 کو بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا اس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت میں جنگ کا آغاز ہوا۔
سلامتی کونسل کی مداخلت پر یکم جنوری 1949 کو جنگ بندی ہوگئی۔ سلامتی کونسل نے 1948 میں منظور شدہ دو قراردادوں میں بھارت اور پاکستان کو کشمیر سے افواج نکالنے اور وادی میں رائے شماری کشمیر کروانے کےلیے کہا۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے رائے شماری کروانے کا وعدہ کرلیا مگر بعد ازاں اپنے اس وعدے سے منحرف ہوگئے۔ پاکستان نے بھارت سے آزاد کرائے گئے علاقے میں آزاد کشمیر کی ریاست قائم کردی جبکہ مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ اب بھی جاری ہے، حالانکہ اس مسئلے کے حل میں اقوام متحدہ کا عالمی فورم، کشمیری عوام کے استصواب رائے کے مطالبے کو تسلیم کرچکا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اب بھی یہی مسئلہ تنازعے کی صورت میں برقرار ہے اور دونوں ممالک اس سلسلے میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ کشمیر کا بچہ بچہ آج بھی اسے پاکستان کا حصہ ہی تسلیم کر تا ہے اور وہاں کشمیر کی آزادی کے نام پر شہادت پانے والوں کو آج بھی پاکستان پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کیا جا تا ہے۔
ویسے تو کشمیری حریت پسند، اپنی آزادی کی یہ جنگ گزشتہ 70 سال سے بدستور لڑرہے ہیں جس کی پاداش میں 40 لاکھ سے زائد کشمیری بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ آزادی کی اس راہ میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ 70 سال سے وہاں تعینات بھارتی فوجیوں، اسپیشل فورسز اور پولیس نے، جن کی تعداد آج 8 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے، مسلمان نہتے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔
روزانہ کی بنیادوں پر وہاں خواتین کی عصمتیں تار تار کی جارہی ہیں، ماؤں اور بہنوں سے ان کے سہاگ چھینے جارہے ہیں، لاکھوں بچے یتیم ہوچکے ہیں مگر آج بھی ان کشمیریوں کے لب پر ایک ہی صدا گونج رہی ہے: ’’کشمیر بنے گا پاکستان،‘‘ مگر اس سلسلے میں پاکستان میں آنے والی حکومتوں نے سوائے لفظی جنگ اور مسئلے کو عالمی فورم کے اٹھائے جانے کے، اور کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا۔ اسی بناء پر آج بھی مقبوضہ کشمیر اسی جگہ کھڑا ہے جہاں 70 سال سے کھڑا تھا۔
بھارتی افواج کے مظالم میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے جس کے تحت نہ صرف مرد، خواتین اور بچوں کو شہید کیا جارہا ہے بلکہ خواتین کی عصمتیں لوٹی جارہی ہیں، جبکہ کشمیر کے نونہال مستقبل سمیت نوجوانوں کی آنکھیں نکالی جا رہی ہیں اور ان پر ربڑ اور لوہے کی وہ گولیاں برسائی جا رہی ہیں جن کے نتیجے میں لاتعداد افراد بلاناغہ معذور ہو رہے ہیں۔ مگر ماسوائے اللہ کے، ان کا بھری دنیا میں کوئی اُن کے حقیقی حال سے واقف نہیں۔ عالمی فورم اور اقوام متحدہ بھی خاموش تماشائی بن کر اس ظلم و بربریت کو دیکھ رہے ہیں جبکہ انسانی حقوق کا چیمپئن امریکا، بھارت سے تجارتی تعلقات بہتر بنانے کےلیے اس سے پینگیں بڑھارہا ہے اور شاید وہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت ہی کا حصہ تسلیم کرچکا ہے، لہذا وہ کسی نہ کسی طریقے سے بھارت کی سرپرستی کرنے میں مصروف عمل ہے۔
مگر اس سلسلے میں مظلوم کشمیریوں کے عزائم کچھ اور ہیں اور ان کی رگ رگ میں جدوجہد آزادی، خون کی مانند بہہ رہی ہے؛ اور وہ الحاق پاکستان چاہتے ہیں۔ قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے 1946 میں مسلم کانفرنس کی دعوت پر سرینگر کا جب دورہ کیا۔ وہاں قائداعظمؒ کی دور اندیش نگاہوں نے سیاسی، دفاعی، اقتصادی اور جغرافیائی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیر کو ’’پاکستان کی شہ رگ‘‘ قرار دیا۔
مسلم کانفرنس نے بھی کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے 19 جولائی 1947 کو سردار ابراہیم خان کے گھر سری نگر میں باقاعدہ طور پر قرارداد الحاقِ پاکستان منظور کی مگر بھارت نے اسے یکسر مسترد کردیا۔ اس پر کشمیریوں نے بھارتی افواج کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کردی جو اب تک جاری ہے اور جس میں مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان سے لے کر ان کی آنے والی نسلوں تک، جن میں آج مجاہد اول سردار عبدالقیوم کے صاحبزادے سردار عتیق آج تک حریت پسندوں کی نہ صرف بھرپور مدد کررہے ہیں بلکہ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی آواز کو بڑے پیمانے پر عالمی فورم پر اٹھانے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
جب آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی حالیہ جدوجہد کو جاننے کےلیے سندھ زون کے صدر سردار عبدالرشید ڈار سے تفصیلی بات چیت کی تو ان کا کہنا تھا کہ کشمیری عوام اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، وہ آزادی لے کر رہیں گے، انہیں اوچھے ہتھکنڈوں سے نہ ڈرایا جاسکتا ہے نہ دبایا جاسکتا ہے؛ کشمیر کی آزادی اور الحاقِ پاکستان تک ہماری جدوجہد بدستور جاری رہے گی خواہ اس کے نتیجے میں ہمیں اپنے گود کے بچوں کی جانوں کا نذرانہ کیوں نہ دینا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کشمیر کی جنگ عقیدے اور آزادی کی جنگ ہے جس کےلیے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔
