لاہور: ایک سال قبل لاہور دھماکے میں شہید ہونے والے پولیس افسر کیپٹن (ر) مبین کی صاحبزادی نے ان کی پہلی برسی پر انتہائی جذباتی پیغام جاری کیا ہے جس کے باعث ہر پاکستانی کی آنکھیں نم ہو گئیں ہیں۔ کیپٹن (ر) سید احمد مبین زیدی کی صاحبزادی ’ہبہ مبین‘ نے فیس بک پر پیغام جاری کرتے ہوئے لکھا کہ ”میں یہ بہت بوجھل دل سے لکھ رہی ہوں لیکن اس کے باوجود چیزیں آسان اور میرا درد کم نہیں ہو گا، میں اس وجہ سے لکھ رہی ہوں کہ آپ کو ہمیں چھوڑ کر گئے، ایک سال ہو گیا ہے، چیزیں بہت بہتر ہو گئی ہیں، گھر پر سب ٹھیک ہیں، میں اور ابیرہ اچھی کارکردگی دکھا رہی ہیں جبکہ دعا اب بھی پہلے جیسی ہی ہے اور پورے گھر میں گھومتی پھرتی اور اودھم مچاتی ہے۔ طحہ دن بدن مزید بہتر ہوتا جا رہا اور بالکل آپ جیسا لگتا ہے۔ جس طرح وہ بات کرتا ہے جب کچھ غلط ہو تو جیسے وہ غصہ کرتا ہے، ہم ہر روز اس کے اندر آپ کو دیکھتے ہیں، وہ آپ کو بہت یاد کرتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ آپ کام پر ہیں اور بعض اوقات کہتاہے کہ آپ آسمان میں ستارہ بن گئے ہیں۔ دادی اماں مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ وہ جلد ٹھیک نہیں ہوں گی، آپ ان کے اکلوتے بیٹے تھے، وہ ہر وقت آپ کے بارے میں بات کرتی ہیں اور انہوں نے اپنے کمرے میں آپ کی بڑی سی تصویر لگا رکھی ہے، یہ عمل ان کو احساس دلاتا ہے کہ آپ اب بھی ان کے آس پاس ہی ہیں۔ امی جان اندر سے ٹوٹ چکی ہیں لیکن وہ ظاہر نہیں ہونے دیتیں کیونکہ انہوں نے دادو کو بھی حوصلہ دینا ہوتا ہے، میں جانتی ہوں وہ رات کو بہت روتی ہیں، وہ بہت مضبوط ہیں، انہوں نے ہمیں آپس میں ایسے جوڑ رکھا ہے جیسا کہ آپ چاہتے تھے، اب وہ ایک نئی شخصیت بن چکی ہیں، وہ ٹوٹ چکی ہیں لیکن بہت مضبوط ہیں۔ آپ کو ہر کوئی یاد کرتاہے، آپ کا ہر کسی کی زندگی میں ایک مضبوط کردار تھا۔“
”یہ ابھی تک ناقابل یقین ہے، آپ مجھ سے اس پر یقین کرنے کی امید بھی نہ رکھیں، مجھے امید ہے کہ آپ ایسا نہیں کریں گے ، میں آپ کیلئے خوش ہوں، آپ نے وہ حاصل کیا جس کیلئے آپ سخت محنت کرتے تھے۔ اگر اس دنیا میں ہمارے علاوہ کوئی اور چیز ایسی تھی جس سے آپ محبت کرتے تھے تو وہ آپ کا فرض تھا، آپ اپنے حلف پر سچے ثابت ہوئے جو کہ آپ نے پاک فوج میں شمولیت کے وقت اٹھایا تھا، آپ نے ملک کی سب سے بہترین خدمت کی اور آپ نے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں وہ مقام حاصل کیا جس کے آپ حقدار تھے، آپ نے شہادت کا مرتبہ حاصل کیا جو کہ بہت کم لوگوں کے نصیب میں آتاہے۔ میں جانتی ہوں آپ ہمیں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے ،آپ کیسے جا سکتے ہیں ؟لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں اللہ اپنے جن بندوں سے محبت کرتا ہے انہیں اپنے پاس جلد بلا لیتا ہے ۔“
”بطور چھوٹی بچی میرے لیے یہ دیکھنا بہت مشکل ہوتا تھا جب آپ ڈیوٹی پر جایا کرتے تھے۔
مجھے یاد ہے جب میں آپ کو یونیفارم پہنتے ہوئے دیکھتی تھی اور آپ اپنی ’سٹک‘ اٹھاتے تھے اور سب کو خدا حافظ کہتے تھے، پتہ نہیں کیوں مجھے بس ڈر لگا رہتا تھا کہ پتہ نہیں آپ واپس آئیں گے یا نہیں؟ آپ کے ساتھ کچھ برا ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا بہت عرصہ نہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا کہ کہ آپ وہ کام کرنے گئے جو کہ آپ کا نہیں تھا، وہاں پر بہت سے دوسرے اہلکار بھی تھے جو کہ مذاکرات کر سکتے تھے لیکن آپ وہاں خود گئے کیونکہ آپ دوسروں سے مختلف تھے۔ آپ وہ سب کچھ کرنا چاہتے تھے جس سے دوسروں کی تکلیفوں میں کمی واقع ہو سکے۔ مجھے مناواں حملہ ابھی تک یاد ہے ، میں گھر میں آپ کی باحفاظت واپسی کیلئے دعائیں کر رہی تھی اور آپ نے کر دکھایا، میں آپ کو دیکھ کر بہت خوش تھی لیکن جب کبھی میں یہ سوچتی تھی کہ میں آپ کو کبھی دیکھ نہیں سکوں گی تو آپ لوٹ آتے تھے تو میرے لیے یہ ماننا ناممکن ہو گیا جب مجھے پتاچلا کہ آپ اب کبھی نہیں آئیں گے۔ یہ افسوس کن ہے کہ میں نے اپنے والد کو کھو دیا، یہ مجھے افسردہ کر دیتاہے کہ میری کامیابی دیکھنے کیلئے آپ میرے پاس نہیں لیکن آپ نے شہادت قبول کرتے ہوئے کئی زندگی بچائیں آپ نے کئی بچوں کو یتیم ہونے سے بچا لیا، انہیں مشکل وقت سے گزرنے سے بچا لیا یہ بات مجھے مضبوط کرتی ہے ۔“
ساگ ایک سبز رنگ کی ڈھیٹ قسم کی سبزی ہوتا ہے، ڈھیٹ اس لیے کہ جس گھر میں گھس جائے دو دو ماہ پڑا رہتا ہے، سردیوں کے کچھ ماہ تو اس کی حیثیت گھر کے فرد جیسی ہوجاتی ہے، ناشتے، لنچ اور ڈنر میں ماوں کو اتنی فکر اپنے بچوں کی نہیں ہوتی جتنی ساگ کی ہوتی ہے، اکثر گھروں میں “ارے ساگ کہاں ہے” جیسے جملے تواتر سے سننے کو ملتے ہیں۔ سو یوں کہا جائے کہ ساگ اور روزے سال میں ایک مہینہ ہر مسلمان مرد عورت پہ فرض ہیں تو غلط نہ ہوگا۔
سائنسی اعتبار سے دیکھا جائے تو ساگ میں کلیشیم، پوٹاشیم، فولاد، فاسفورس اور آلو کافی مقدار میں موجود ہوتے ہیں، اکثر قدامت پسند گھروں میں ساگ میں آلو نہ ڈالنا ساگ کی بلاسفیمی سمجھا جاتا ہے، بعض گھروں میں تو اتنے برتن بھی نہیں ہوتے جتنی قسموں کا وہاں ساگ بنا ہوتا ہے، سردیوں میں اکثر فریج کھولیں تو آلو ساگ، قیمہ ساگ، چکن ساگ، میتھی ساگ ، اور اسی طرح کے چند اور ساگوں سے فریج ساگو ساگ ہوا ہوتا ہے۔
مشہور فیس بکی مورخ گل خان اپنے ایک سٹیٹس میں فرماتے ہیں کہ ساگ کو چاہے پانچ منٹ پکاو چاہے پانچ گھنٹے پکاو یہ اپنا رنگ نہیں بدلتا، اگر اس کے کچھ اور کلرز مارکیٹ میں لانچ کردئیے جائیں تو یہ ایک اچھی سبزی ثابت ہوسکتا ہے۔ ساگ کے متعلق عورتیں اتنی ایموشنل ہوتی ہیں کہ اگر آپ اپنی امی کے سامنے ساگ کی برائی کردیں تو وہ رو بھی سکتی ہے۔
فی زمانہ اگر کوئی فرد یہ دعوی کرتا ہے کہ اس نے کبھی ساگ نہیں کھایا تو یا تو وہ جھوٹ بول رہا ہے یا پھر اس کے رشتے دار پنجاب میں موجود نہیں ہیں، پنجاب کے ضلع جھنگ کی چوڑیاں، مولوی اور ساگ پورے ملک میں مشہور ہیں۔ اگر کوئی دور پرے کا رشتے دار مہمان بن کر آئے اور ساگ ساتھ نہ لائے تو پھر یا تو وہ رشتے دار نہیں رہتا یا پھر مہمان نہیں رہتا۔
ساگ کی ایک اور خراب بات کہ یہ ایک دن پکاو تو ہفتہ ہفتہ چل جاتا ہے، جو لوگ ساگ کو قریب سے جانتے ہیں انہیں اچھی طرح علم ہوگا کہ اسے کھا کھا کر بندہ خراب ہو جائے تو ہو جائے یہ خود کبھی خراب نہیں ہوتا۔ ہمارے دوست ایک فرماتے ہیں کہ ساگ انسانی صحت کے لیے اچھا ہے کیونکہ یہ جسم کی کسی چیز کو چھیڑتا ہی نہیں جیسا اندر جاتا ہے ویسا ہی باہر نکل جاتا ہے۔
بہرحال ہمارا ماننا تو یہ ہے کہ ساگ اور آگ جس گھر کو لگ جائے وہ مشکل سے ہی بچتے ہیں۔ ساگ کے متعلق تاریخ ایسے ہی خاموش ہے جیسے ہم ہر روز سامنے ساگ کو دیکھ کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر بات پاکستان کی ہو تو اس کے جھنڈے اور ساگ میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے یوں لگتا ہے جھنڈے کا ڈیزائن بنانے والا اس وقت ساگ کھا رہا تھا اس لیے ہوبہو ساگ والا رنگ دے دیا اور شاید ساگ میں مکھن بھی موجود تھا اس لیے ساتھ úسفید رنگ بھی شامل کردیا، وہ تو شکر ہے حفیظ جالندھری کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا ورنہ قومی ترانہ بھی “ساگ سرزمین شاد باد” ہوجاتا۔
کیا زمانہ ہوتا ہو گا جب سیاسی جماعتیں ہم خیال دانشوروں ، پنڈتوں اور سرکردہ ورکرز پر مشتمل کمیٹی بنایا کرتی تھیں جس کا کام انتخابات سے پہلے منشور کی تیاری ہوا کرتا تھا۔تاکہ ووٹر کو اندازہ ہو سکے کہ پارٹی کا نظریہ کیا ہے ۔ پارٹی کی داخلہ، خارجہ، دفاعی، زرعی، صنعتی، تجارتی، سماجی، انصافی، تعلیمی، روزگاری اور صحت پالیسی کیا ہے اور کن عملی خطوط پر نافذ ہو گی اور وہ ان پالیسیوں کے ذریعے اگلے پانچ برس میں ملک اور عوام کو کس سمت اور کہاں تک لے جانا چاہے گی۔
حزبِ اقتدار کا لیڈر انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے آدھی تقریر اس موضوع پر کرتا تھا کہ اس نے کیا کیا انتخابی وعدے پورے کیے،کون سے وعدے تکمیل کے مراحل میں ہیں اور کن وعدوں پر وہ فلاں فلاں وجہ یا دباؤ کے سبب عمل نہ کر پایا۔
حزبِ اختلاف کے رہنما اپنے جلسوں میں حزبِ اقتدار کو بلند بانگ دعوے پورے نہ کرنے کے طعنے دیتے تھے اور متبادل کے طور پر اپنا پرکشش پروگرام پیش کرتے تھے۔اس کا کوئی اور فائدہ ہو نہ ہو کم ازکم خواندہ طبقات ووٹ دیتے وقت مختلف جماعتوں کے دعووں اور زمینی حقائق کا کچھ نہ کچھ موازنہ ضرور کر لیا کرتے تھے۔ جب کہ ناخواندہ طبقہ بھی منشوری نعروں سے پارٹی کی سمت اور نئیت کا تھوڑا بہت اندازہ لگا لیتا تھا۔ انیس سو ستر کے پہلے عوامی انتخابات دراصل منشور، نظریے اور شخصیات کی کش مکش تھی۔
عوامی لیگ کی قوم پرستی، مذہبی جماعتوں کا اسلامی نظام اور بھٹو کا روٹی کپڑا مکان والا سوشلزم۔چنانچہ ووٹر کے سامنے واضح چوائس تھی۔تب کے ووٹر کا آئیڈیل ازم اور امیدیں بھی جوان تھیں کیونکہ سوائے کنونشن مسلم لیگ کسی بھی بڑی جماعت(عوامی لیگ، پیپلزپارٹی، نیشنل عوامی پارٹی، جمیعت علمائے اسلام) کو اقتدار کا عملی تجربہ نہیں تھا۔چنانچہ منشور اور نعرہ ہی وہ پیمانہ تھاجس سے ووٹر اپنا ذہن بنانے کے لیے کسی بھی سرکردہ پارٹی یا رہنما کو ناپ سکتا تھا۔
ستر کے بعد اگلے سینتالیس برس میں اس عمل کو ہر لحاظ سے فاسٹ فارورڈ ہونا چاہیے تھا۔یہ توقع تو نہیں تھی کہ اگلی چار دہائیوں میں سیاسی لیڈرشپ اتنی بالغ ہو جائے گی کہ وہ منشور کے اگلے مرحلے یعنی شیڈو کابینہ کی روایت ڈالے گی جس کا مقصد محکمہ در محکمہ حکمرانوں کی کارکردگی پر سنجیدگی سے نظر رکھنا اور پالیسی متبادل پیش کرتے رہنا ہے جیساکہ مستحکم جہموری ممالک کی روائیت ہے۔
مگر شیڈوکابینہ تو خیر کیا کوئی جماعت بناتی الٹا منشور کی اشاعت اور اس پر نکتہ وار بحث کو بھی ایک لایعنی مشق اور کاغذ کا ضیاع سمجھ کے ترک کر دیا گیا۔جواز یہ پیش کیا گیا کہ چونکہ جمہوری عمل ہی ضیا اور مشرف کے طویل ادوار کے سبب ڈسٹرب رہا لہذا منشور ونشور پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔مگر یہ جواز پیش کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ ستر کے پہلے عام انتخابات بھی ایوب خان کی طویل آمریت کے بعد ہوئے لیکن اس دور کے سیاستدانوں نے اسے منشور سازی سے پہلوتہی کا جواز نہیں بنایا۔
آج تو اس روائیت پر کاربند رہنے کی اور زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ستر کی اقتداری ناتجربہ کاری کے برعکس آج کی بیشتر سرکردہ سیاسی جماعتیں تین تین چار چار بار کلی یا جزوی اقتدار میں رہ چکی ہیں یا اب بھی ہیں۔ وہ وقتاً فوقتاً ریاستی احتسابی ڈھانچے کے آگے تو اپنی صفائی دینے پر مجبور کر دی جاتی ہیں مگر منشور کی شکل میں ووٹروں کو رضاکارانہ جوابدہ ہونا فضول کام سمجھتی ہیں۔حالانکہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں یہ کام پہلے سے کہیں آسان اور ابلاغی ہو گیا ہے۔
اس ملک میں پیپلز پارٹی چار بار وفاقی سطح پر اور چھ بار صوبائی اقتدار میں رہنے کا طویل ترین تجربہ رکھتی ہے۔اس پارٹی کے بانی کو ووٹ ہی منشور پر ملے تھے لیکن آج پیپلز پارٹی کے پاس سوائے زندہ ہے بی بی زندہ ہے، ایک زرداری سب پے بھاری کے سوااورکیا ہے؟ ستر کے بعد سے اب تک پارٹی جتنی بار جس سطح پر بھی برسرِاقتدار آئی اس نے اپنی پچھلی کارکردگی کی بنیاد پر کتنی بار کوئی نئے اہداف دیے؟ صرف گڑھی خدا بخش کے مزارات کی بنیاد پر ووٹ بینک کب تک کیش ہو سکتا تھا یا ہو سکتا ہے؟ آج کی پیپلز پارٹی نظریاتی، سیاسی، سماجی و اقتصادی طور پر موجودہ پاکستان کو کہاں لے جانے کی خواہش مند ہے؟کوئی جانتا ہو تو مجھے بھی تعلیم کرے۔
مسلم لیگ ن جس جماعت کی وارث ہے اس نے اپنا آخری منشور انیس سو چھالیس کے متحدہ ہندوستان میں ہونے والے آخری انتخابات میں پیش کیا تھا اور اگلے برس پاکستان بنوا کر وعدہ پورا کر دیا۔اس کے بعد سے آج تک یہ تو سب جانتے ہیں کہ مسلم لیگ الف سے چ تک کتنے دھڑے بنے مگر کتنے منشور سامنے آئے؟ کون جانتا ہے ؟ آج مسلم لیگ ن کا صرف ون لائن منشور ہے ’’ مجھے کیوں نکالُا ‘‘۔