ان کا کہنا تھا: ’’5 فروری کو منائے جانے والے یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر نہ صرف پورا پاکستان بلکہ پورا آزاد کشمیر بھی اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں سے مکمل طور پر اظہار یکجہتی کا اعلان کرتا ہے۔ ہماری جدوجہد میں شریک ہر کشمیری سے اپیل ہے کہ وہ ایک بار پھر مسلمان فاتح محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور سلطان صلاح الدین ایوبی بن جائے تاکہ کشمیر کو پاکستان کا اٹوٹ انگ بنایا جاسکے۔‘‘
شرم اور افسوس سے میرا سر جھک گیا۔ میں نے ایک اہم سوال کا جواب حاصل کر لیا تھا اور آنکھیں بند کر کے سوچنے لگا کہ کاش وہ ہیرو غلط وقت پر شادی نہ کرتا تو تاریخ میں ہیرو سے زیرو نہ بنتا۔ اس شخص کا نام میجر خورشید انور تھا۔ بانی پاکستان قائداعظمؒ محمد علی جناح کے پہلے سینئر ملٹری سیکریٹری میجر جنرل محمد اکبر خان کی کتاب ’’میری آخری منزل‘‘ میں بار بار خورشید انور کا ذکر آتا ہے۔
یہ صاحب اکتوبر 1947ء میں اُس قبائلی لشکر کی قیادت کر رہے تھے جو مظفر آباد کو ڈوگرہ فوج سے آزاد کروانے کے بعد سری نگر کے قریب پہنچ گیا تھا لیکن یہ لشکر بارہ مولا میں غیر ضروری طور پر رُک گیا اور اس دوران بھارتی فوج سری نگر پہنچ گئی۔
میجر جنرل محمد اکبر خان 1947ء میں برٹش انڈین آرمی کے سب سے سینئر مسلمان افسر تھے اور قائداعظمؒ کے بہت قریب تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہر قیمت پر جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانا چاہتا تھا اور پاکستان کی سول و ملٹری قیادت میں شامل اہم لوگ غیر اعلانیہ طور پر اس کی مدد کر رہے تھے۔
وزیراعظم لیاقت علی خان نے قائداعظمؒ سے مشورہ کئے بغیر کشمیر کی آزادی کے لئے ایک منصوبہ بنانے کا حکم دیا۔ اس سلسلے میں راولپنڈی میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیر خزانہ غلام محمد، میاں افتخار الدین، زمان کیانی، سردار شوکت حیات، کرنل اکبر خان اور خورشید انور شامل ہوئے۔ اجلاس کے بعد ان سب نے اپنے اپنے منصوبے اور حکمت عملی بنا لی۔ اصل منصوبے کا نگراں سردار شوکت حیات کو بنایا گیا جو آزاد کشمیر کی فوج کے ذریعے آگے بڑھنا چاہتے تھے لیکن خورشید انور قبائلی لشکر کے ہمراہ بارہ مولا اور اوڑی تک جا پہنچا۔
میجر جنرل اکبر خان نے انکشاف کیا کہ 21 اکتوبر 1947ء کو اس قبائلی لشکر سے متعلق جی ایچ کیو راولپنڈی سے دہلی کے آرمی ہیڈ کوارٹر کو تار کے ذریعے اطلاع دے دی گئی۔ یہ اطلاع جنرل گریسی نے ماؤنٹ بیٹن کو بھیجی اور پھر ماؤنٹ بیٹن نے بھارتی فوج کو سری نگر پہنچانے کا اہتمام کیا۔
میجر جنرل اکبر خان نے لکھا ہے کہ وزارت دفاع کا کنٹرول اسکندر مرزا کے پاس تھا اور پاکستانی وزارت دفاع، قائداعظمؒ کے بجائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ وفادار تھی، پھر نجانے کیا ہوا کہ خورشید انور قبائلی لشکر کو چھوڑ کر واپس پشاور چلا آیا۔ میجر جنرل اکبر خان نے یہ تو لکھا کہ خورشید انور نے کرنل اکبر خان کی کئی باتیں نہیں مانیں لیکن مزید تفصیل نہیں لکھی۔
ان صاحب سے متعلق مزید تفصیل مجھے سردار شوکت حیات کی کتاب ’’گم گشتہ قوم‘‘ میں ملی۔ خورشید انور مسلم لیگ نیشنل گارڈ کا سربراہ تھا اور اس نے اپنے نام کے ساتھ میجر بھی لگا لیا تھا۔ وزیر خزانہ غلام محمد نے اپنے اس ککے زئی رشتہ دار کو زبردستی کشمیر آپریشن میں شامل کرایا۔
سردار شوکت حیات لکھتے ہیں کہ ہم نے جموں و کشمیر سے دو اطراف سے حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ایک طرف سے کٹھوعہ روڈ پر قبضہ کرنا تھا، دوسری طرف مظفر آباد کے راستے سرینگر جانا تھا۔ منصوبے میں قبائلی لشکر شامل نہ تھا تاکہ رازداری قائم رہے۔ یہ حملہ ستمبر 1947ء میں کیا جانا تھا لیکن اچانک خورشید انور غائب ہو گیا۔ اس نے پشاور میں ایک مسلم لیگی خاتون سے شادی کر لی اور ہنی مون کے لئے غائب ہو گیا۔ اس شادی کے باعث حملے میں تاخیر ہوئی اور جب حملہ شروع ہوا تو خورشید انور ہائی کمان کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قبائلی لشکر کو لے کر آگیا۔ بارہ مولا میں قبائلیوں نے خورشید انور کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا جس پر وہ پشاور واپس چلا آیا اور بھارت کو اپنی فوج سرینگر پہنچانے کا موقع مل گیا۔
اگر یہ حملہ اکتوبر کی بجائے ستمبر میں کیا جاتا تو جموں اور سرینگر آزاد ہو چکے ہوتے لیکن خورشید انور نے اپنی شادی زیادہ ضروری سمجھی اور اس شادی کے باعث جموں و کشمیر پر حملے میں ایک ماہ کی تاخیر ہوئی۔