تحریکِ انصاف کی دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں وہی شکل تھی جو ستر کے انتخابات میں تمام سرکردہ جماعتوں کی تھی۔ یعنی اقتدار کے عملی تجربے سے ناواقفیت۔چنانچہ تحریکِ انصاف نے بھی بڑے جوش سے ایک منشور کمیٹی بنائی جس نے کلیدی امور پر پالیسی پیپرز بھی تیار کیے۔
خود عمران خان اپنے ویژن کے بارے میں اخباری کالم لکھتے رہے۔اس کا نتیجہ دو ہزار تیرہ میں زیرو سے ہیرو کی شکل میں نکلا ( کم ازکم شہری مڈل کلاس کی حد تک )۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریکِ انصاف دھرنائی سیاست کے بجائے اپنے محبوب موضوع کرپشن اور گڈ گورننس کو پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر سنجیدہ ڈبیٹ کا مسلسل موضوع بناتے ہوئے ایک ٹھوس ووٹ بینک بنانے پر پوری توانائی لگا دیتی۔مگر پچھلے ساڑھے چار برس میں عمران خان نے جتنی توانائی گو نواز گو اور ہر غیر کو کرپٹ اور ہر اپنے کو پرہیز گار ثابت کرنے پر صرف کی۔ اس کا دس فیصد بھی یہ سمجھانے پر خرچ نہیں کیا کہ بھائیو جب میں برسرِاقتدار آ جاؤں گا تو پاکستان کی داخلہ، خارجہ، دفاعی، زرعی، صنعتی، تجارتی، سماجی،انصافی، تعلیمی، روزگاری، بین الصوبائی اور صحت پالیسی اور گڈ گورنننس کو ان ان ٹھوس خطوط پر چلایا جائے گا۔آج تک یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ پارٹی کا نظریہ کیا ہے، مذہبی، سیکولر ، معتدل، انتہا پسند ، قوم پرست ، وفاق پرست کہ انا پرست ؟
جہاں تک سرکردہ مذہبی سیاسی جماعتوں کا معاملہ ہے تو وہ تو بہت پہلے ہی منشوری جھنجھٹوں سے دامن چھڑا چکیں۔ بس جب ہم آئیں گے تو اسلامی نظام لائیں گے اور سب ٹھیک ہو جائے گا۔
اس تناظر میں دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں ووٹر جب تک بیلٹ باکس تک پہنچے گا تب تک اس کا چہرہ کسی منشور کے اطمینانی غازے سے چمکنے کے بجائے دشنام، لایعنیت،کنفیوژن کی گرد سے اٹا ہوا ہوگا۔اس وقت ووٹر کی ذہنی حالت اس مسافر جیسی ہے جسے بس اڈے یا ریلوے اسٹیشن سے باہر آتے ہی رکشہ ، ٹیکسی اور تانگے والے گھیر لیتے ہیں۔کوئی صندوق،کوئی واسکٹ، کوئی ٹانگ،کوئی کالر تو کوئی بازو کھینچ رہا ہے۔ایسے میں مسافر ان سب کے بارے میں کیا سوچ رہا ہوتا ہے۔اگر سچ لکھ دوں تو پھر یہ آخری کالم ثابت ہوگا۔سمجھ تو آپ گئے ہوں گے۔
سینٹ الیکشن کیا آئے، جمہوریت کے حسن کا اصل چہرہ نظر آگیا۔ جمہوریت کی دلہنیا نے سب سے پہلے اپنا رخِ زیبا بلوچستان میں دکھایا، اس منہ دکھائی کی میزبانی کے فرائض آصف علی زرداری صاحب نے بڑی فہم و فراست سے ادا کیے۔ سنا ہے ایوان بالا کا درجہ پارلیمنٹ سے بلند ہوتا ہے اس لیے قیمت بھی زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سنار نے ایم کیو ایم پاکستان کی نیندیں ہی چھین لیں۔
دوسری طرف بہادر آباد عرف رابطہ کمیٹی، پی آئی بی عرف فاروق ستار بھائی باہم دست و گریبان نظر آتے ہیں۔ چکی کے دو پاٹوں میں پسنے والے کا نام میڈیا ہے۔ اب تو نومولود بچوں کے نام بھی پریس کانفرنسوں میں رکھے جارہے ہیں۔ فاروق بھائی انٹرا پارٹی الیکشن جیت کر بھی سہمے سہمے نظر آتے ہیں اور رابطہ کمیٹی اپنی ہی چھری کے نیچے سانس لے رہی ہے۔ فاروق بھائی کو ایک بار تو اماں بی نے بچالیا تھا۔ والدہ محترمہ اس مرتبہ پھر بیٹے کو پیشکش کی تھی کہ میں پھر کچھ کروں! مگر فاروق بھائی نے کہا کہ نہیں اماں، اس بار بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔
پی آئی بی اور بہادرآباد کے درمیان جاری دنگل کے 50 راؤنڈز ابھی تک براہ راست نشر ہو چکے ہیں ایک اور نامکمل راؤنڈ صبح چار بجے فاروق ستار بھائی کے دھوبی پٹکے پر ختم ہوا۔ لندن والے کراچی کے حالات دیکھ کر گھونٹ گھونٹ کرکے پی رہے ہیں۔
بہادر آباد اور پی آئی بی بھرپور اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا بھرپور احترام بھی کررہے ہیں۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں یعنی اخلاق، محبت، ادب اور آداب، مار دھاڑ، بھتے کی پرچی، آپ ان کو کسی بھی روپ میں دیکھ لیجیے۔
فیصل سبزواری بھائی نے فاروق بھائی کو محبت کے دن ٹوئٹر پر پکارا ’’آجائیں‘‘ اور پھر اپنے اصل جذبات پر قابو پاتے ہوئے فرطِ جذبات سے گلے بھی لگالیا۔ یعنی پہلے پگڑی اتاری اور اب چپل کھینچنے پر غور کر رہے ہیں۔ ایم کیوایم بہادر آباد اور پی آئی بی کے اسکرپٹ رائٹر بڑی محنت سے کہانیاں لکھ رہے ہیں۔
فیصل سبزواری بھائی، فاروق بھائی سے مخاطب ہوئے اور بولے ’’آپ کو ایک بندے کی خاطر یہ سب نہیں کرنے دیں گے۔‘‘
’’ابے کیا نہیں کرنے دے گا؟‘‘ فاروق بھائی نے سبزواری بھائی کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور بولے ’’میں جانتا ہو معاملہ ایک بندے کا نہیں بلکہ دو کا ہے۔ اُن میں سے ایک دبئی…‘‘ فاروق بھائی کچھ کہتے کہتے خاموش ہوگئے۔
اگلے ہی دن فیصل بھائی، فاروق بھائی کے گلے لگ کر رونے لگے اور بولے بھائی سمجھ نہیں آرہا کہ ہمارے درمیان دوریاں کون ڈال رہا ہے؟ کل ساری رات نیند نہیں آئی مجھے!
فاروق بھائی نے فیصل بھائی کی کمر پر تھپکی دی اور اپنے رومال سے فیصل بھائی کی آنکھیں صاف کرتے ہوئے بولے ’’ساری رات تو پریس کانفرنس کی تیاری میں گزر گئی، نیند کیسے آتی؟ اچھا اب رونا بند کرو اور سنو! کامران ٹیسوری بھائی کو ٹکٹ دینا میری مجبوری ہے۔ تمہیں تو پتا ہے جب سے لندن والوں… کی سرپرستی چھنی ہے، تب سے کارکنوں کے کھانے پینے کا بل میں اپنی جیب سے دے رہا ہوں۔ اور عامر بھائی کو سمجھائیے کہ 22 اگست کے بعد پارٹی کو کس نے سنبھالا؟‘‘
فیصل سبزواری بھائی نے کن انکھیوں سے دائیں بائیں دیکھا کہ کوئی سن تو نہیں رہا اور پھر آہستہ سے بولے ’’فاروق بھائی آپ بھی ضد نہ کیجیے۔ آپ کو پتا ہے فروغ نسیم بھائی کل رات سے صرف ایم کیوایم کے آئین اور الیکش کمیشن کی دفعات کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘‘
’’اچھا تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے!‘‘ فاروق بھائی کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہوگئیں، پھر گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے بولے ’’رات کو پی آئی بی آؤ، سب معاملات دیکھ لیتے ہیں۔‘‘
مقبول صدیقی بھائی نے فوراً عامر بھائی اور فیصل بھائی کو ایک کونے میں کھینچا اور بولے ’’فاروق بھائی اس بار قیادت چھوڑنے دھمکی کیوں نہیں دے رہے؟‘‘ عامر بھائی فوراً بولے ’’ابے عقل کے نہلے! اس مرتبہ کوئی منانے نہیں آئے گا۔ اچھا سنو، تم میں سے کسی کو کوئی خاص فون تو نہیں آیا؟‘‘
’’نہیں‘‘ مقبول بھائی کچھ زیادہ ہی تیزی میں دکھائی دے رہے تھے۔
’’اچھا شام کو بہادر آباد میں پریس کانفرنس کا کہہ دو۔‘‘
کہنا کیا ہے بھائی! صحافی تو تین دن اور چار راتوں سے وہیں پڑے پڑے روٹیاں توڑ رہے ہیں۔ کہنے کی ضرورت نہیں،‘‘ فیصل بھائی نے ہنس کر جواب دیا۔
پیچھے سے ایک کارکن کی آواز آئی ’’ماں قسم اس وقت… ’بھائی‘ بہت یاد رہے ہیں۔ اگر وہ ہوتے تو آج ایم کیوایم کو بے پیندے کا لوٹا نہ بننا پڑتا۔ بھائی کے ٹیلیفون کی ایک گھنٹی سے یہ سب ایسے دبکے ہوئے ہوتے تھے جیسے درس حدیث چل رہا ہو۔ آج دیکھو ہم ٹکڑوں میں بٹ گئے۔‘‘
’’پہلے اس غم میں مصطفی بھائی خوب روئے، اب فیصل بھائی رو رو کر اپنا بُرا حال کر رہے ہیں؛ اور پھر عامر بھائی کے دل میں بھی جو ڈھیر سارا غم جمع ہوچکا تھا، وہ سارا آنکھوں کے راستے باہر آگیا۔ فاروق بھائی، ان کی تو شکل ہی نمکین اور غمگین ہے، انہیں رونے کی ضرورت نہیں۔ آہ! کیا زمانہ تھا۔ تیرا بھائی اس چوک میں تین تین بندے پھڑکا دیتا تھا اور کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔‘‘
اتنے میں ایک نامعلوم آواز آئی ’’بھائی کا فون آگیا!‘‘ اتنا سننا تھا کہ چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔
ایک ایسی صورتحال میں کہ جب ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی ایک نشست کے حصول کے لیے بھی، متعلقہ صوبے میں، مطلوبہ ارکان اسمبلی کی تعداد پوری نہ ہونے کے باوجود، سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے ٹکٹ ہولڈرز سینیٹ انتخابات کے اکھاڑے میں اُتار رکھے ہوں، وہاں عوام کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر سینیٹ کی نشست کے یہ امیدوار، اپنوں اور غیروں سے، جیت کے لیے مطلوبہ ووٹ کیسے اور کیونکر حاصل کریں گے؟
اس اہم ترین اور دیگر کئی اہم سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لیے یقیناً سینیٹ انتخابات میں ووٹنگ کے طریقہءِ کار اور نشستوں کے حصول کے عمل کو سمجھنا لازم قرار پاتا ہے۔ ترجیحی انتخاب کہلانے والے سینیٹ الیکشن کے اس عمل کو آئینی، قانونی، سیاسی اور انتخابی ماہرین اس لیے بھی قدرے پیچیدہ گردانتے ہیں کہ خفیہ رائے شماری کے ذریعے طے پانے والا یہ عمل ماضی میں کئی مرتبہ حیران کن انتخابی نتائج کی وجہ سے بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کرتا رہا ہے۔
سینیٹ کے اجزائے ترکیبی، مُدت اور انتخاب
ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں ہیں کہ 104 سینیٹرز کے اِس ایوان میں چاروں صوبوں سے کُل 23 ارکان ہیں۔ جن میں سے 14 عمومی ارکان، 4 خواتین، 4 ٹیکنوکریٹ اور 1 اقلیتی رکن ہے۔ فاٹا سے 8 عمومی ارکان سینیٹ کا حصہ ہیں۔ اسلام آباد سے کُل 4 ارکان ہیں جن میں سے 2 عمومی جبکہ ایک خاتون اور ایک ہی ٹیکنوکریٹ رکن ہے۔
سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اِس مرتبہ بھی سینیٹ کی آدھی یعنی 52 نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب سے 12 سینیٹرز کا انتخاب ہوگا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے 11 سیینیٹرز منتخب ہوں گے جبکہ فاٹا سے 4 اور اسلام آباد سے 2 ارکان ایوانِ بالا کا حصہ بنیں گے۔
قانون کے مطابق سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری اور ترجیحی ووٹ کی بنیاد پر منعقد کیے جاتے ہیں، جس کی گنتی کا طریقہءِ کار مشکل اور توجہ طلب ہے۔
سمجھنے کی بات کچھ یوں ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیاں تو سینیٹ کے انتخابات کا الیکٹورل کالج ہیں ہی کہ چاروں صوبوں کے صوبائی کوٹے سے آنے والے سینیٹرز اپنے اپنے صوبے کی اسمبلی کے ارکان کے ووٹوں سے منتخب ہوں گے، لیکن اس کے ساتھ فاٹا کے سینیٹرز کا انتخاب، قومی اسمبلی میں موجود فاٹا کے 12 ارکان کریں گے، جبکہ اسلام آباد کے سینیٹرز کا انتخاب بشمول فاٹا اراکین پوری قومی اسمبلی کے ارکان کریں گے۔
سینیٹ انتخابات میں پولنگ، ووٹنگ اور گنتی کا طریقہءِ کار
ایوانِ بالا کی 52 نشستوں پر انتخاب کے لیے پولنگ 3 مارچ کو ہوگی۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سینیٹرز کے انتخاب کے لیے پولنگ چاروں متعقلہ صوبائی اسمبلیوں میں جبکہ اسلام آباد اور فاٹا کی نشستوں کے لیے پولنگ قومی اسمبلی میں ہوگی۔ الیکشن قوانین میں طے شدہ فارمولے کے مطابق ایک نشست کے حصول کے لیے لازم قرار پانے والے ووٹوں کی تعداد کے گولڈن فگر کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی کے ارکان کی کُل تعداد کو مذکورہ صوبے کے حصے میں آنے والی سینیٹ کی موجود خالی نشستوں سے تقسیم کیا جائے گا۔
پنجاب اسمبلی کے ارکان کی کُل تعداد 371 ہے۔ پنجاب سے سینیٹ کی 7 خالی جنرل نشستوں پر انتخابات ہورہے ہیں۔ ارکان کی کل تعداد 371 کو خالی نشستوں کی تعداد 7 سے تقسیم کیا جائے تو ہر امیدوار کے لیے مطلوبہ ووٹوں کی تعداد یعنی گولڈن فگر 53 بنتی ہے۔ یعنی پنجاب سے ایک جنرل نشست حاصل کرنے کے لیے امیدوار کو 53 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔
ٹینکنوکریٹ، خواتین اور اقلیتی نشستیں، جن پر متعلقہ صوبے میں انتخابات ہونے جارہے ہیں، ان کو 371 نشستوں پر تقسیم کرنے سے ہر نشست کے لیے گولڈن فگر یا مطلوبہ ووٹوں کی تعداد معلوم کی جاسکتی ہے۔ مثلاً پنجاب میں خواتین کی 2 نشستوں کو کل ارکان 371 پر تقسیم کیا جائے تو مطلوبہ ووٹوں کی تعداد یعنی گولڈن فگر 186 بنتی ہے۔ یعنی پنجاب سے خواتین کی ایک نشست حاصل کرنے کے لیے امیدوار کو 186 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ گولڈن فگر حاصل نہ کرنے کی صورت میں کسی بھی نشست پر انتخاب لڑنے والا امیدوار، اس نشست کے تمام امیدواروں میں سب سے زیادہ ترجیحی ووٹ حاصل کرنے کی صورت میں بھی کامیاب قرار پائے گا۔ دوسری صورت میں گولڈن فگر سے زائد حاصل کیے گئے ووٹ، اس سے اگلے ترجیحی امیدوار کو منتقل ہوجائیں گے اور ایسے ہی یہ سلسلہ آگے بڑھتا جائے گا۔ ووٹوں کے اس انتقال کے باعث سینیٹ انتخابات کو منتقل شدہ ووٹوں کا انتخاب بھی کہا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر پنجاب سے سینیٹ کی 7 جنرل نشستوں پر اگر 20 امیدوار حصہ لے رہے ہیں تو پنجاب اسمبلی کے تمام ارکان کو ایک ایسا بیلٹ پیپر دیا جائے گا جس پر تمام 20 امیدواروں کے نام بغیر انتخابی نشان کے درج ہوں گے۔ ووٹ دینے والے ارکانِ پنجاب اسمبلی بیلٹ پیپر پر تمام امیدواروں کے نام کے آگے ایک سے 20 تک کا ترجیحی ہندسہ درج کریں گے اس طرح سب سے زیادہ ترجیحی ووٹ یعنی ایک کا ہندسہ حاصل کرنے والا امیدوار سینیٹر منتخب ہوجائے گا۔
اگر وہ امیدوار مقررہ گولڈ فگر یعنی 53 سے زائد مرتبہ ایک کا ہندسہ حاصل کرتا ہے تو تمام اضافی ایک یعنی اضافی ووٹ دوسری ترجیح حاصل کرنے والے امیدوار کو منتقل ہوجائیں گے اور یوں یہ عمل 7 سینیٹرز کے انتخاب تک دُہرایا جائے گا۔ اس میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی ووٹر یعنی رُکن صوبائی اسمبلی 1 سے 20 تک ترجیحی ہندسہ درج کرتے ہوئے کوئی ایک ہندسہ بھول جائے یعنی 9 کے بعد 10 کی ترجیح لگانے کے بجائے کسی امیدوار کے سامنے 11 کی ترجیح لگادے تو اس کے 9 ووٹ گنے جائیں گے جبکہ 9 کے بعد 20 تک کے سارے ترجیحی ووٹ کینسل یا منسوخ شمار ہوں گے۔
سینیٹ انتخابات کے اسی طے شدہ فارمولے کے تحت، جنرل نشستوں کے انتخابات میں، سندھ اسمبلی سے 24 ووٹ لینے والے امیدوار کو کامیاب تصور کیا جائے گا۔
خیبر پختونخوا اسمبلی سے سینیٹ کی جنرل نشستوں کے لیے 18 ووٹ اور بلوچستان اسمبلی سے سینیٹ کی جنرل نشستوں پر امیدوار کو کامیابی کے لیے 9 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔
فاٹا سے سینیٹ کی 4 نشستوں کے انتخابی عمل میں فاٹا کے 11 ارکانِ قومی اسمبلی ووٹ دیں گے، فاٹا سے سینیٹ کے ایک کامیاب امیدوار کے لیے 3 ووٹ حاصل کرنے ضروری ہیں۔ اسلام آبا کی 2 نشستوں پر ہونے والے سینیٹ انتخابات میں پوری قومی اسمبلی ووٹ دے گی۔ اسلام آباد کی جنرل اور ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں بھی اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار کامیاب تصور کیا جائے گا۔
سینیٹ الیکشن: کس نشست پر، کس جماعت کے کتنے امیدوار؟
2018ء کے سینیٹ انتخابات کے لیے چاروں صوبوں، فاٹا اور اسلام آباد سے 135 امیدوار میدان میں ہیں۔
پنجاب سے 20 امیدوار حتمی فہرست میں شامل ہیں۔ جنرل نشستوں پر 10، خواتین کی نشستوں پر 3، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 5 جبکہ اقلیتوں کی نشست پر 2 امیدوار میدان میں اُتریں گے۔
سندھ سے مجموعی طور پر 33 امیدوار الیکشن میں حصہ لیں گے۔ جنرل نشستوں پر 18، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 6، خواتین کی نشستوں پر 6 جبکہ اقلیتوں کی نشست پر 3 امیدوار مقابلہ کریں گے۔
خیبر پختونخوا سے کُل 27 امیدواروں میں مقابلہ ہوگا۔ جنرل نشستوں پر 14، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 5 اور خواتین کی نشستوں پر 8 امیدواروں میں مقابلہ ہے۔
بلوچستان سے 25 امیدوار سینیٹ الیکشن میں حصہ لیں گے۔ جنرل نشستوں پر 15، خواتین کی نشستوں پر 6 جبکہ ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 4 امیدوار پنجہ آزمائی کریں گے۔
ملک بھر سے پیپلز پارٹی کے 20، ایم کیو ایم پاکستان کے 14، تحریک انصاف کے 13 پاک سرزمین پارٹی کے 4 جبکہ 65 آزاد امیدوار سینیٹ انتخابات میں حصہ لیں گے جن میں مسلم لیگ (ن) کے وہ 23 امیدوار بھی شامل ہیں جو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن نہیں لڑسکیں گے۔
چاروں صوبائی اسمبلیوں میں سیاسی جماعتوں کی پارٹی پوزیشن
پنجاب اسمبلی کی کُل نشستیں 371 ہیں جبکہ موجودہ ارکان کی تعداد 367 ہے۔ سینیٹ انتخابات کے وضح کردہ فارمولے کے مطابق پنجاب اسمبلی سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے حصول کے لیے، امیدوار کو 53 ووٹ لینے ہوں گے۔
پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 309، تحریک انصاف کے 30، پیپلز پارٹی کے 8، مسلم لیگ ق کے 8، آزاد ارکان 5، مسلم لیگ ضیاء کے 3 ارکان ہیں جبکہ پاکستان نیشنل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور بہاولپور نیشنل عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔
سندھ اسمبلی کی کُل نشستیں 168 ہیں جبکہ موجودہ ارکان کی تعداد 167 ہے۔ فارمولے کے تحت سندھ اسمبلی سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے حصول کے لیے امیدوار کو 24 ووٹ لینے ہوں گے۔
سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے 95، ایم کیوایم کے 50، مسلم لیگ فنکشنل کے 9، مسلم لیگ (ن) کے 7، تحریک انصاف کے 4 ارکان ہیں، جبکہ نیشنل پیپلز پارٹی کا ایک اور ایک آزاد رکن اسمبلی ہے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کی کُل نشستیں 124 ہیں جبکہ موجودہ ارکان کی تعداد 123 ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے حصول کے لیے، امیدوار کو 18 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔
خیبر پختوںخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے 61، (ن) لیگ کے 16، جمعیت علمائے اسلام کے 16، قومی وطن پارٹی کے 10، جماعت اسلامی کے 7، پیپلز پارٹی کے 6، عوامی نیشنل پارٹی کے 5 ارکان ہیں، جبکہ 2 آزاد رکن اسمبلی ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کی کُل نشستیں اور موجودہ ارکان کی تعداد 65 ہے۔ بلوچستان اسمبلی سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے حصول کے لیے امیدوار کو 9 ووٹ لینے ہوں گے۔
بلوچستان اسمبلی میں (ن) لیگ کے 21، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 14، نیشنل پارٹی کے 11، جمعیت علمائے اسلام کے 8، ق لیگ کے 5، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے 2 ارکان اسمبلی ہیں جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، مجلس وحدت المسلمین، عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن اسمبلی اور ایک آزاد رکن اسمبلی ہے۔
ایوانِ زیریں ایوانِ بالا کو کیسے زیر کرے گا؟
اس وقت 342 کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں 340 ارکان موجود ہیں۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کے ارکان اسمبلی کی تعداد 221 ہے، جس میں مسلم لیگ (ن) کے 187، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 14، مسلم لیگ فنکشنل کے 5، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 3، نیشنل پیپلز پارٹی کے 2، مسلم لیگ ضیاء اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔
حزبِ اختلاف جماعتوں کے کُل ارکان کی تعداد 119 ہے۔ جن میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 47، پاکستان تحریک انصاف کے 33، ایم کیو ایم کے 24، جماعت اسلامی کے 4، مسلم لیگ قائد اعظم کے 4، عوامی نیشنل پارٹی کے 2 ارکان ہیں جبکہ آل پاکستان مسلم لیگ، قومی وطن پارٹی کا ایک ایک رکن اسمبلی ہے اور 3 آزاد ہیں۔
ایوانِ بالا میں موجودہ پارٹی پوزیشن اور امکانات کا کھیل
ایوانِ بالا میں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی 26 نشستیں ہیں۔ ان کے 18 سینیٹرز ریٹائر ہورہے ہیں جبکہ مجوزہ فارمولے کی روشنی میں پیپلز پارٹی کے بظاہر 8 نئے سینیٹرز ایوان کا حصہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینیٹ میں 27 نشستیں ہیں۔ 9 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے۔ سپریم کورٹ سے میاں نواز شریف کی بطور پارٹی صدر نااہلی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو آزاد امیدوار قرار دینے سے قبل، پارٹی آسانی سے 18 نئے سینیٹرز منتخب کرانے کی پوزیشن میں تھی تاہم اب انتخابی ماہرین کی نظریں کچھ نیا دیکھ رہی ہیں۔
آزاد سینیٹرز کی 10 نشستیں ہیں، 5 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے جبکہ 5 ہی نئے منتخب ہونے کا امکان ہے۔
متحدہ قومی مومنٹ کی 8 نشستیں ہیں، 4 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے اور بظاہر 4 نئے آنے کا امکان ہے۔
سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی 7 نشستیں ہیں۔ ایک سینیٹر ریٹائر ہوگا اور اگر کوئی انہونی نہیں ہوئی تو تحریک انصاف 6 نئے سینیٹرز لاسکتی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کی 6 نشستیں ہیں، 5 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے۔ ایک نیا سینیٹر منتخب ہونے کا امکان ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کی 5 نشستیں ہیں، 3 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے جبکہ 2 نئے منتخب ہوسکتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) کی 4 نشستیں ہیں اور چاروں سینیٹرز ریٹائر ہور ہے ہیں۔ اس سیاسی جماعت کا کوئی نیا سینیٹر آنے کا امکان نہیں۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی 3 نشستیں ہیں۔ کوئی سینیٹر ریٹائر نہیں ہو رہا جبکہ 3 نئے سینیٹرز منتخب ہوسکتے ہیں۔
نیشنل پارٹی کی 3 نشستیں ہیں۔ اس جماعت کا بھی کوئی سینیٹر ریٹائر نہیں ہونے جارہا۔ یہ جماعت بھی بظاہر 3 نئے سینیٹرز لاسکتی ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کی 2 نشستیں ہیں اور دونوں سینیٹرز ریٹائر ہو رہے ہیں۔ یہ جماعت بھی بظاہر کوئی نیا سینیٹر لانے کی پوزیشن میں نہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی سینیٹ میں ایک نشست ہے، کوئی سینیٹر ریٹائر نہیں ہو رہا۔ یہ جماعت بظاہر ایک نیا سینیٹر لانے کی پوزیشن میں ہے۔
جماعتِ اسلامی کی ایک نشست ہے، کوئی سینیٹر ریٹائر نہیں ہو رہا۔ جماعت اسلامی کا ایک نیا سینیٹر منتخب ہوسکتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کا ایوان میں ایک سینیٹر ہے جو ریٹائر ہوجائے گا۔ یہ جماعت بھی بظاہر نیا سینیٹر منتخب کرانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آرہی۔
مستقبل کے ایوانِ بالا میں ممکنہ پارٹی پوزیشن
مارچ 2018ء کے بعد سینیٹ کے 104 نشستوں کے ایوان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے جیتنے کی صورت میں 36 ارکان کے ساتھ پہلے، پاکستان پیپلز پارٹی 16 ارکان کے ساتھ دوسرے جبکہ پاکستان تحریک انصاف 12 ارکان کے ساتھ تیسرے نمبر پر نظر آتی ہے۔
آئندہ ایوانِ بالا میں آزاد سینیٹرز کی تعداد 10، ایم کیوایم کے سینیٹرز کی تعداد 8، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد 6 جبکہ نیشنل پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد بھی 6 ہوسکتی ہے۔
مستقبل کے سینیٹ میں جمعیت علمائے اسلام 4 جبکہ جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی 2، 2 نشستیں حاصل کرسکتی ہیں۔
اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کی روشنی میں پاکستان مسلم لیگ (ق)، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کی نمائندگی سینیٹ سے ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
سینیٹ انتخابات کی ووٹر فہرست
سینیٹ انتخابات کے لیے حتمی ووٹر فہرست تیار کرلی گئی ہے۔ اس وقت قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 1070 نشستوں میں سے 9 نشستیں خالی ہیں۔ قومی اسمبلی کی 3، پنجاب اسمبلی کی 4 جبکہ سندھ اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی ایک، ایک نشست خالی ہے۔ یوں سینیٹ انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 1061 ارکان 52 سینیٹرز کا انتخاب کریں گے۔
قومی اسمبلی کے 339 ارکان اسلام آباد کے 2 سینیٹرز کا انتخاب کریں گے جبکہ پنجاب اسمبلی کے 367 ارکان پنجاب کے 12 سینیٹرز کا انتخاب کریں گے۔ سندھ اسمبلی کے 167 ارکان 12 سینیٹرز کو منتخب کریں گے جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے 123 ارکان 11 سینیٹرز کو منتخب کریں گے۔ بلوچستان اسمبلی کے 65 ارکان 11 سینیٹرز کا انتخاب کریں گے جبکہ قومی اسمبلی کے 11 فاٹا ارکان 4 فاٹا سینیٹرز کا انتخاب کریں گے۔
پنجاب اور سندھ میں 7، 7 جنرل نشستوں، خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی 2، 2 نشستوں اور ایک اقلیتی نشست پر انتخاب ہوگا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں 7،7 جنرل نشستوں جبکہ خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی 2، 2 نشستوں پر انتخاب ہوگا۔ فاٹا میں 4 جنرل نشستوں جبکہ اسلام آباد میں ایک جنرل نشست اور ایک ٹیکنوکریٹ کی نشست کے لیے انتخاب ہوگا۔
کاغذات نامزدگی فارمز میں ارکانِ پارلیمنٹ کے لیے کھلی چُھٹی
پارلیمنٹ کا رُکن بننے کے لیے تمام اہم شرائط ختم جبکہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں بڑی تبدیلیاں کردی گئی ہیں۔ بینک ڈیفالٹرز، ٹیکس ادا نہ کرنے والے اور فوجداری مقدمات کا سامنا کرنے والے بھی سینیٹ اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق سینیٹ اور قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے والے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں ڈرامائی تبدیلیاں کردی گئی ہیں۔ سینیٹ الیکشن کے لیے ترتیب دیے گئے کاغذات نامزدگی میں انکشاف ہوا ہے کہ عوامی نمائندوں کو رُکنِ پارلیمنٹ بننے کے لیے کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔
بینکوں سے قرضے معاف کرانے والے بھی حالیہ سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوں گے۔ گیس، بجلی اور ٹیلی فون بلز ڈیفالٹر بھی سینیٹ انتخابات میں حصہ لے سکیں گے جبکہ فوجداری مقدمات کا سامنا کرنے والے اور ٹیکس چور بھی انتخاب لڑسکتے ہیں۔
موجودہ پارلیمنٹ کی جانب سے بنائے گئے 2017ء کے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں انتخابی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں کئی بڑی تبدیلیاں کردی گئی ہیں۔ کاغذات نامزدگی فارم سے قرضہ معافی اور یوٹیلٹی بلز ڈیفالٹر کا خانہ ختم کردیا گیا ہے۔ فوجداری مقدمات، نیشنل ٹیکس نمبر اور ٹیکس ادائیگی کی تفصیلات بھی ختم کردی گئیں ہیں۔ امیدواروں کی تعلیمی قابلیت، ذریعہ معاش اور نیشنل ٹیکس نمبر کا خانہ بھی ختم کردیا گیا ہے۔
ماضی میں سینیٹ انتخابات کے کاغذات نامزدگی میں مذکورہ بالا تمام شرائط شامل تھیں، اہم ترین بات یہ ہے کہ کاغذات نامزدگی میں تبدیلیاں، پارلیمنٹ میں موجود ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے مِل کر کی ہیں۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی امیدواروں کے لیے ایک ہی طرح کے کاغذات نامزدگی ترتیب دیے گئے ہیں۔ ماضی میں سینیٹ انتخابات کے امیدواروں اور عام انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے لیے علیحدہ علیحدہ کاغذات نامزدگی بنائے گئے تھے۔
پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات نے 3 برسوں کی محنت کے بعد انتخابی اصلاحات کا ایکٹ تیار کیا۔ ماضی میں انتخابی ایکٹ کی روشنی میں الیکشن کمیشن انتخابی قوانین اور قواعد و ضوابط ترتیب دیتا تھا جس میں انتخابی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی سمیت مختلف انتخابی فارمز کا بنانا بھی شامل تھا۔
پاکستان کی انتخابی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ انتخابی ایکٹ کے بعد انتخابی قوانین اور انتخابی فارمز بھی پارلیمنٹ نے بنائے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی منظوری کے بعد یہ انتخابی فارمز اور انتخابی قوانین پر مشتمل مذکورہ انتخابی صلاحات ایکٹ 2017ء الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا گیا تھا۔
پارلیمنٹ کی جانب سے نئے بنائے گئے کاغذات نامزدگی کا تجربہ پہلی مرتبہ 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں کیا جارہا ہے۔ ان کاغذات نامزدگی کو استعمال کرتے ہوئے 3 مارچ کو سینیٹ کے 52 نئے اراکین کا انتخاب کیا جائے گا۔
ملک میں جولائی 2018ء میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات میں بھی یہی کاغذات نامزدگی استعمال کیے جائیں گے۔ انتخابی ماہرین کی رائے میں، نئے کاغذات نامزدگی میں پارلیمنٹ کا رکن بننے کی اہم ترین شرائط کو ختم کردینے سے کئی اہم سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔
سیاسی ماہرین کا مؤقف ہے کہ نئے کاغذات نامزدگی میں ختمِ نبوت سے متعلق حلف نامے میں تبدیلی سے میڈیا میں بحث کا رُخ صرف اسی عمل کی جانب مرکوز ہوگیا تھا، حالانکہ اس دوران انتخابی فارمز میں انتہائی اہم نوعیت کی کئی بنیادی تبدیلیاں بھی کردی گئی ہیں۔
سب سے غریب اور کونے میں پڑے عرب ملک یمن پر قیامت بدقسمتی سے ایسے موقع پر ٹوٹی ہے جب تمام کیمرے شام کا خونی ڈرامہ کور کرنے میں
مصروف ہیں۔ یمن کے دیسی ڈرامے کے برعکس شامی خانہ جنگی ولایتی ہے کیونکہ اس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس براہِ راست شریک ہیں۔ جبکہ یمن کو تو بس محلے کے مسٹنڈے ہی مل کر ٹھونک رہے ہیں۔
یمنیوں کو آخر کیوں کوریج ملے؟ نہ تو وہ بین الاقوامی مدد مانگ رہے ہیں۔ نہ ہی یمنی پناہ گزینوں کے ریلے کشتیوں میں بھر بھر کے جان بچانے کے لیے بحیرہ قلزم پار کر رہے ہیں۔ نہ ہی وہاں کسی مغربی باشندے کو کسی نے یرغمال بنایا۔ جب یمنی ہی اپنے بحران کی ریٹنگ بڑھانے پر تیار نہیں تو ذرائع ابلاغ کو کیا پڑی کہ فالتو میں اپنا عملہ وہاں فی سبیل اللہ بھیجیں۔
جہاں تک عالمِ اسلام کا معاملہ ہے تو اس کے نزدیک یمن میں کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو رہی۔ یمن پر پچھلے سات ماہ سے جاری بمباری اور زمینی حملوں میں مصروف سعودی، اماراتی، قطری، بحرینی، کویتی، سوڈانی، مصری اور مراکشی بھی مسلمان ہیں اور اب تک جو چھ ہزار یمنی مر چکے اور ستائیس ہزار کے لگ بھگ زخمی ہو ئے وہ بھی مسلمان ہیں۔ حوثی بھی مسلمان ہیں اور ان سے نبرد آزما بھی مسلمان۔ غذائی قلت کی شکار 80 فیصد یمنی آبادی بھی مسلمان اور اس تھوپی ہوئی جنگ کے نتیجے میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگنے والے 20 لاکھ یمنی بھی مسلمان۔
ایک ہی دن میں دو باراتوں پر بمباری کے سبب جو ڈیڑھ سو مرد، عورتیں اور بچے ہلاک ہوئے اس کا حساب کتاب بھی اللہ تعالی پر چھوڑنا ہی مناسب ہے اور جن پائلٹوں نے سویلین ٹھکانوں پر کلسٹر بمباری کی ان کو بد نیت کہنے کا بھی کسی کو حق نہیں۔ ہمارا آپ کا کام بس اتنا ہے کہ مرنے اور مارنے والوں کی مغفرت مانگتے ہوئے دعا کریں کہ اللہ سب کو نیک ہدایت دے اور راستی و درگزر کی راہ دکھائے۔
مذمت؟ کیسی مذمت؟ اور کس کی مذمت؟ کیا یمن پر اسرائیل نے حملہ کردیا ہے جو مذمت کی جائے؟ کیا یمن میں مرنے والوں کا رتبہ غزہ پر بمباری میں مرنے والے عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے برابر ہے جو ریلیاں نکالی جائیں؟
اگر شام میں مرنے والے ڈھائی لاکھ لوگوں کے لیے یومِ سوگ، یومِ دعا، یومِ عبرت نہیں منا۔ کراچی، ڈھاکہ، جکارتہ، استنبول یا قاہرہ میں جنگ بندی کے مطالبے کے حق میں کوئی جلوس نہیں نکلا تو یمن کس کھیت کی مولی ہے۔ وہاں تیل کیا، قابلِ ذکر آثارِ قدیمہ اور بزرگ ہستیوں کے مزارات تک نہیں۔ کونے میں پڑے ایسے غریب ملکوں کا مرنا کیا اور جینا کیا۔
یمن میں اس وقت دس مسلمان ممالک کے فوجی دستے اور القاعدہ حوثی باغیوں سے لڑ رہے ہیں جنہیں ایران اور حزب اللہ کی حمایت تو حاصل ہے مگر کوئی ایرانی یا حزب الہی ان کی جانب سے لڑتا ہوا اب تک نہیں پکڑا گیا حالانکہ یمن کی بحری اور فضائی ناکہ بندی بھی جاری ہے۔
حوژیوں سے نبرد آزما ممالک کو برطانیہ، امریکہ، اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کی حمایت اور بیشتر مسلمان دنیا کی خاموش تائید بھی حاصل ہے۔ پھر بھی متحدہ عرب امارات نے یمن میں اپنے 45 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد کولمبیا سے کرائے کے تین سو فوجی منگوا لئے ہیں جو یمن میں اماراتی وردیاں پہن کر دشمنوں کا قلع قمع کریں گے۔
شکر ہے ان کرائے کے کولمبیائی جنگجوؤں میں کوئی یہودی نہیں۔ ورنہ غیرتِ ایمانی جوش میں آجاتی اور ڈیڑھ ارب مسلمان ایک بار پھر سیسہ پلائی دیوار بن جاتے۔ امارات کے خلاف نہیں، کولمبیا کے خلاف۔
ویسے یہ سیسہ پلائی دیوار ہوتی کیسی ہے؟ کسی نے دیکھی ہے؟
بہت دن بعد مینارِ پاکستان کو اتنا غور سے دیکھنے اور سوچنے کا موقع ملا۔ مٹی اور پتھر کا بنا یہ مینار، یادگار نہ بنتا اگر اس کو اسلام اور پاکستان کی نسبت نہ ملتی۔ بیسویں صدی کی سب سے بڑی اور روشن حقیقت، “پاکستان” کا یہ گواہ قومی یادگار کے طور پر سربلند اور قائم و دائم ہے۔ قیامِ پاکستان ایک ایسا خواب تھا جسے ہندوستان کے مسلمانوں نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا۔ اس کےلیے کرب ناک آزمائشوں سے گذرے اور بلآخر حصولِ تعبیر کا عہد اسی مقام پر باندھا گیا۔
میرے سامنے ستتر (77) سال قبل 23 مارچ 1940 کے لاہور کے (موجودہ) اقبال پارک کا منظر ہے۔ یہاں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس قائدِاعظم کی صدارت میں منعقد ہے۔ اس اجلاس میں شرکت کےلیے ہندوستان کے طول و عرض سے مسلمانوں کے قافلے جوق درجوق آ رہے ہیں۔ یہ سب رنگ و نسل، علاقوں اور برادریوں، زبان اور بولیوں، مذہبی فرقوں اور معاشی و معاشرتی حیثیتوں کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جس تعلق سے وہ سب بندھے نظر آئے، ایک مقام پر ایک وقت میں جمع ہوئے، وہ اسلام کا پکا اور سچا رشتہ ہے۔ وہ اپنی ہر انفرادی شناخت کو پسِ پشت ڈال کر ایک کلمے لا الہٰ الا اللّٰہ کی پہچان کے ساتھ جمع ہیں۔ انہیں اپنی اسی اسلامی شناخت کی بقا کےلیے ہندوستان کے مخالف حالات میں آزادی کی لگن ہے۔ وہ ایک ایسے خطہ کے خواہش مند تھے جہاں آزادی کے ساتھ اسلامی طریقوں پر عمل پیرا ہو سکیں۔ قراردادِپاکستان اسی مقصد کی جانب پیش قدمی ہے۔
اس قراداد میں کہا گیا کہ ہندوستان کے مسلم اکثریت والے علاقوں کی حدبندی کر کے خودمختار آزاد مسلم ریاست کی شکل دی جائے۔ یہ قرارداد پاکستان کی نظریاتی بنیاد کی حیثیت سے مسلمانوں کے اتفاقِ رائے کے ساتھ منظور کر لی جاتی ہے۔
کچھ لمحوں اور چند سطروں میں منظور ہو جانے والی یہ قرارداد دراصل مسلمانانِ ہند کی (1857 تا 1947) طویل جدوجہدِ آزادی کا نچوڑ ہے۔ مینارِ پاکستان کو کبھی اپنے عزیز اپنے محبوب کی حیثیت سے دیکھیں! یہ پرُشکوہ مینار آزادی کی داستان عجیب دلچسپ انداز میں اپنے اندر سموئے کھڑا ہے۔
اس کی شاندار بلندی، اس اسلامی نظریہ کی عظمت کا باوقار اظہار ہے جس کی بنیاد پر قراردادِ پاکستان عمل میں آئی۔ مینار کے کچھ قریب جائیں تو اس کو گھیرے ہوئے ایک گول سا چبوترا ہے۔ اس کی تعمیر کھردرے پتھروں سے کی گئی ہے۔ یہ اس جدوجہدِ آزادی کے سخت ترین حالت کی یاد دلاتے ہیں کہ جب قدم قدم پر مزاحمتیں تھیں۔ کچھ مزید آگے کی جانب چلیں تو اس سے اوپر والے چبوترے میں نسبتاََ ملائم پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ یہ مسلمانوں کی منزلِ مقصود کی جانب پیش قدمی کی علامت ہے۔ پھر ذرا نظر اٹھا کے دیکھیں تو بلندی پر جاتے جاتے نفاست میں بھی اضافہ نظر آتا ہے۔ یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ پاکستان بہتری کی جانب گامزن ہے۔ عین اختتامی بلندی پر چمکنے والا گنبد ہے۔ یہ اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان عالمِ اسلام میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ کچھ اطراف میں نظر دوڑائیں تو قرارداد کا مکمل متن دیواروں میں نصب سِلوں پر درج نظر آتا ہے۔
مینارِ پاکستان کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ یہ دنیا کی واحد یادگار ہے جو کسی اور یاد میں نہیں، بلکہ اسلامی نظریے کی یاد کےطور پر تعمیر کی گئی۔ حال ہی میں اس کی تزئین و آرائش نئے سِرے سے کر کے اس کو جدید تھیم پارک کے طور پر وسعت دی گئی۔ بظاہر اس اضافی زیبائش کے باعث عوام اور سیاحوں کی دلچسپی بڑھنے سے اس یادگار کی اہمیت بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