سرینگر پر بھارتی فوج کے قبضے کے باوجود مجاہدین کے حوصلے بلند تھے۔ نومبر 1947ء میں گلاب خان محسود کی قیادت میں قبائلی لشکر نے اوڑی میں بھارتی فوج سے بھاری مقدار میں اسلحہ چھین لیا لیکن دوسری طرف پاکستانی فوج کے انگریز افسران نے سیکریٹری دفاع اسکندر مرزا کی مدد سے وزیراعظم لیاقت علی خان کو سیز فائر پر راضی کر لیا اور یوں جموں و کشمیر کی مکمل آزادی کا خواب پورا نہ ہو سکا۔
ہر سال جب بھی 5 فروری کو ہم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے نام پر چھٹی کرکے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں تو ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ کیا گھر بیٹھ کر یہ چھٹی منانا اخلاقی طور پر جائز ہے؟ کیا آپ بھی کشمیریوں کے ساتھ وہی نہیں کر رہے جو پاکستان کے حکمراں طبقے نے بار بار کشمیریوں کے ساتھ کیا۔
پاکستان کے حکمرانوں نے اپنی غلطیوں سے کم از کم پانچ دفعہ جموں و کشمیر کی آزادی کا موقع ضائع کیا۔ یہ پہلا موقع 1947ء میں خورشید انور کی بے موقع شادی کے باعث ضائع ہوا۔ دوسرا موقع 1962ء میں آیا جب چین اور بھارت میں جنگ شروع ہوئی۔ سابق صدر ایوب خان کے پرنسپل سیکرٹری قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اکتوبر 1962ء کی ایک شب ڈھائی بجے مجھے ایک چینی باشندے نے جگایا اور بتایا کہ چین نے بھارت پر حملہ کر دیا ہے اور پاکستان موقع سے فائدہ اٹھا کر کشمیر آزاد کرا سکتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب بھاگم بھاگ ایوان صدر پہنچے اور جنرل ایوب خان کو جگا کر چین کا پیغام پہنچایا لیکن صدر صاحب نے کہا کہ جاؤ جا کر آرام سے سو جاؤ۔ شہاب صاحب کے خیال میں صدر ایوب نے کشمیر آزاد کرانے کا سنہری موقع کھو دیا۔ایسا ہی مشورہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ایوب خان کو دیا تھا لیکن ایوب خان چین کے اتحادی بن کر امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔
تیسرا موقع 1965ء میں آیا۔ جنرل ایوب خان نے صدارتی الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دی تھی اور بچہ بچہ انہیں گالیاں دے رہا تھا۔ اپنی عزت بحال کرنے کے لئے انہیں فاتح کشمیر بننے کا خیال آیا اور انہوں نے مئی 1965ء میں آپریشن جبرالٹر کی منظوری دی جس کے تحت ریگولر فورسز کو مجاہدین کے روپ میں کشمیر بھیجا گیا۔ بھارت نے جواب میں انٹرنیشنل بارڈر پر حملہ کر دیا اور جنگ شروع ہوگئی۔ جنگ میں پاکستان کا پلڑا بھاری تھا۔ پاکستانی فوج اکھنور کے قریب پہنچ گئی۔ چین، ایران اور انڈونیشیا سمیت کئی ممالک پاکستان کی حمایت کر رہے تھے لیکن ایوب خان امریکا کے دباؤ میں آ گئے اور انہوں نے سیز فائر کر دیا۔
بعد ازاں اس جیتی ہوئی جنگ کو معاہدہ تاشقند میں ہارنے کی کوشش ہوئی لیکن وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو حکومت سے باہر آگئے اور یوں ایوب خان کے خلاف وہ تحریک شروع ہوئی جو فوجی آمر کے زوال کا باعث بنی۔
جموں و کشمیر کی آزادی کا چوتھا موقع 1995ء اور 1996ء میں آیا جب تحریک آزادی کے باعث مقبوضہ ریاست میں سرکاری مشینری مفلوج ہو چکی تھی اور مجاہدین سرینگر میں ناردرن کمانڈ ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں تھے لیکن پاکستان میں وزیراعظم بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی سیاسی محاذ آرائی اور کچھ ریاستی اداروں کی سیاست میں مداخلت کے باعث کشمیر سے توجہ ہٹی رہی اور یہ موقع بھی ضائع ہو گیا۔
1999ء میں کارگل آپریشن ہوا۔ غلط منصوبہ بندی کے باعث اس آپریشن نے فائدے کی بجائے کشمیر کی تحریک آزادی کو نقصان پہنچایا۔ اگر سب ریاستی ادارے مل کر یہ منصوبہ بناتے تو کامیابی کا امکان روشن تھا۔ اس آپریشن کی ناکامی کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور 2007ء میں وہ بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے کشمیر کو مذاکرات کی میز پر ہارنے کے لئے تیار ہو چکے تھے لیکن ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ مشرف کشمیر پر سرنڈر نہ کرسکے۔
2015ء میں وزیراعظم نواز شریف نے روس کے شہر اوفا میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور ملاقات کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا اس میں کشمیر کا لفظ غائب تھا۔ اوفا اعلامیے کے بعد نواز شریف نہیں سنبھل سکے۔ جس حکمراں نے بھی کشمیریوں کی امنگوں اور آرزوؤں کے خلاف کوئی فیصلہ کیا، اس کا انجام برا ہوا۔ آج بھی کشمیری پاکستان کے ساتھ وفادار ہیں لیکن ذرا اپنے دل سے پوچھیے کہ آپ کشمیریوں کے ساتھ کتنے وفا دار ہیں؟
کیا آپ پاکستان کے لیے وہ قربانیاں دے سکتے ہیں جو کشمیری دے رہے ہیں؟ کشمیریوں کی آخری منزل پاکستان ہے۔ آج کشمیریوں کے نام پر چھٹی مناتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھیے کہ آپ کی آخری منزل کون سی ہے؟
بلاگ: وجاہت علی
چترال شہر سے کوئی دو گھنٹے کی مسافت پر کافرستان واقع ھے۔کیلاش مذھب میں خدا کا تصور تو ھے مگر کسی پیغمبر یا کتاب کا کوئی تصور نہیں.انکے مذہب میں خوشی ھی سب کچھ ھے.وہ کہتے ہیں جیسے کسی کی پیدائش خوشی کا موقع ھے اسی طرح اسکا مرنا بھی خوشی کا موقع ھے.