مگر جانے کیوں؟ اس قیمتی ترین حُسن افزائی کے بعد بھی مینارِ پاکستان کا وقار گہری سنجیدگی میں ڈھل گیا۔ جانتے ہیں اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ اس یادگار کے مسکن کے نام کو منٹو پارک سے اقبال پارک میں بدلنا دراصل پوری ایک تہذیب اور ایک نظریے کے فرق کا اظہار تھی۔ نام کی تبدیلی کے ساتھ یہ مقام اقبال کے تصورِ پاکستان اور اسلامی نظریہ کی علم بردار قراردادِ پاکستان کی یاد کا ورثہ بن گیا۔ مینار کی فکرمندی اس ورثے کی بےتوقیری کے باعث ہے۔ یہ کیسی یاد ہے کہ یہاں آنے والے زائرین کو ذاتی اغراض و مقاصد سے ہی فرصت نہیں ملتی! سیر تفریح، کھیل تماشے، میلے ٹھیلے، جلسے اور ان میں سیاستدانوں کی اپنی اپنی جماعتوں کےلیے متعصبانہ سرگرمیاں۔ کیا ان ہمہ رنگ دلچسپیوں میں اس قرارداد کے عہد کے ساتھ وفا کا بھی کچھ پاس ہے؟
ہماری جدوجہدِ آزادی گواہ ہے کہ جب تک قراردادِ پاکستان کا مقصد نصب العین بنا رہا، تب تک عوام بھی ڈٹے رہے؛ اور قرارداد کے صرف سات سال بعد ہی آگ وخون کا دریا عبور کر کے پاکستان قائم ہوگیا۔
ہماری قومی بدقسمتی کہ پےدرپے اندرونی کمزوریوں اور بیرونی سازشوں کے باعث استحکامِ پاکستان میں پہلے جیسا جذبہ اور مرمٹنے کی لگن باقی نہ رہ سکی۔ قیام کے چند برس بعد ہی کلمہ توحید کی بنیاد پر متحد ہونے والے، زبان و نسل کی خاطر ملک کو کاٹ بیٹھے۔ اس میں بیرونی سازشیں اپنی جگہ، مگر بنیادی غلطی، اپنی اسلامی بنیاد کی مضبوطی کی فکر سے غفلت اور نتیجتاََ باہمی کمزوری تھی۔
مینارِ پاکستان دیکھ رہا ہے کہ وطنِ عزیز کا دو ٹکڑے ہو جانے والا وجود مسلسل انتشار و مسائل ہی کا شکار ہے۔ شریعتِ الٰہی کی رُو سے “عہد توڑنے والے، اللّٰہ کی رحمت سے دورپھینک دیے جاتے ہیں۔” ملکی صورتِ حال دیکھیں تو کیا ہمارا معاشرہ اللّٰہ کی رحمت سے محروم ہو کر اس کی پکڑ کے عذاب میں مبتلا نہیں؟ بالائی طبقے سے لے کر نچلے طبقے تک، قومی زندگی کا ہر پہلو “بدعنوانی” کا عنوان بن کر جگمگا رہا ہے۔ تعلیم، صحت، معاشرت، عدلیہ، پولیس اور ریاستی ادارے، ہر جگہ اصول و قوانین کتابوں میں مقید ہیں۔ رخصت ہونے والی ہر حکومت ملک کو مزید مسائل کا تحفہ دے کر جاتی ہے۔ جس قوت کی فوج اور ایٹمی طاقت کی صورت میں خطیر سرمائے سے نگہداشت کی جاتی ہے وہ نہ ملک کو ٹوٹنے سے بچا سکی نہ ہی عوام و ریاست کی حفاظت پوری طرح کر سکی۔
قراردادِ پاکستان کے وقت ایک کلمہ کی بنیاد پر سات سال میں قائم ہونے والا پاکستان ستر سال بعد بھی استحکام کا بھکاری ہے۔ 1940 کی قرارداد کی سچائی کی شہادت دینے والا مینارِ پاکستان آج اسی عہد سے قوم کی بےوفائی کا گواہ بھی ہے۔ سب اس مینار کے سامنے ہے کہ اس ملک کو قائم کرنے والے اسلامی نظریے کو کس کس طرح منہدم کیا جا رہا ہے۔ ایمان و یقین سے سرشار قوم کو ایک متذبذب اور منتشر ہجوم بنایا جا رہا ہے۔
مینارِ پاکستان یہ تمام ناانصافیاں، جرائم، لوٹ مار، سیاستدانوں کی بداعمالیاں دیکھ رہا ہے۔ وہ سوچ میں ہے کہ خواب کیوں ادھورے رہ گئے؟ اقبال کے شاہین تو ابھی زندہ ہیں جو اس کم روشن ماحول میں بھی امید کے جگنو ہیں۔ نئی نسل کے نئے شاہین یقیناََ قرارادِ پاکستان کے خوابوں کو جلد خوب صورت تعبیر دینے کی تیاری میں ہیں۔
اور پھر میری آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھ لیا کہ نئی نسل سے اپنے خوابوں کی تعبیر کی امید پا کر مینارِپاکستان فخر سے اور بلند ہوگیا!
بریگیڈیئر ڈاکٹر منظور احمد 1939ء کے اس زمانے میں کالج داخل ہوئے جب شمالی ہند کے مسلمانوں کے لیے منزل کا تعین ہونے والا تھا۔ اس لیے انہوں نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو ’’ان ایکشن‘‘ دیکھا اور قرارداد پاکستان کی پوری کارروائی میں شریک رہے۔ پھر انہوں نے کالج میں 1941ء کا پاکستان سیشن بھی دیکھا۔ یہاں ہم ان کی یادوں کے اس طربناک حصہ کو نذر قارئین کرتے ہیں جسے وہ اپنی زندگی کا ایک گنج گراں سرمایہ سمجھتے تھے۔
’’نعمت اور شکر کے جذبات کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار مقصود ہے کہ میرے نزدیک 1940ء سے قبل ہی پاکستانی بن چکا تھا۔ اس قلبی کایا پلٹ کا سبب ہمارے سکول کے شفیق اور متقی ہیڈماسٹر دین محمد مرحوم کی تعلیم و تربیت تھی۔ مرحوم علامہ اقبال کے سیاسی افکار اور شعری کلام سے بہت متاثر تھے اور ان کی ترویج ان کی زندگی کا مشن تھا۔ ان کی اس رضا کارانہ تدریس (سکول میں انگریزی کے استاد تھے) سے اس ملی تصور و جذبہ کی تخم ریزی ہوئی جس کا اظہار علامہ اقبال کے اس ایمان افروز شعر سے ہوتا ہے
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
کشت طلباء میں یہ تخم ریزی آئندہ سالوں میں برگ و بار لائی وہ انہیں 23 مارچ 1940ء کے تاریخ ساز اجلاس میں منٹوپارک لے گئی۔ جسے اب اقبال پارک کہا جاتا ہے اور جہاں آج مینار پاکستان اس عظیم قرارداد کی یاد دلا رہا ہے جس نے سات سال کی قلیل مدت میں ایک قوم کی تقدیر پلٹ دی۔
یہاں برصغیر کے گوشے گوشے سے مسلم لیگی اکابرین اور کارکنان جمع ہوئے تھے۔ ان کی تعداد آج کل کے سیاسی اجتماع کے مقابلہ میں بوجوہ کم تھی۔ تقریباً ایک لاکھ ۔۔۔۔ میرا اندازہ تو اس سے بھی کم ہے لیکن بعض شرکاء جلسہ کا یہی خیال ہے۔ اب تو زمانہ کا مزاج ہی بدل گیا ہے۔ رنگ ہی کچھ اور ہے۔
دولت اور وسائل کے زور سے لاکھوں کی تعداد میں سامعین اکٹھے کئے جاتے ہیں۔ رضاکارانہ جمع ہونے اور ناظرین کو اٹھا کے لے جانے کا فرق واضح ہے۔ پہلی صورت اخلاص کی مظہر ہے اور دوسری دولت اقتدار اور حرض و ہوس کی نمایاں عکاس۔
قرارداد پاکستان کے عظیم اجتماع کے بارے میں بریگیڈئر منظور یو رقم طراز ہیں ’’ اس تاریخی اجلاس کے لاہور میں انعقاد کے باعث میزبانی کی سعادت پنجاب مسلم لیگ کے حصہ میں آئی اور بہ تقاضائے روایت پنجاب کے وزیراعظم (صوبہ کے وزیراعلیٰ کو وزیراعظم کہا جاتا تھا) سرسکندر حیات کو قرارداد لاہور (جسے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا تھا) پیش کرنا تھی۔ لیکن چند روز قبل ایک المناک حادثہ وقوع پذیر ہوا اور وہ اس شرف سے محروم کردیئے گئے۔خاکساروں کے ایک جلوس پر لاہور میں پنجاب پولیس نے وحشیانہ انداز میں گولی چلائی اور جلوس کے بہت سے شرکاء بھون کر رکھ دیئے۔ اس تاریخ ساز اجلاس سے تین یوم قبل اس سفاکی اور بربریت کے مظاہرہ نے جلیانوالہ باغ کی یاد تازہ کردی اور لاہور کی فضا میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ لوگوں کے اذہان میں مختلف اندیشوں نے جنم لیا، قسم قسم کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ مثلاً یہ جلسہ کو روکنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس المیے کے بعد سرسکندر حیات خان اور ان کے رفقاء نے قائداعظم کو جلسہ ملتوی کرنے کا مشورہ دیا۔ لیکن قائد نے ماننے سے صاف انکار کردیا۔ اندریں حالات قرارداد پاکستان پیش کرنے کی سعادت مولوی اے کے فضل الحق کو نصیب ہوئی جو مجوزہ پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے بنگال کے وزیراعظم تھے۔شرکائے جلسہ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ مولوی فضل الحق جلسہ گاہ میں دیر سے پہنچے تھے۔ انہوں نے 23 مارچ کی صبح کو بذریعہ کلکتہ ایکسپریس لاہور پہنچنا تھا۔ لیکن ریل گاڑی چند گھنٹے کی تاخیر سے پہنچی اور مولوی صاحب کو ریلوے اسٹیشن سے سیدھا جلسہ گاہ میں لایا گیا۔قرارداد انگریزی میں پیش کی گئی۔۔۔ جو آج بھی مینار پاکستان پر کندہ ہے۔ اس کا ترجمہ اپنے وقت کے عظیم اور کثیر الجہت (عظیم شاعر نثر نگار سیاست دان صحافی اور دینی سکالر) مولانا ظفر علی خان نے کیا۔ مولانا کی تقریر کے ابتدائی جملے مجھے ابھی تک یاد ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مسلمانو! آج سے تم آزاد ہوگئے ہو۔ مولانا کی دور رس نگاہوں کی داد دینا پڑتی ہے کہ ان کی پیش گوئی نے سات سال بعد حقیقت کا روپ دھارا آپ نے اپنا ایک قطعہ بھی پڑھا تھا جس کے آخری دو مصرعے یوں تھے۔
تہذیب نو کے منہ پہ وہ تھپڑ رسید کر
جو اس حرامزادی کا حلیہ بگاڑ دے
ان کا مقصد اس حقیقت سے پردہ اٹھانا تھا کہ پاکستان میں اسلامی اقدار کا بالفضل خدا نفاذ ہوگا۔انگریز سرکار اس اجلاس کی کامیابی نہیں چاہتی تھی اس حوالے سے بریگیڈیر منظور لکھتے ہیں ’’منٹوپارک حکومت پنجاب کی تحویل میں تھا اس میں سیاسی اجتماع کے انعقاد کے لیے حکومت سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ جس کے لیے ہوم سیکرٹری کو درخواست دی گئی۔ اس وقت ایک جابر انگریز افسر میکڈانلڈ سیکرٹری تھے۔ انہوں نے اعتراض کے ساتھ درخواست واپس کردی کہ قواعد کی رو سے یہ میدان سیاسی جلسہ کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ان دنوں پنجاب کے وڈیروں کی ایک جماعت یونیلسٹ پارٹی کی حکمرانی تھی۔ جسے انگریز کی داشتہ کہیں تو بے جا نہیں ہوگا۔ سرسکندر حیات کاغذ پر وزیراعظم ضرور تھے۔ دراصل بشمول دیگر مسلم اراکین اسمبلی ان کی وفاداری کا اولین مرکز فرنگی تھے۔ مسلم لیگ سے وابستگی سطحی اور نظریہ ضرورت کے تحت تھی۔
اس میں ایک استثنا قائداعظم کے مخلص رفیق ملک برکت علی مرحوم کی ذات تھی جو ان طرہ بازوں سے اکیلے 1944ء تک نبرد آزما رہے۔ جہاں تک یونینسٹ جاگیرداروں کا تعلق ہے ان پر تھوڑی ترمیم کے ساتھ علامہ کا یہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے۔
ٹامی کے سائے میں ہم پل کر جوان ہوئے ہیں
ہے ڈیڑھ فٹ کا طرہ قومی نشان ہمارا
جولائی 1944ء میں 26 اراکین اسمبلی پر مشتمل مسلم لیگ پارٹی معرض وجود میں آئی۔ اس میں وہ ’’قومی درد‘‘ رکھنے والے رکن بھی شامل ہوئے جو آج اپنی یادداشتوں میں ملک برکت علی مرحوم پر تنقید کے تیر چلاتے ہیں۔ میں نے ایک جلسہ میں ان ’’خالص اور وڈے‘‘ مسلم لیگی حضرات کا حدود اربعہ بیان کرکے یہ حساب بے باک کردیا تھا جس کے بعد یہ حضرات محتاط ہوگئے ہیں۔ یہ تو محض ایک جملہ معترضہ تھا۔
میں ذکر کررہا تھا جلسہ گاہ کی اجازت کا۔ چونکہ چند ماہ قبل 1940ء منٹو پارک میں اکالی دل (سکھوں کی معروف سیاسی جماعت) کا جلسہ ہوچکا تھا جس کا ابو سعید انور مرحوم کو علم تھا۔ اس لیے اس جلسہ کے حوالے سے دوبارہ درخواست بھیجی گئی اور منظور ہوئی۔
اکالی دل نے چونکہ جلسہ گاہ کا کرایہ مبلغ تین صد روپے دیا تھا اس لیے کچھ لیت و لعل کے بعد اسی کرایہ پر جانبین میں اتفاق ہوا۔ اس تاریخی اجلاس کی انتظامیہ کمیٹی کا دفتر ممدوٹ ولاکی ’’انیکسی‘‘ کو بنایا گیا۔ ابو سعید انور اس کمیٹی کے فعال رکن تھے۔ مسلسل دو ماہ تک ہر صبح امرتسر سے اپنے کرایہ پر بذریعہ گاڑی لاہور آتے اور شام کو اسی طرح واپسی ہوتی۔
دوپہر کا کھانا ڈیوس روڈ کے اڈہ تانگہ کے ایک نان چنا چھابڑی فروش سے کھاتے۔ البتہ عصر کی چائے کا بندوبست صاحب خانہ کا تھا۔ جلسہ کے لیے چالیس ہزار روپے کا چندہ جمع ہوا۔ اس میں سکندر حیات کی اپیل کا بھی دخل تھا جو انہوں نے ایک خط کی صورت میں تمام مسلم ممبران اسمبلی کو بھیجا۔ اس بات کو بھی ریکارڈ پر لانا ضروری ہے کہ ایک ہزار روپے سے زائد کسی صاحب کا چندہ نہیں تھا۔
بعد میں جو دعوے سننے میں آئے بے اصل ہیں۔ اجلاس کے کل اخراجات مبلغ ستائیس ہزار روپے تھے۔ اتنے بڑے اجتماع کے اس قدر کم اخراجات کو ماننے میں آج تو کیا اس دور کے مسلم لیگی عمائدین کو بھی تردد تھا۔ حتیٰ کہ آئندہ سال دسمبر 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ مدراس اجلاس کے منتظمین کے استفسار پر یہ رقم بتائی گئی تو انہوں نے ذہنی تحفظ کے ساتھ اسے تسلیم کرلیا لیکن بقول ابو سعید انور یہی حقیقت تھی۔ کارکنان و منتظمین نے تمام کام انتہائی رعایتی نرخوں پر کروائے۔
منتظمین کی ملی جذبہ سے درد مندانہ اپیل موثر ثابت ہوئی۔ خیمہ قنات، فرنیچر وغیرہ کے کنٹریکٹر نے مروجہ کرایہ سے نصف رقم وصول کی۔ اس کا نام تو یاد نہیں۔ کوئی غیر معروف ٹھیکیدار تھا خیال ہے کہ علی احمد کمپنی نے یہ خدمات سرانجام دیں۔ اس رائے کو اس امر سے بھی تقویت ملتی ہے کہ ان کے پاس وہ تاریخی کرسی اب بھی موجود ہے جس کو حضرت قائداعظم کے بطور صدر جلسہ نشست کا شرف حاصل ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اہلیان لاہور کو اس اجلاس سے متعارف کروانے کے لیے ایک ہفتہ قبل باغ بیرون موچی دروازہ لاہور ایک تقریب ہوئی جس میں مقررین نے اس تاریخ ساز اجتماع کی غرض و غائیت پر روشنی ڈالی۔جلسہ گاہ کا جو نقشہ بریگیڈیئر صاحب کے ذہن میں محفوظ ہے۔
اس کے مطابق۔۔۔ ’’منٹو پارک میں مندوبین۔۔ اور کارکنان کی رہائش کے لیے ایک خیمہ بستی بنائی گئی۔ جس کی نگہداشت کے فرائض مسلم لیگ نیشنل گارڈ صوبہ سرحد کے ارکان نے سرانجام دیئے۔ خیمہ میں ڈاک خانہ، تار گھر اور سستے ہوٹل قائم کیے گئے۔ رات کی سردی سے بچاؤ کے لیے آگ اور گرم پانی کا معقول بندوبست تھا۔
نظریہ پاکستان کے متعلق اب بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آرہی ہیں جن کے احاطے کی یہاں گنجائش نہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ میٹرک کی اردو کے کورس کی کتاب میں پاکستان پر جو مضمون لکھا گیا ہے اس میں خاصا ابہام ہے۔ لیکن اگر آپ 1940ء کے اس تاریخی جلسے میں موجود ہوتے تو اس ماحول کو ایک جملے میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہماری قوم کی اساس وحدت ایمانی ہے اور پاکستان میں قرآن کی حکمرانی ہو گی۔ یعنی نظریہ کے دو اجزاء ہیں پہلا جزو ہماری قومیت کی فکری اساس ہے اور دوسرا دستور العمل فکری اساس ہی عملی رویے کا تعین کرتی ہے۔
1941ء میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام اسلامیہ کالج لاہور میں ایک عظیم الشان کانفرنس ہوئی تھی جسے پاکستان سیشن کا نام دیا گیا۔میں اُس وقت کالج کا طالب علم تھا۔ جب 1941ء میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے پاکستان کانفرنس منعقد کرنے کا ارادہ کیا لیکن بعدازاں قائداعظم کی ہدایت پر اسے سالانہ جلسے کا نام دیا گیا۔
مولانا عبدالستار نیازی اس تقریب کے روح رواں تھے۔ یکم مارچ 1941ء کو اسلامیہ کالج لاہور کی گراؤنڈ میں بعد نماز عشاء پہلی نشست ہوئی۔ مرزا عبدالحمید صدر پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ مرزا صاحب آسٹریلین مسجد میں خطیب اور اسلامیہ کالج میں ایم اے عربی کے طالب علم تھے۔ بڑے اچھے مقرر تھے۔ خطبہ استقبالیہ کے بعد مولانا عبدالستار نیازی نے ایک ولولہ انگیز تقریر کی۔
قیام پاکستان کے بعد بھی مولانا کی تقریر سننے کا کئی مرتبہ اتفاق ہوا لیکن وہ گھن گرج دیکھنے میں نہیں آئی جو تحریک کے ایام میں تھی۔ اس کا اندازہ اہل دل حضرات ہی کرسکتے ہیں۔ مولانا کی قلبی کیفیت اقبال کے اس شعر کے مصداق تھی۔
مرزعۂ سوختۂ عشق ہے حاصل میرا
درد قربان ہو جس دل پہ وہ ہے دل میرا
ایک سیل رواں تھا جو امڈا چلا آرہا تھا اور قرآن فروش نوابوں، بے ضمیر وڈیروں، نیشلسٹ علماء کو خس و خاشاک کی مانند بہا کر لے جا رہا تھا۔ مولانا کی اس دور کی تقاریر سے اب تک گوش لذت گیر ہیں۔ مولانا نے سرسکندر کو جو اسٹیج پر موجود تھے مخاطب کرکے کہا کہ میں اسے ٹکے کا آدمی نہیں سمجھتا۔ سنا ہے کہ سرسکندر کی آنکھیں تر ہوگئیں۔ آخر میں قائداعظم صرف چند منٹ کے لیے بولے۔ انہوں نے تقریر کا آغاز اس مشہور جملے سے کیا۔
”This is the month of March Let us march on”
’’یہ مارچ کا مہینہ ہے ، تم بھی مارچ کرتے ہوئے بڑھے چلو‘‘
قائداعظم اور پروفیسر ریاض شاہ
قائداعظم کے حوالے سے ایک بات جو ان کی وفات سے دو تین دن پہلے پروفیسر ڈاکٹر ریاض علی شاہ کی ان سے ملاقات میں ہوئی۔ قائداعظمؒ نے ان سے فرمایا۔ تم جانتے ہوکہ جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے، تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے۔ یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کرسکتا تھا۔ میرا ایمان ہے کہ یہ رسول خداﷺ کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا قرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے۔
(پروفیسر ریاض کی کتاب ’’میرا قائد‘‘ سے اقتباس)
بیگم رعنا لیات علی خان کے وہ الفاظ جنہیں ’’ہیکٹر بولتھو‘‘ نے اپنی کتاب ’’کرییٹر آف پاکستان‘‘ میں شامل کیا ہے
’’اپنی بے پناہ دیانت داری کے علاوہ جناح میں دوسروں کو متاثر کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔ وہ جب کسی فرد یا مجمع کو متاثر کرنے کا تہیہ کرلیتے تو بالآخر اس پر چھا جاتے تھے۔ میں نے تو کئی مرتبہ انہیں انگلی اٹھا کر کسی سے یہ کہتے سنا ’’تم مہمل باتیں کررہے ہو اور خود نہیں سمجھتے کہ کیا کہہ رہے ہو‘‘ اس سرزنش پر ان کا مخاطب ہمیشہ چپ ہوکر بیٹھ جاتا۔ لیکن ان کے سحر کار انداز خطاب کی اصل شان اس وقت ظہور میں آتی جب وہ کسی بڑے مجمع میں تقریر کرتے۔ یہاں وہ اپنا یک چشمہ اکثر استعمال کرتے۔ پہلے وہ آنکھ پر لگاتے۔ پھر ہٹا کر بولنا شروع کرتے۔ ان کے اور ان کے سامعین کے درمیان غیر زبان کی بڑی اونچی دیوار حائل تھی کیوں کہ وہ انگریزی میں تقریر کرتے تھے اور اکثر سامعین انگریزی سے بالکل ناواقف ہوتے لیکن اس کے باوجود لوگ شوق سے ان کی تقریر سنتے اور اس کا ایسا اثر ان پر ہوتا جیسے کسی نے جادو کردیا ہو۔
کردار کی عظمت کے ساتھ ساتھ الفاظ کا یہی جادو تھا جس نے دو قومی نظریے کو بنیاد سے حقیقی ریاست کی جغرافیائی سچائی بنائے جانے تک کا سفر کروا دیا۔ نسلوں سے شکست خوردہ گروہ اس سچائی سے آنکھیں پھیر سکتا ہے نہ ہی اس تاریخی حقیقت کو مغالطے کی دھول سے اڑسکتا ہے۔‘‘
جناح آف پاکستان کے مصنف سٹینلے والپرٹ کا خراج تحسین
’’بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کردے۔ محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دکھائے۔
(ایک شامی مجاہد کی آب بیتی جو شام کے حالات و واقعات کی بہترین عکاس ہے، یہ آب بیتی عالمی بیداری یعنی Global Awerence ادارے کے ذریعے دنیا کے باشعور افراد تک پہنچی)
2012ء وہ سال تھا جب ہر سمت ہماری اسلامی فتوحات کا چرچہ تھا، سید قطب کی تعلیمات کے مطابق اسلامی انقلاب برپا ہوئے دو سال ہوچکے تھے۔ امت مسلمہ کی دعا سے مجاہدین نے تقریباً پورے شام پر اپنا قبضہ جما لیا تھا، قبضہ ہوتا بھی کیوں نہ، انڈونیشیا، ملائشیا، بنگلہ دیش، پاکستان، سعودی عرب، صومالیہ، نائجیریا اور لیبیا سمیت دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے راسخ العقیدہ مسلمان جوق در جوق شوق شہادت لئے شام کا رخ کر رہے تھے، بشارد الاسد کے دن گنے جا چکے تھے، دنیا بھر سے مجاہدین “ابو جہاد” امریکہ کی مکمل حمایت ہی نہیں، مالی، عسکری اور ذہنی مدد بھی ہمارے ساتھ تھی۔ حکیم امت طیّب اردگان بھی موافق تھے، سب مجاہدین انہی کے ملک سے رستہ پکڑتے تھے۔ سعودی عرب، قطر اور امارات نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے تھے، امریکہ نے یورپ کے کافی ملکوں کو بھی ساتھ ملا لیا تھا، اسرائیل تو شروع سے ہی حامی تھا، جب کبھی ہم مشکل میں ہوتے، وہ شامی فوج پر فضائی حملہ کر دیتا، مجاہدین کے جذبہ جہاد میں اضافے کی خاطر ہر طرح کے دینی و دنیاوی اسباب مہیا تھے۔
پاکستان میں جماعت اسلامی، دیوبند اور اہل حدیث برادران نقاروں کو تیل دے رہے تھے کہ شام میں فتح کا وقت آن پہنچا ہے، کہیں امریکہ بہادر ہم سے پہلے نہ نقارہ بجا دے، ہر آن مجاہدین ایک نئے شہر پر پرچم اسلام لہرا رہے تھے، رافضی بشارد الاسد کے گرد گھیرا تنگ ہوچکا تھا، بدلے کا وقت آن پہنچا تھا، الشیخ عدنان عرعور اور احمد الاسیر وغیرہ روضۂ حضرت زینب کو مسمار کرنے کی باتیں ٹی وی پر کرنے لگے تھے، صحابی رسول (ص) عمار یاسر کے روضہ کو تو پہلے ہی اسلامی طریقے سے مسمار کیا جا چکا تھا، جسے پہلے اہل بدعت نے شرک کا اڈہ بنایا ہوا تھا، اب بس دنوں یا مہینوں کا کھیل باقی تھا، ہم نے اسلام کے گم گشتہ پیغام اور احکامات کو دوبارہ زندہ کرنے میں کوئی کسر بجا نہ رکھی۔ اسلام کی وہ تعلیمات جو ماڈرن ازم کے چکر میں مسلمان بھول چکے تھے، ہم نے انکو عملی جامہ پہنا کر دکھایا۔ بالخصوص غلامی، اسلامی سزائیں جیسے ذبح وغیرہ کرنا، زندہ آگ لگانا، مفتوحہ علاقہ کی خواتین کو اپنی “پناہ” میں لینا، منافقین کی سرکوبی کرنے کو خوب زندہ کیا۔ بدقسمتی سے نوے فیصد شامی لوگ مغربی تعلیم کے معیارات کے مطابق پڑھے لکھے اور روشن خیال ہیں، ہم جس بھی علاقے کو فتح کرتے وہاں پر اسلامی قوانین کے احترام میں بوڑھوں اور بچوں کی رعایت کرتے، باقی لوگوں کو تہ تیغ کر دیتے۔
اس میں بھی اگر کوئی راسخ العقیدہ مسلمان نظر آ جاتا، جو شرک وغیرہ سے اجتناب کرتا ہو تو اسے بھی بخشش مل جاتی تھی، مگر روافض کے ساتھ بعض مجاہدین جلال پر قابو نہ رکھتے ہوئے حدود شریعت پار کر جاتے تھے، انکے بچے وغیرہ بھی ان بدبختوں کے اعمال کی بھینٹ چڑھ جاتے تھے۔ انکی عورتوں کو بھی بسا اوقات تبلیغ کرنے کی بجائے بس ہمبستری تک ہی محدود کیا جاتا، بسا انہیں کہا کہ کیا پتہ انکے دل میں اسلام آجائے، مگر مجاہدین کی اکثریت قائل تھی کہ یہ شیعہ ٹھیک ہونے والے نہیں ہیں، انہیں بس کام میں لاؤ اور فی النار کر دو۔ بت شکنی بھی اہم اسلامی فریضہ ہے، جسے ہم نے خلافت میں قائم کیا اور تمام مراکز کفر جیسے چرچ وغیرہ کے ساتھ عالمی دباؤ کے باوجود رعایت نہ برتی، بدقسمتی سے صحابہ نے شام کے آثار قدیمہ کو تباہ نہیں کیا تھا، صحابہ سے توحید کے پرچار میں جو کسر رہ گئی، وہ ہم نے امریکی بموں سے پوری کی اور تدمر کے بت کدے کو اڑا کر رکھ دیا۔ اس میں امریکہ اور اسرائیل کا مفاد یہ تھا کہ شام اپنی تاریخ سے کٹ جائے اور اس علاقے پر یہودی حق کو ثابت کیا جا سکے۔
مگر پھر سال 2013ء میں کچھ ایسا ہوا کہ سب کچھ پلٹ گیا، شاید الله کو ابھی مسلمین کا مزید امتحان لینا مقصود تھا، شاید ابھی خلافت کے قیام کے لئے ہمارے اعمال کافی نہیں تھے، لبنان کی حزب الشیطان جو اپنے آپکو حزب الله کہتی ہے، روضہ سیدہ زینب (س) کی حفاظت کے چکر میں میدان میں کود پڑی۔ مجاہدین کو شکست پر شکست ہونے لگی۔ ایران بھی پشت پناہی کرنے لگا۔ ایسا لگا کہ فتح اسلام کا راستہ روک دیا گیا ہے۔ مقامات شرک کو تباہ کرنے کے لئے شاید مسلمین کو مزید انتظار کرنا ہوگا۔ صورت حال ان بیلنس سی ہوگئی، برا ہو اس لادین ملک روس کا کہ وہ بھی عین اسی وقت اپنی ٹیکنالوجی سمیت میدان میں کود پڑا اور مجاہدین پر قیامت سے پہلے قیامت ڈھا دی۔ اس کو یہ ڈر تھا کہ کہیں شام پر قبضے کے بعد مجاہدین چیچنیا میں خلافت قائم نہ کر دیں۔ مجاہدین کیلئے سر چھپانا مشکل ہوگیا تھا۔ ابو جہاد امریکہ بھی ایک حد سے زیادہ مدد نہیں کرسکتا تھا۔ وہ اپنی فوج اور فضائیہ کو شہید کروانے کیلئے تیار نہیں تھا، ایسی صورت حال میں مجاہدات بھی، جو یورپ وغیرہ سے جہاد باالنکاح کی غرض سے گھر بار چھوڑ کر تشریف لائی تھیں، پریشان ہونے لگیں۔ بہت ساری بلادالخلافہ سے دوبارہ بلاد الکفر جانے کی تیاری کرنی لگیں، جس سے مجاہدین پر جنسی دباؤ بڑھنے لگا، استغفراللہ۔
ایسے میں مجاہد لونڈیوں وغیرہ سے کام چلانے لگے، مگر وہ تو جب دشمن کا علاقہ فتح ہو تو تب ہی نصیب ہوتا ہے۔ اس نعمت عظمٰی کی فراوانی جب نہ رہی تو مجاہدین کا حوصلہ مزید پست ہونے لگا، آسمان سے روس اور زمین سے شامی فوج نے جینا محال کر دیا تھا، بہت سارے مجاہدین شہید ہوگئے اور بہت سارے نوزائیدہ مجاہد اپنے ممالک کو لوٹ گئے، شام میں خلافت اسلامیہ کا خواب چکنا چور ہونے لگا۔ شامی حکومت نے ایک ایک کرکے قصبے اور شہر واپس لینا شروع کئے تو مجاہدین پسپا ہوتے چلے گے۔ ابو جہاد نے اقوام متحدہ وغیرہ میں بہت شور مچایا کہ شامی حکومت اپنے لوگوں پر بمب برسا رہی ہے، اسے روکا جائے، لیکن عبث! یہاں تک کہ مرکز خلافت یعنی حلب (جسے انگریزی میں الیپو کے نام سے جانا جاتا ہے) شہر پر بھی شامی فوج نے حملے کے لئے پر تول لئے، ایسے میں بے چینی میں مجاہدین نے اپنے حامی و ناصر امریکہ سے مطالبہ کیا کہ ہمیں بچایا جائے۔ امریکہ نے کہا کہ ہمت تو تم لوگوں نے بہت کی ہے اور ہماری خاطر قربانیاں بھی بہت دی ہیں، مگر اس وقت ہماری مجبورری یہ ہے کہ مقابلے میں اسد نہیں، مقابلے پر روس ہے، اس لئے ہم عسکری مدد تو نہیں کرسکتے، لیکن اس میدان میں ایک اور طریقے سے آپکو بچانے کی کوشش کریں گے، تم بس ایسا کرو جیسا ہم کہیں۔