چنانچہ جب کوئی مرتا ھے تو ھزاروں کی تعداد میں مردوزن جمع هوتے هیں- میت کو ایک دن کے لئے کمیونٹی ھال میں رکھدیا جاتا ھے ، مہمانوں کے لئے ستر سے اسی بکرے اور آٹھ سے دس بیل ذبح کئے جاتے ھیں اور شراب کا انتظام کیا جاتاھے.تیار ھونے والا کھانا خالص دیسی ھوتا ھے.
آخری رسومات کی تقریبات کا جشن منایا جاتا ھے.ان کا عقیده هے که مرنے والے کو اس دنیا سے خوشی خوشی روانہ کیا جانا چاهیۓ.جشن میں شراب ، کباب ، ڈانس اور هوائی فائرنگ ھوتی ھے ۔مرنے والے کی ٹوپی میں کرنسی نوٹ ، سگریٹ رکهی جاتی هے- پرانے وقتوں میں وہ مردے کو تابوت میں ڈال کر قبرستان میں رکھ آتے تھے ، آج کل اسے دفنانے کا رواج ھے.کیلاش میں ھونے والی فوتگی خاندان کو اوسطاَ اٹھارہ لاکھ میں پڑتی ھے جبکہ یہ کم سے کم سات لاکھ اور زیادہ سے زیادہ پینتیس لاکھ تک بھی چلی جاتی ھے۔
فوتگی کی طرح انکے ھاں شادی اور پیدائش بھی حیران کن ھے- لڑکے کو لڑکی بھگا کر اپنے گھر لیجانی ھوتی ھے.لڑکے کے والدین لڑکی کے والدین اور گاؤں کے بڑوں کو اس کی خبر کرتے ہیں جو لڑکے کے ھاں آکر لڑکی سے تصدیق حاصل کرتے ہیں کہ اسکے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کی گئی بلکہ وہ اپنی مرضی سے بھاگی ھے، یوں رشتہ ھو جاتا ھے.اسکے بعد دعوت کا اھتمام ھوتا ھے جس میں لڑکی والے بطور خاص شرکت کرتے ھیں.شادی کے چوتھے دن لڑکی کا ماموں آتا ھے جسے لڑکے والے ایک بیل اور ایک بندوق بطور تحفہ دیتے ھیں ، اسی طرح دونوں خاندانوں کے مابین تحائف کے تبادلوں کا یہ سلسلہ کافی دن تک چلتا ھے.
حیران کن بات یہ ھے کہ پیار ہونے پر شادی شدہ خاتون کو بھی بھگایا جا سکتا ھے.اگر وہ خاتون اپنی رضامندی سے بھاگی ھو تو اسکے سابقہ شوھر کو اعتراض کا کوئی حق نہیں ۔۔۔۔پہلا بچہ پیدا ھونے پر زبردست قسم کی دعوت کی جاتی ھے جس میں بکرے اور بیل ذبح ھوتے ھیں.یہ دعوت ھوتی لڑکی والوں کے ھاں ھے مگر اخراجات لڑکے والوں کو کرنے ھوتے ھیں.اسکے علاوہ لڑکے والوں کو لڑکی کے ہر رشتےدار کو دو ہزار روپے فی کس بھی دینے ھوتے ھیں.اگر پہلے بچے کے بعد اگلا بچہ بھی اسی جنس کا ھوا تو یہ سب کچھ اس موقع پر بھی ھوگا یہاں تک کہ اگر مسلسل صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ھوتی رھیں تو یہ رسم برقرار رھیگی ، اس سے جان تب ھی چھوٹ سکتی ھے جب مخالف جنسکا بچہ پیدا ھو.
اگر کیلاش لڑکے یا لڑکی کو کسی مسلمان سے پیار ھو جائے تو شادی کی واحد صورت یہی ھے کہ کیلاش کو اسلام قبول کرنا ھوگا خواہ وہ لڑکا ھو یا لڑکی ۔۔۔حالیہ عرصے میں شادی سے قطع نظر کیلاش لڑکیوں میں اسلام تیزی سے پھیل رھا ھے جس سے مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ وہ یورپین این جی اوز بھی پریشان ھیں جو اس علاقے میں کام کر رھی ھیں چنانچہ ان این جی اوز کی جانب سے ھر کیلاش فردکے لئے ایک بنک اکاؤنٹ کھولا گیا ھے جس میں ھر ماہ پابندی کے ساتھ بیرون ملک سے رقم ڈالی جاتی ھے جسکے عوض فقط یہی مطالبہ کیا جاتا ھے کہ مسلمان بننے سے پرھیز کیا جائے اور اگر کیلاش مذہب سے بیزار ھوں تو عیسائی بن جائیں لیکن مسلمان بننے سے گریز کریں.ان وادیوں میں پیدا ھونے والا بچہ رھتا تو کافرستان میں ھی ھے لیکن اسے پیدائش کے ساتھ ھی کوئی یورپین گود لے لیتا ھے اور وہ اسکے لئے ھر ماہ رقم بھیجتا رھتا ھے.ایسا کیوں کیا جاتا ھے ؟اسے سمجھنا مشکل نہیں-
دنیا کی معیشت میں تجارت کا اہم ترین ذریعہ بحری راہداریاں ہیں، اقوام کی تاریخ دیکھیں تو بحری تجارت پر خصوصی توجہ دینے والے ممالک نے نمایاں ترقی کی اور دنیا کے کئی خطوں میں اپنے مفادات کے لئے اثر و رسوخ قائم کرنے میں بھی کامیاب رہے۔
صرف ایشیاء میں بڑی اور چھوٹی 1720 بندرگاہیں اور جیٹیاں موجود ہیں جہاں بین الاقوامی اور خطے کے ممالک کے درمیان تجارت کے لئے نقل و حمل کا بڑا ذریعہ بحری راہداری ہے۔
پاکستان میں بحری تجارت اور اس سے منسلک کاروبار اور تفریحی منصوبوں پر مقامی سرمایہ کاری کی ضرورت زور پکڑتی جارہی ہے جب کہ مقامی تاجروں، صنعتکارو ں اور سرمایہ کاروں کو میری ٹائم سیکٹر کی طرف دلچسپی دلانے کے لئے کے لئے ون ونڈو آپریشن جیسی سہولتوں کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔
پاکستان کی ساحلی پٹی ایک ہزار چھیالیس کلو میٹر پر محیط ہے، ملک میں تین فعال بندرگاہیں موجود ہیں، ملک کی اہم ترین بندرگاہ کراچی کے بعد پورٹ قاسم بھی گزشتہ کئی سالوں سے مکمل طور پر فعال ہے۔
ملک کی سب سے بڑی اور جدید بندرگاہ کراچی پورٹ پر سالانہ پچاس ہزار ٹن سے زائد کارگو ہینڈل کیا جارہاہے، سال 17-2016 کے دوران کراچی کی بندرگاہ پر 1922 تجارتی جہازوں کی آمدورفت ہوئی جبکہ 52 ملین ٹن سے زائد مال کی ترسیل ہوئی ۔
کراچی میں دوسری اہم بندرگاہ پورٹ قاسم پر اس سال 1407 تجارتی جہازوں کی آمدورفت ہوئی، ملک کی تیسری اور مستقبل کی اہم بندرگاہ گوادر بلوچستان میں واقع ہے جسے خطے میں گیم چینجر کہا جارہا ہے، یہ بندرگارہ دنیا بھر میں اہمیت حاصل کئے ہوئے اور عنقریب مکمل طور پر فعال ہوجائے گی۔
گوادر پورٹ کے ساتھ خطے کا اہم ترین منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری زیر تعمیر ہے جس کی تکمیل سے چین اور وسط ایشیائی ممالک کو پاکستان کے تعاون سے دنیا بھر سے تجارت کے لئے بیک وقت زمین اور بحری تجارتی راہداری دستیاب ہوگی۔
سابق ڈی جی پورٹ اینڈشپنگ اور ماہر بحری امور تجارت کیپٹن انور شاہ کہتے ہیں کہ عالمی تجارت کا 80 فیصد حصہ بحری تجارت ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ تناسب اسی فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تجارت کا 70 فیصد سے زائد حصہ بحری تجارت سے وابستہ ہے، دنیا میں سمندر کے ساتھ آباد ممالک کی بندرگاہیں جدید خطوط پر استوار کی جارہی ہیں جب کہ جنوبی ایشیاء میں چین آٹھ بندرگاہوں کو جدید بنانے کے امور میں ان ممالک سے خصوصی تعاون کر رہا ہے۔
گزشتہ دنوں چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کا دورہ کیا جس کا مقصد مقامی تاجر برادری اور بحری شعبے کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا تھا تاکہ ملکی معیشت کو فروغ دیا جا سکے۔
نیول چیف نے بحری شعبے میں اقتصادی سرگرمیاں شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ ملک کی بحری معیشت کو مستحکم بنا کر ملک کی مجموعی قومی پیداوار کو تین گنا تک لے جایا جا سکتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ نیشنل میری ٹائم پالیسی کا ڈرافٹ ابھی تک حتمی پالیسی کی شکل اختیار نہیں کر پایا ہے، جامع میری ٹائم پالیسی کے تحت پاکستان کے بہت متحرک بحری شعبے کی حکمت عملی میں جامع اصلاحات لانا ضروری ہے۔
اس بات پر زور دیا جارہا ہے کہ بندرگاہ کے امور کسی ایک متحدہ کمان یا کم از کم ایک مربوط کوشش کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