سکرپٹ ہم لکھ کر دیں گے، ایکٹنگ تم نے کروانی ہے، اچھی شکل و صورت والے بچے ڈھونڈو، انکی ویڈیو بناؤ۔ ہم یہ ویڈیو پوری دنیا میں آگ کی طرح پھیلا دیں گے، چلی کے ساحلوں سے لے کر چین تک ہر ایک باضمیر نفس پکار اٹھے گا کہ بند کرو یہ تشدد، یہ طریقہ جہاد امریکہ نے ہمیں پہلے نہیں سکھایا تھا، ہم نے جو ویڈیو بنائیں، وہ اللہ کے فضل سے ہر مسلم کے دل میں گھر کر گئیں، سوائے رافضی کے، کہ انکے دل پر بغض عمر کی بابت مہر لگ چکی ہے، ایمبولینس میں بیٹھے ہوئے بچے والی ویڈیو ہماری بہت مشہور ہوئی تھی، اس پر طرہ یہ ہوا کہ سی این این کی خبریں پڑھنے والی رو پڑی، نرم دل خاتون تھی۔ اگر جہاد بالنکاح کی غرض سے آجاتی تو شاید میں اپنی زوجیت میں لے لیتا۔ اب خدا جانے وہ کہاں ہوگی۔؟ وہ تو برا ہو کہ بعد میں اس ویڈیو کی حقیقت پکڑی گئی، جب اس لڑکے اور اس کے باپ نے حقیقت کھول دی، نمک حرام کہیں کے، جیسے ہی حلب پر اسد کا قبضہ ہوا، لڑکے کے باپ نے میڈیا کو بتایا کہ اس کے بیٹے کو میک اپ کرکے استعمال کیا گیا تھا، چند ایک اور ویڈیوز بھی پکڑی گئیں، لیکن شکر ہے کہ اکثر ویڈیوز کو بے نقاب کرنا اتنا آسان نہیں تھا، اب تو ہمارے پاس ترکی میں ایک پورا اسٹوڈیو ہے، جہاں سے ہم کیمیائی حملے بھی فلما سکتے ہیں۔
اب اسد نے دوبارہ ہمارے ٹھکانے غوطة پر حملے کا سوچا تو امریکہ نے پھر وہی پرانی ترتیب آزمائی، بزدل اپنی فوج اور فضائیہ کو نہیں بھیجتا، خیر اب تو یہ بھی اسکی مہربانی ہے، مجاہدیین کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے موقع پر عوام میں گھل مل جائیں، تاکہ محفوظ بھی رہیں اور ویڈیو وغیرہ کے لئے مواد بھی زیادہ ملے، شہر کے لوگ بھی اسلامی خلافت کی اہمیت اور جذبہ جہاد سے عاری ہیں، بار بار یہی کہتے ہیں کہ ہمیں دمشق جانے دو، ہم بھلا کیسے جانے دیں، یہ جا کر اسد کے قبضہ والے علاقوں میں آرام سے بیٹھ جائیں گے اور مجاہدین بے کس و لاچار رہ جائیں گے، ایسے نافہم اور دنیا پرست لوگوں کو اگر ہم اسلام کی خدمت میں لا رہے ہیں تو برا ہی کیا ہے؟ اگر کچھ مارے گئے تو جنت جائیں گے، ان لبرل کافروں کی بھی عاقبت بن جائے گی۔ اب صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے، تقریباً تمام علاقہ مجاہدین کے قبضے سے لے لیا گیا ہے، بہت کم جگہوں پر نظام اسلام باقی رہ گیا ہے، حلب میں ٹرین بھی چل گئی ہے دوبارہ سے، یونیورسٹی میں پھر کافرانہ سائنس پڑھائی جا رہی ہے اور تو اور موسیقی و رقص کی محفلیں سج رہی ہیں، کرسمس کا تہوار منایا گیا ہے، دیواروں پر غیر اسلامی تصویریں بن رہی ہیں، دین انکے دلوں تک اترا ہی نہیں، اب ہمیں شاید کوئی اور زمین تلاش کرنی چاہیے، جہاں اسلامی نظام ممکن ہو، اس لئے ابو جہاد امریکہ سے بھی بات چیت چل رہی ہے، دیکھیں اب قسمت اس مجاہد کو کہاں لے جاتی ہے، کیا آپ اپنے شہر میں ہمیں اسلام نافذ کرنے دیں گے۔؟
موجودہ مالی سال کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں تیسری مرتبہ کمی کی گئی ہے۔ جولائی میں مالی سال کے پہلے کاروباری دن ایک ڈالر 104 روپے 50 پیسے کی قیمت سے تیزی سے گرتا ہوا 109 روپے کی قیمت سے تجاوز کرگیا۔ اس طرح ڈالر کی قدر میں 1.3 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔
مگر روپے کی قدر میں کمی پر اسٹیٹ بینک اور اس وقت کے وزیرِ خزانہ کے مؤقف کا تضاد سامنے آیا اور اسحٰق ڈار نے بینکرز کا اجلاس طلب کرکے انٹر بینک مارکیٹ میں روپے کی قدر کو بحال کرنے کے احکامات دیے۔
مگر اس کے باوجود روپے کی قدر مکمل بحال نہ ہوئی اور طے پایا کہ ایک ڈالر 105 روپے 50 پیسے پر مستحکم رہے گا۔ اس طرح کرنسی کی قدر میں تقریباً ایک روپیہ کمی ہوئی۔ اس کے بعد دسمبر 2017ء میں ایک مرتبہ پھر اچانک کرنسی کی شرح تبادلہ کو چھیڑا گیا اور دسمبر میں روپے کی قدر اچانک 109 روپے کو پہنچ گئی۔
مگر اس مرتبہ وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک میں کوئی تنازع نہ ہوا اور روپے کی قدر میں کمی کو مارکیٹ کی ایڈجسٹمنٹ قرار دیا گیا اور اب مارچ کی 19 تاریخ کو ایک مرتبہ پھر ڈالر کی قدر میں کمی کی گئی اور ایک ڈالر 115 روپے 60 پیسے کی قیمت پر پہنچ گیا۔ اس طرح موجودہ مالی سال کے دوران ایک ڈالر کی قیمت میں 11 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
اس صورتحال پر وفاقی مشیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی اعشاریوں کو دیکھتے ہوئے ایک حکمتِ عملی کے تحت روپے کی قدر میں کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پہلے دسمبر میں تجرباتی طور پر ڈالر کی قدر میں 5 فیصد کی کمی کی گئی اور دیکھا گیا کہ اس کے معاشی اعشاریوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس کمی سے مہنگائی میں کوئی بڑا اضافہ نہیں ہوا اور جولائی سے فروری تک شرح افراطِ زر 3.8 فیصد رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ دیکھا گیا ہے حالانکہ گزشتہ کئی مہینوں سے برآمدات مسلسل گررہی تھیں۔ فروری کے مہینے میں برآمدات میں 15 فیصد اور درآمدات میں 8 فیصد کا اضافہ ہوا۔
اس وقت پاکستانی درآمدات ملک کی مجموعی برآمدات اور سمندر پار پاکستانیوں کی بھجوائی گئی ترسیلات کے مجموعے سے زائد ہیں اور یہ کسی طور پر معیشت کے لیے اچھا نہیں ہے، اور پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ رہا ہے۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ اب مستقبل قریب میں پاکستانی روپے کی قدر میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی کیونکہ پاکستانی رویپہ اپنی اصل شرح مبادلہ کو ڈھونڈ چکا ہے۔
مشیرِ خزانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے گرتے ہوئے زرِمبادلہ ذخائر کو فنڈ کرنے کے لیے بانڈز کے اجراء کے علاوہ چین کے ساتھ کرنسی سواپ بھی کررہا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ جولائی میں مالی سال کے اختتام تک زرِمبادلہ ذخائر میں 60 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوگا۔
دوسری طرف اگر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی رپورٹ کو دیکھا جائے جو مارچ میں کرنسی کی قدر میں گراوٹ سے چند روز قبل جاری ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو قابو میں کرنے کے لیے روپے کی حقیقی شرح مبادلہ پر جانا ہوگا۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستانی کرنسی کی حقیقی شرح مبادلہ یعنی ریئل افیکٹیو ایکسچینج ریٹ موجودہ شرح سے تقریباً 19 فیصد زیادہ ہے جس کو ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سال دسمبر تک پاکستان کو جو بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں ان میں آئی ایم ایف کو 6.13 ارب ڈالر، چینی کرنسی سواپ 1.03 ارب ڈالر فارورڈ اور سواپ کے لیے 5.359 ارب ڈالر اور 70 کروڑ ڈالر دیگر مدات میں بیرونی ادایئگیاں کرنا ہیں۔
اب اگر اس تمام کو پاکستان کے اس وقت کے زرِمبادلہ ذخائر سے منہا کیا جائے تو پاکستان کے زرِمبادلہ ذخائر منفی 724 ملین ڈالر رہ جائیں گے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کو روپے کی قدر میں مناسب کمی کرنے کے ساتھ ساتھ سخت مانیٹری پالیسی اپنانے کا بھی کہا تھا۔
مگر ایکس چینج ریٹ کتنا کم یا زیادہ ہونا چاہیے؟ اور اس کے لیے کوئی سادہ فارمولا موجود ہے جو 2 جمع 2 بتاسکے؟ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کہتے ہیں کہ ایکس چینج ریٹ کو متعین کرنے کے کئی ماڈلز ہیں جن میں اعداد و شمار کو رکھ کر دیکھا جاتا ہے اور ہر ماڈل میں ریٹ میں فرق آتا ہے۔
روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ ان ملکوں میں جہاں پاکستان تجارت کرتا ہے، وہاں کرنسی کی صورتحال کیا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان سے عالمی تجارت میں مقابلہ کرنے والے ملکوں کی کرنسی کی قدر یا شرح مبادلہ کو بھی دیکھا جاتا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان طارق باجوہ کے مطابق یورو اور پاؤنڈ کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کم ہو رہی ہے۔ اس طرح اگر ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 5 فیصد سستا ہوا ہے تو یورو اور پاؤنڈ میں یہ روپے پر اثر 10 فیصد ہوگا۔ اس کے علاوہ اگر چین اور بھارت کی کرنسی مضبوط ہوتی ہے تو یہ بھی روپے کی قدر میں استحکام کا سبب بنتے ہیں۔
روپے کی قدر اور مقامی صنعت
روپے کی قدر میں کمی کے معیشت پر دہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور پاکستان جیسے ملک میں جس کو درآمدات پر منحصر معیشت بنا دیا گیا ہے وہاں کرنسی کی قدر میں کمی سے درآمدات کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور برآمدات بڑھتی ہیں۔
وزیر اعظم کی مشاورتی کونسل کے رکن شوکت ترین کہتے ہیں کہ معیشت کے 2 بازو ہیں، ایک ہیں برآمدات اور دوسری ہے مقامی معیشت۔ اگر روپے کو اس کی حقیقی شرح تبادلہ پر نہ رکھا جائے تو نہ صرف زرِمبادلہ کے ذخائر پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ زرِمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ یعنی برآمدات کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کیونکہ کرنسی مضبوط یا حقیقی قدر سے زیادہ ہونے کی وجہ سے عالمی منڈی میں قیمت کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔
دوسری طرف سستی درآمدات مقامی صنعت کو متاثر کرتی ہیں۔ بیرونِ ملک بڑی فیکٹریوں کی وجہ سے وہاں اکانومی آف اسکیل بہتر ہوتا ہے جو کہ پاکستانی کمپنیوں سے 10 فیصد کا مارجن لیتی ہیں۔ اسی طرح اگر کرنسی بھی 10 فیصد اوور ویلیو ہو تو مقامی صنعتوں کے لیے مقابلہ 20 فیصد مارجن کا ہوجاتا ہے۔
اس کے اثرات مقامی صنعتوں پر دیکھے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے تیزی کے ساتھ مقامی صنعتیں بند ہوئی ہیں اور یوں درآمدات پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ کرنسی کو اوور ویلیو رکھ کر ہم اپنے دونوں بازوؤں یعنی برآمدات اور مقامی صنعت کو کاٹتے ہیں۔
روپے کی قدر میں کمی کے بعد گندھارا نسان نے نسان جاپان کے ساتھ مل کر دوبارہ پاکستان میں گاڑیوں کی صنعت لگانے کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی 20 فیصد مقامی پارٹس کے استعمال کا بھی اعلان کیا ہے۔
جب نسان کے مڈل ایسٹ کے ڈائریکٹر پیمین کارگر سے روپے کی قدر میں کمی کے گاڑیوں کی قیمت پر پڑنے والے اثرات کا سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی سے کار اسمبلرز کو گاڑی کے زیادہ سے زیادہ پرزہ جات کو مقامی طور پر تیار کرنے کا موقع ملے گا، اور اس سے وینڈر انڈسٹری میں نئی سرمایہ کاری آئے گی۔
وزیرِ مملکت برائے ریونیو ہارون اختر خان بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کو ایک پیداواری قوم سے ایک تجارتی قوم میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ پاکستان نے آزاد تجارت اس لیے اپنائی تھی کہ اس کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا، مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا اور مقامی صنعتوں کی جگہ سستی درآمدات نے لے لی۔
بیرونِ ملک اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم
روپے کی قدر میں حالیہ کمی کو ماہرینِ معیشت ایک دوسری نگاہ سے بھی دیکھ رہے ہیں۔ ان کی نظر میں روپے کو ڈی ویلیو کرنے سے بیرونِ ملک پاکستانیوں کے رکھے گئے اثاثوں کی مالیت بڑھ گئی ہے اور اگر وہ یہ اثاثے پاکستان میں ظاہر کرتے ہیں تو انہیں فائدہ ہوگا۔ یعنی روپے کی قدر میں کمی کے مقاصد میں حکومت کو زیرِ غور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو زیادہ پُرکشش اور مؤثر بنانا بھی ہے۔
معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد کے مطابق روپے کی قدر میں کمی کے ذریعے حکومت نے ایک تیر سے 2 شکار کیے ہیں۔ وہ اس کمی کو بیرون ملک اثاثے رکھنے والے پاکستانیوں کے لیے خوش آئندہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اثاثے ظاہر کرنے والوں کو 10 فیصد ڈی ویلیو ایشن سے فائدہ ہوگا اور وہ 2 سے 3 فیصد پینلٹی کے ساتھ یہ فائدہ اٹھا سکیں گے۔