ملک کے بحری شعبے کو الگ الگ وزارتوں اور صوبائی حکومتوں کے ذریعے نمٹایا جارہا ہے، کوئی ایسا مربوط طریقہ کار ہونا چاہیے کہ قومی سمندری علاقوں سے فوری اور طویل مدت کے فوائد حاصل کیے جاسکیں۔
یہ تجاویز بھی سامنے آرہی ہیں کہ وفاقی سطح پر ایک اعلیٰ انتظامی ڈھانچہ تشکیل دینا چاہیے جس میں صوبائی اور مقامی حکومتیں بھی شامل ہوں۔
بحری وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ترقی کے امکانات روشن کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون، صنعتی علاقے، ماہی گیری، اسٹوریج کی سہولیات بندرگاہوں کے قریب واقع ہوں، نیز ریل اور سٹرک کے ذریعے بندرگاہوں سے منسلک ہوں، بندرگاہوں سے سامان کی اندرون اور بیرون ملک ریل اور روڈ ٹرانسپورٹ کا شعبہ بھی اہمیت اختیار کررہا ہے۔
پاکستان کے پاس کھلے سمندر میں جہاز پر کام کرنے والے 20 ہزار سے زائد ’’جہازی‘‘ (Seafarers)ہیں جنہیں انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن نے قابل، مؤثر اور محنتی تسلیم کیا ہے۔ لیکن نائن الیون کے بعد بین الاقوامی جہازوں پر ان کی تعداد میں نمایاں کمی ہوگئی ہے۔
اب صرف ایک تہائی پاکستانی جہازی ملازمت کررہے ہیں اور ملک کی معیشت میں سالانہ 25 ملین ڈالرز کی رقم شامل کر رہے ہیں۔
جہاں حکومت کو پی این ایس سی اور نجی شعبے میں جہازوں کی خریداری کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہیے وہاں بین الاقوامی جہازوں پر ان کی تعداد بڑھانے کے لیے سفارتی کوششیں بھی کرنی چاہییں، میری ٹائم سیکٹر میں تجارت اور کاروبار کے کئی شعبے موجود ہیں جہاں مقامی سرکایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔
جی بھائی، یہ لفظ سامنے آتے ہی ایک سیاسی جماعت اور اس کےسابقہ قائد کا نام ذہن میں ابھر کر آتا ہے۔ جی بھائی، پارٹی ہے ایم کیو ایم جس کے ساتھ پاکستان کا نام لگا کر نیا نام ایم کیو ایم پاکستان رکھ دیا گیا۔
بھائی کے ہوتے ہوئے رابطہ کمیٹی کے ارکان (موجودہ رہنما ایم کیو ایم پاکستان) گونگے بہروں کی طرح بیٹھے رہتے اور گونگلووں پر سے مٹی جھاڑتے ہوئے اپنی رائے الطاف بھائی کی منشاء اور خوشنودی کے آگے سرنڈر کر دیتے تھے۔
’بھائی‘ جو فیصلہ صادر فرماتے اور رابطہ کمیٹی سے مخاطب ہوتے تو تمام اراکین یک زبان ہوکر کہتے ’جی بھائی‘ آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں ’بھائی‘، اگر بھائی غصے میں ہوتے تو کہتے ’جس طرح آپ کا حکم بھائی‘ اور یہ سب یوں ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ اس سب کے لیے ’بھائی‘ سے وفاداری کا حلف لیا جاتا تھا۔
ان دنوں الطاف حسین جس رہنما کا نام لے کر جو بھی کہتے اس کا جواب ’جی بھائی‘۔
الطاف حسین مسلسل مہاجروں کے حقوق کی آڑ لے کر پاکستان کے خلاف اکساتے رہتے اور پارٹی کارکن سے رابطہ کمیٹی تک سب نہ چاہتے ہوئے بھی بوجہ خاموش رہتے، دوسری صورت میں ’نامعلوم افراد‘ کے ہاتھوں “شہید ایم کیو ایم “ہوجاتے۔
اس پر بھی بھائی تقریر کرکے کارکنان کے سامنے مگرمچھ کے آنسو بہاتے اور ساتھی بھائی کو چپ کرانے کی کوششیں کرتے رہتے۔ بھائی کی ان حرکتوں پر عوام سخت غم و غصہ کرتے لیکن خوف کے باعث کوئی بولنے کی جرات نہیں کرتا۔
وہ 22 اگست کا دن تھا جب اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ “بھائی” نے کھلم کھلا پاکستان مخالف تقریر کی اور پاکستان کے خلاف نعرے بھی لگواِئے، رابطہ کمیٹی سمیت پوری مقامی قیادت پاکستان مخالف نعرے لگتے دیکھتے رہے لیکن کوئی بھی نہ کہہ سکا کہ ’نہیں بھائی، نہیں بھائی‘، بس سر جھکا کر سنتے رہے یہی وہ وقت تھا جب ’بھائی‘ کی اصلیت کھل کر پوری قوم سے سامنے آگئی۔
قوم اٹھ کھڑی ہوئی اور رابطہ کمیٹی سمیت کسی رہنما یا کارکن میں عوامی غصے کا سامنا کرنے کی طاقت نہیں رہی اور ہوتی بھی کیسے جس ملک کا کھاتے ہیں اس سے نمک حرامی کیسے ممکن تھا۔
23 اگست کو مقامی قیادت کے پاس “بھائی “سے لا تعلقی کے سوا کوئی راہ نہیں تھی اور انہوں نے ” بھائی” سے کہہ دیا ” بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب، آج کے بعد ملاقات نہیں چیف صاحب”۔
لیکن اس تمام صورت حال کے باوجود میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیا ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینئر اور رابطہ کمیٹی سمیت دیگر ساتھی اپنے اپنے اختیارات بتانے والے کیا وہ دور بھول گئے ہیں جب ان کی حیثیت ربڑ اسٹمپ سے زیادہ نہیں تھی۔ اس دور میں کیا کیا نہیں ہوتا رہا، جن رہنماؤں میں ” بھائی ” کی فرعونیت کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ نہیں تھا وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔
بلا آخر کارکنان کی “بھائی” کی فرعونیت سے جان چھوٹ گئی لیکن نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ بظاہر یہ جان چھوٹ گئی ہے لیکن ان کی جڑیں اب بھی موجود ہیں، شاید اس کی وجہ ایم کیو ایم پاکستان کے کچھ رہنماؤں کے ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور پارٹی آئین کی باتیں کرنا ہے جب کہ کچھ “لوگوں” کی طرف سے یہ الزامات بھی سامنے آتے رہتے ہیں کہ ابھی “لندن ” سے رابطہ ختم نہیں ہوا۔
ایم کیوایم سے ایم کیو ایم پاکستان بننے پر فاروق ستار لیڈر کے طور پر سامنے آئے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ایم کیو ایم کے بچانے میں فاروق ستار نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔
سینٹ کی ٹکٹوں کی تقسیم سے پہلے بھی ایک بار فاروق ستار نے پارٹی قیادت چھوڑنے کی بات کی تو معاملہ سنبھال لیا گیا لیکن فاروق ستار نے اب رابطہ کمیٹی سے مشاورت میں تین ناموں کے ساتھ ایک نام کامران ٹیسوری کا شامل کیا تو سب کو پارٹی آئین یاد آگیا۔
رابطہ کمیٹی کی طاقت یاد آگئی، ماہر قانون فروغ نسیم کہتے ہیں رابطہ کمیٹی کی دو تہائی اکثریت “کنوینئر ” کو تبدیل کرسکتی ہے یعنی انہوں نے سربراہ کو تبدیل کرنے کا عندیہ دے دیا۔
روف صدیقی کہتے ہیں سارے اختیارات رابطہ کمیٹی کے پاس ہیں، پارٹی میرٹ پر چلے گی جب کہ فیصل سبزواری کہتے ہیں تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، یہ تو چند رہنما ہیں جو آج اپنی اپنی بات کر رہے ہیں لیکن قائد کے سامنے ان سب کی سانس رک جاتی تھی اور “جی بھائی” کے سوا کچھ اور کہنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔
آج فاروق ستار کی جگہ “بانی “ہوتے تو رابطہ کمیٹی ان چار ناموں پر اپنی مہر ثبت کرتے دیر نہیں لگاتی۔ اگر “بھائی” تمام نام تبدیل کرکے پہلا نام کامران ٹیسوری کا دیتے تو بھی ایک ہی آواز آتی ” جی بھائی ، آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں “۔
فاروق ستار نے پارٹی سربراہ کے طور پر ایک شخص کا نام دے ہی دیا تو کون سی قیامت آگئی،کامران ٹیسوری کا نام پانچویں نمبر پر تھا، پارٹی سربراہ نے کامران کا نام پانچویں کے بجائے چوتھے نمبر پر کیا تھا، باقی تین ناموں کی منظوری تو رابطہ کمیٹی نے دے دی تھی۔
آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ رابطہ کمیٹی فاروق ستار “بھائی “کو پارٹی کا سربراہ مانتی ہے تو ان کی طرف سے سامنے آنے پر ایک نام کو قبول کرلینا چائیے تھا۔
اس معاملے کو تماشا بنانے کے بجائے خاموشی اور خوش اسلوبی سے حل کرکے سربراہ کی عزت رکھنی چائیے تھی، آج جو رہنما پارٹی کو میرٹ پر چلانے کی بات کرتے ہیں، کیا یہی رہنما اسی طرح پہلے بھی میرٹ کی بات کرتے تھے۔
کیا “بانی “کے فیصلے کے بعد یہ رہنما اس طرح بار بار میڈیا پر آکر ان کے خلاف بات کرنے کی جرات کرتے تھے، پارٹی اختلافات کو پارٹی کے اندر ہی حل کیا جاتا ہے میڈیا پر تماشا نہیں بنایا جاتا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے کچھ رہنماؤں کی یہ بات ٹھیک ہے کہ ایک “بھائی” سے اللہ اللہ کرکے جان چھوٹی ہے اب کوئی دوسرا “بھائی” بننے کی کوشش نہ کرے اور آج کے سربراہ کو یہ تاثر ختم کر دینا چاہیے کیوں کہ “بھائی” بننے سے بہتر ہے کہ “بڑا بھائی” بن کر سوچا جائے تا کہ سب دل سے کہنا شروع کر دیں کہ “جی بھائی”۔
ویلنٹائنز ڈے شاید ایسے موضوعات میں سے ایک ہے جس پر ہر انسان، خواہ وہ اس کے بارے میں کیسی ہی رائے کیوں نہ رکھتا ہو، بولنے کو اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ سے جذبات سے لبریز ہوتے ہوئے ہم اس کی نوعیت اور گہرائی تک پہنچنے سے قاصر رہے اور فقط اپنے مفروضات کو ظاہری حقائق پر غالب لانے کی مکمل کوشش کرتے رہے ہیں۔
ویلنٹائنز ڈے جو کہ نوجوان طبقہ میں غیرمعمولی حد تک مقبول ہوچکا ہے، ایک بڑی تعداد بڑے پیمانے پر پیسہ خرچ کرتے ہوئے اس کی بھرپور سیلیبریشن سے بھی گریز نہیں کرتی۔ مشرق اور بالخصوص پاکستان کے ثقافتی اور مذہبی نقطہ نظر سے ویلنٹائنز ڈے کسی صورت بھی معاشرے کے موافق نہیں رہا، اس پر کی جانے والی تنقید کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ لیکن جس چیز کو ہم ہمیشہ سے نظر انداز کرتے آرہے ہیں وہ ہے ویلنٹائنز ڈے کی طرف نوجوانوں کی بے انتہا رغبت۔
آخر کیا وجہ ہے جو نوجوانوں میں اس دن کی اس قدر پذیرائی کا سبب بن رہی ہے؟ اس کے علاوہ کوئی حقیقت بظاہر قابل ذکر نہیں کہ ویلنٹائنز ڈے منانے والوں میں کثیر تعداد غیر شادی شدہ لڑکے اور لڑکیوں کی ہے کہ جو یا تو ابھی اس قابل نہیں کہ ازدواج کا انتخاب کر سکیں، یا پھر والدین اور معاشرے کی جانب سے روایات کی پابندیوں کا شکار ہیں اور فقط اس وقتی محبت کے رشتے پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں اور شاید اپنی زندگی کو باقاعدہ اصول کے تحت کسی راہ پر گامزن دیکھنے سے عاجز ہیں۔
بعد از بلوغیت ہر انسان اپنے وجود میں مقابل جنس کے متعلق احساسات و خیالات میں کشش محسوس کرتا ہے جس میں کوئی قباحت نہیں، بلکہ یہ ایک فطری حقیقت ہے جس کی تکمیل کےلیے کوئی مخصوص راستہ قرار دینا مشکل ہے۔ مثلاً اگر کسی انسان کو اس کی جنسی ضروریات کی تکمیل کا جائز ذریعہ میسر نہ آئے تو وہ اس کےلیے کسی بھی راستے کا انتخاب کر سکتا ہے جو اکثر انتہائی منفی نتائج کا سبب بنتا ہے۔
یہ بات انسان کی اپنی سوچ پر منحصر ہے کہ وہ کس ذریعے سے اپنی جنسی ضروریات کو پورا کرے۔ عموماً اس چیز کو برا تصور کیا جاتا ہے کہ بچوں کے جنسی معاملات پر توجہ دی جائے، لیکن شاید اگر ایسا ممکن ہو سکے تو والدین اور اولاد کا رشتہ مزید مضبوط اور شفاف ثابت ہو سکتا ہے۔ بچوں کی فطرت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ماں باپ سے فقط اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں جس کے متعلق ان کو یقین ہو کہ وہ اس کو سمجھنے کی کوشش کریں گے، لیکن اگر ایسا نہ ہو تو والدین چاہے اس کی انفرادی زندگی کے حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کریں، لیکن ناکام رہیں گے۔
اکثر والدین یہ شکایت بھی کرتے ہیں کہ بچے ان کے ساتھ رابطہ برقرار نہیں رکھنا چاہتے، لیکن کبھی اس بات پر غور نہیں کرتے کہ مخصوص موضوعات پر ان کے مزاج کی تلخی ہی بچوں کی اس دوری کا باعث ہے۔ لہذا یہ بات تو یقیناً واضح ہوچکی ہے کہ موجودہ حالات اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ اگر ایسے ثقافتی طریقوں کو ہم اپنے معاشرے سے نکالنا چاہتے ہیں تو یہ بات تصور سے باہر نکال دینی چاہیے کہ دورِحاضر میں جوانی کے عالم میں کسی بھی لڑکے یا لڑکی کی جنسی خواہشات کو روایات کے زیر اثر لایا جاسکتا ہے۔ ایسے تمام مسائل کے حل کےلئے کوئی مناسب طریقہ اپنانا ضروری ہے۔
ویلنٹائنز ڈے پر تنقید کے تیر برسانے والے اکثر والدین مذہبی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے ہیں، لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے قول و فعل میں شدید تضاد کو جگہ دیتے ہیں اور فقط مذہب کا لبادہ اوڑھ کر قدیم روایات کے پابند ہیں۔ یہی والدین اولاد کو ہر شے مہیا کرنے کے باوجود ان کی زندگی کے سب سے اہم پہلو سے ہمیشہ بےخبر معلوم ہوتے ہیں، اور اس بات کو خود کےلیے عیب سے زیادہ برا تصور کرتے ہیں کہ وہ روایتی طریقے سے ہٹ کر اپنی اولاد کو رشتہ ازدواج میں دیکھ سکیں۔ ایسے والدین کو چاہیے کہ جہاں وہ بچوں کےلیے دیگر تمام آسائشات مہیا کرتے ہیں وہیں ان کے فطری تقاضوں پر بھی گہری نظر رکھیں اور ان تمام کو بھی اتنی ہی اہمیت سے نوازیں جتنی دیگر دنیاوی معاملات کو دی جاتی ہے۔
ان مسائل کا واحد حل یہی ہے کہ والدین کی جانب سے اولاد کو اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ازدواجی زندگی کے تعین کی مکمل آزادی حاصل ہو۔ اور چونکہ زمانے کی جدت اور عقل و فہم کے استعمال نے اکثر قدیم روایات کو غیر منطقی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا ہے، اور دور حاضر کا نوجوان بھی ان پر مزید عمل کرنا جہالت کی دلیل سمجھتا ہے، اس لیے اب ممکن نہیں کہ والدین بچوں کو اسی طریقے پر عمل کرتا دیکھ سکیں کہ جس پر وہ عمل کر چکے ہیں۔
یہاں یہ بات کہنا ہرگز مقصود نہیں کہ والدین اولاد کے معاملات سے خود کو بے دخل کر لیں، بلکہ اس قدر اہتمام ضرور رکھیں کہ بچے اپنی ذاتی زندگی کے پہلو بھی ماں باپ کے سامنے رکھ سکیں۔ اور یہ اس وقت ممکن ہے جب انسان ہر طرح کی غیر عقلی روایت سے قطع نظر اولاد کے مسائل میں دلچسپی لے۔ ورنہ آئندہ آنے والے سالوں میں ماں باپ اس بات کی شکایت کرتے نظر آئیں گے کہ بچے ان سے اس طرح برتاؤ نہیں رہے جیسا ان کا حق ہے ۔
اور اگر ویلنٹائنز ڈے کو مغرب کی یلغار سمجھتے ہوئے اس سے نجات ہی چاہتے ہیں، تو لازم ہے کہ دقیق روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے رشتہ ازدواج کو آسان بنانے کےلیے ایسے حالات مہیا کریں جو آنے والی نسل کےلیے پُروقار ہونے کا سبب بن سکیں، ورنہ نہ تو ہم تین میں رہیں گے اور نہ تیرہ میں۔