حکومت اپریل کے مہینے میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کروا رہی ہے۔ جس میں بیرونِ ملک رکھے گئے اثاثوں کو ظاہر کرنے پر کوئی قانونی کارروائی کرنے کے بجائے معمولی جرمانہ عائد کرکے چھوڑ دیا جائے گا۔ ماہرین توقع کر رہے ہیں کہ اس اسکیم سے 150 ارب روپے کے بیرونی اثاثے ٹیکس نیٹ میں آسکیں گے۔
بیرونی قرضوں کا حجم
روپے کی قدر میں کمی سے بیرونی قرضوں کا روپے میں حجم بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ ایک روپیہ ڈی ویلیو ایشن سے غیر ملکی قرض میں 90 ارب روپے کا اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح پاکستان کے بیرونی قرضوں کے حجم میں 594 ارب روپے کا اضافہ پاکستانی کرنسی میں ہوگیا ہے۔ ایک فیصد کمی روپے کی قدر میں انفلیشن میں اعشاریہ 3 فیصد کا اثر ڈالتی ہے۔
ڈی ویلیو ایشن کا جھٹکا
کسی بھی ملک کی کرنسی میں شرحِ مبادلہ کا تعین وہاں کی مارکیٹ کرتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت شرحِ مبادلہ طے کرنے کے لیے 2 مارکیٹس موجود ہیں، ایک انٹر بینک مارکیٹ ہے اور دوسری اوپن مارکیٹ۔ انٹر بینک مارکیٹ میں بینکس ڈالر کا آپس میں لین دین کرتے ہیں اور اس ڈالر کی طے ہونے والی قیمت پر درآمد کنندگان کو ڈالر فراہم کیا جاتا ہے۔
ویسے تو مارکیٹ کا اصول ہے کہ وہ خود کو یومیہ کی بنیادوں پر طلب و رسد اور انفلیشن کی بنیاد پر ایڈجسٹ کرتی ہے مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے اور پاکستان میں روپے کی شرح تبادلہ کو اسٹیٹ بینک براہِ راست کنٹرول کرتا ہے اور حکومتِ وقت اس کی نگرانی کرتی ہے۔ اگر ضرورت ہوتی ہے تو اسٹیٹ بینک انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر فراہم کرکے روپے کی شرح تبادلہ کو مستحکم اور زرمبادلہ کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔
اس عمل کی وجہ سے زرِمبادلہ ذخائر پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ بیرونی قرضوں کے ساتھ ساتھ تجارتی ادائیگیوں پر بھی خرچ ہونے لگتے ہیں۔
معاشی ماہرین کے مطابق اسٹیٹ بینک کا ایک دفعہ میں روپے کی قدر 5 فیصد کم کرنا درست نہیں بلکہ اس کا مقصد بعض مخصوص لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے، مگر قدر میں یکدم کمی کے بارے میں موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ دلیل دیتے ہیں کہ اس سے لوگوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے جو کہ میری نظر میں ایک نہایت ہی بوگس اور بے سروپا دلیل ہے۔
روپے کی قدر میں کمی سے 2 ہفتے قبل ہی اسٹاک مارکیٹ میں روپے کی قدر کے حوالے سے سرگوشیاں ہونے لگی تھیں اور لوگوں نے شیئرز بیچ کر ڈالر خرید لیے تھے۔ اسٹاک بروکریج سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ دسمبر اور پھر مارچ میں لوگوں نے ڈالر کی سرمایہ کاری سے چند دنوں میں لاکھوں روپے کمالیے ہیں۔ اسی سٹے بازی کو روکنے کے لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ کرنسی کی قدر کو یومیہ کی بنیادوں پر بتدریج کم کیا جائے تاکہ مستقل طور پر برآمدات فائدہ مند رہیں اور درآمدات قابو میں رہیں۔
کرنسی، زرِ مبادلہ کا بحران اور انتخابی سال
پاکستان میں سن 2000ء کے بعد سے معیشت میں بہت سی تبدیلیاں آگئی ہیں اور صدر مشرف کے دور حکومت میں امریکی امداد کے بڑے پیمانے پر آمد اور اداروں کی فروخت سے زرمبادلہ ذخائر اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
یہ اضافہ مارچ 2007ء تک جاری رہا مگر جیسے ہی وکلاء کی تحریک نے زور پکڑا، نازک سہاروں پر کھڑی کھپت کی بنیاد پر ترقی کرتی معیشت نیچے آگری اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر میں بھی نمایاں تبدیلی ہوئی اور سال 2007ء کے اختتام پر ملکی زرمبادلہ ذخائر خطرناک حد تک گر گئے اور آنے والی نئی حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے ایک بڑا قرض لیا جس سے معیشت کو سہارا ملا۔
مگر حکومت اور اسٹیٹ بینک کے درمیان پالیسی اختلافات کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام مکمل نہ ہوسکا۔ سال 2008ء سے 2015ء تک سخت مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اسی لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض کا ایک اور پروگرام شروع کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا آئی ایم ایف پروگرام تھا جو کہ مکمل کیا گیا۔
اب یہ ایسا سائیکل بن چکا ہے کہ جب پاکستان انتخابات کے قریب پہنچتا ہے تو اس کو بیرونی ادائیگیوں کے مسائل کا سامنا بھی ہوجاتا ہے اور یہ عمل بتدریج گہرا اور مشکل ہوتا جارہا ہے۔
پاکستان کو میکرو اکنامک سطح پر 2 بڑے خساروں کا سامنا ہے جو کہ ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ ایک ہے مالیاتی خسارہ اور دوسرا ہے بیرونی وسائل کا خسارہ جس کو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ یا جاری کھاتوں کا خسارہ بھی کہا جاتا ہے۔ مالیاتی خسارہ کم ہوگا تو جاری کھاتوں کا خسارہ بھی مثبت سمت میں متحرک ہوگا۔
اس طرح اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان ہر 5 سال کے بعد بیرونی ادائیگیوں کے خسارے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
ضروری ہے کہ پاکستان اپنی کرنسی کی شرح تبادلہ بتدریج ایڈجسٹ کرتا رہے تاکہ پاکستان میں برآمدات بڑھیں اور درآمدات کے بجائے مقامی طور پر تیار اشیاء کی کھپت میں اضافہ ہو جس سے مقامی صنعتوں کو فائدہ ہو۔
یوں عوام کے لیے حقیقی روزگار پیدا ہوگا اور مستحکم معاشی ترقی حاصل ہوگی۔
پاکستان جانتا ہے کہ آل شریف کا احتساب کرنے پر ججز اور پانامہ سکنڈل کی تحقیقات کرنے والی جی آئی ٹی کے ممبران کو شریف کے حواریوں نے بانگ دہل سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں, اسی وجہ سے سپریم کورٹ کے جج جسٹس شیخ عظمت سعید نے انہیں سیسلین مافیا سے تشبیہ دی تھی, سیسلن مافیا اٹلی کا بدنام زمانہ گینگ ہے جو مافیا کے خلاف کیسز سننے والے ججز کو بھی قتل کردیتا ہے.
یہی کچھ اب پاکستان میں شروع ہوچکا ہے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے حفظ و امان میں رکھے, پاکستانی سسلین مافیا اب ججز کے خلاف متحرک ہوچکا ہے, انتہائی نڈر اور دلیر جج جسٹس اعجازالاحسن کے گھر پر رات اور پھر آج صبح دوبارہ فائرنگ کی گئی. چیف جسٹس میاں ثاقب نثار واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر ان کے گھر پہنچے اور آئی جی پنجاب سے اس بابت رپورٹ بھی طلب کرلی ہے.
جسٹس اعجازالاحسن سپریم کورٹ کے مانٹرنگ جج بھی ہیں جو شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں چلنے والے ریفرنسز کی نگرانی بھی کررہے ہیں ہفتہ وار رپورٹ بھی نیب کی جانب سے انہیں پیش کی جاتی ہے اس کے علاوہ انہوں نے پانامہ کیس کی سماعتیں کرتے ہوئے کپٹل ایف ذیڈ ای کا معاملہ بھی اٹھایا تھا.
اس کے علاوہ جسٹس اعجازالا حسن سانحہ ماڈل ٹاون کی سماعت کرنے والے بنچ کا بھی حصہ ہیں, شریف خاندان کے خلاف چلنے والے تمام ہائی پروفائلز کیسز میں جسٹس اعجاز الاحسن بنچ کا حصہ ہیں. ان کے گھر ماڈل ٹاون میں فائرنگ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے یہ پنجاب حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے.
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی دفتر اور پنجاب کے حکمران شہباز شریف کے دفتر اور گھر کے قریب میں یہ واقعہ رونما ہوا کیونکہ جسٹس اعجازالاحسن کا گھر بھی ماڈل ٹاون میں ان کے قریب ہی ہے, پہلے رات کو فائرنگ ہوئی اور پھر دوبارہ صبح کو فائرنگ ہوئی فائرنگ کا یہ واقعہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہے جس کا مقصد بادی النظر میں ججز کو خوف زدہ کرنا ہے اور ان پر دباو لانا ہے.
آل شریف کی جانب سے یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہورہا بلکہ ان کے زرخرید حواری پہلے ہی ججز کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے چکے ہیں اور ماضی بھی گواہ ہے کہ شریف خاندان خود کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے کیونکہ ابھی تک قوم کو ان کی جانب سے سپریم کورٹ پر کیا جانے والاحملہ یاد ہے.
اب سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس اعجازالاحسن کے گھر پر فائرنگ نے ثابت کیا کہ یہ سیسلین مافیا کسی حد تک بھی جاسکتا ہے, پنجاب حکومت کی ناک کے نیچے ماڈل ٹاون جیسے پوش علاقے میں سپریم کورٹ کے جج کے گھر پر فائرنگ نے حکومتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے جس صوبے کا وزیر قانون اور وزیر داخلہ ہی سیسلین مافیا کا سرغنہ ہو وہاں ججز پر فائرنگ کے اس طرح کے واقعات سے تعجب نہیں ہوتا.
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ ججز فی الفور سیکورٹی بڑھائی جائی ہائکورٹ اورسپریم کورٹ کے ججز کے علاوہ شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں کیس سننے والے جج کو بھی مکمل سکیورٹی دی جائے تاکہ وہ مافیا اور گینگ کے اوچھے ہتکنڈوں سے محفوظ رہیں.
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ان بہادر ججز کو اپنی امان میں رکھے اور انہیں حوصلہ دے کہ وہ بلا خوف و خطر فیصلے کرسکیں. آمین
شام مسلسل سات سال سے داخلی خانہ جنگی کا شکار ہے جس میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، لاکھوں افراد زخمی ہو چکے ہیں اور نصف سے زیادہ شامی عوام دوسرے ممالک میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ شام کا بنیادی انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا اور عوام پینے کے صاف پانی اور خوراک تک سے محروم ہیں۔ یہ جنگ شامی عوام کے چند مہربان ممالک نے ان کی بقول ان کو ایک ڈکٹیٹر سے نجات دلانے کے لئے شروع کی جس میں ناصرف ان کی دام درھم سخن امداد کے بلکہ ان کے لئے خلافت کا احیاء کرنے کے لئے ہزاروں امپوٹڈ و رینٹڈ جلاد صفت جنگجؤں کی سہولت بھی فراہم کی۔ جنھوں نے فقط شام پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ عراق کے بھی وسیع علاقے پر قبضہ کر کے اپنے مقبوضات و مفتوحات میں قائم شدہ خلافت سے وہاں لوگوں کے لئے سوھان روح کا سامان فراہم کیا بلکہ پوری دنیا میں اسلام و مسلمین کی بدنامی کا باعث بنے۔ ان کی فتوحات کا سلسلہ افغانستان، پاکستان، ایران، سعودی عرب، یمن، مصر و افریقی ممالک تک جاری رہتا اگر بیچ میں کچھ ایرانی و لبنانی و عراقی اور روسی عوام اس جنگ میں داخل نہ ہوجاتے اور ان کی مقبوضات و مفتوحات کو ان کے تسلط سے نکال کر اور ختم کر کے انہیں انڈرگراؤنڈ چھپنے پر مجبور نہ کرتے۔
اس تمام خانہ جنگی سے شامی عوام کو ہلاکتوں و تباہی وبربادی و دربدری کے کچھ نہیں ملا۔ ایسے میں 14اپریل کو امریکا بھادر نے اپنے دو اتحادی ممالک برطانیہ اور فرانس کے ساتھ ملکر اس تباہ شدہ ملک پر مزید مہربانی سے گریز نہیں کیا بلکہ صاف پانی و خوراک اور دوا و دارو سے محروم ملک پر کئی سو ملین ڈالرکے میزائل برسا کر اس مظلوم عوام کے ساتھ اظھار یکجہتی و اپنی نصرت کا اعلان فرمایا ہے اور ان کو احساس دلایا ہے کہ ڈکٹیٹر شپ پر مشتمل اس نظام کے خلاف آپ اکیلے نہیں بلکہ ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ اس کا فایدہ بیچاری شامی عوام کو ہوا یا نہیں لیکن حملہ آور ممالک کی عوام کے ٹیکس یا عرب ممالک کے پیسے سے اسلحہ ساز کارخانوں کے مالکوں کو ضرور ہوا ہے اور ان کی جیبیں بھرنے بلکہ بھر کر پھٹنے کا باعث ضرور بنا ہے۔
اس حملے کے بارے میں امریکا بھادر و برطانوی و فرانسوی سرکار کا کہنا ہے کہ یہ حملہ شامی رژیم اور اس کے حامی روس و ایران کے لئے غافل کنندہ و خلاف توقع تھا اگرچہ جہاں جہاں میزائل لگے ان ٹھکانوں کو پہلے سے خالی کرا لیا گیا تھا لہذا کوئی خاص جانی و مالی نقصان نہیں ہوا ۔ اسی وجہ سے ان حالات کے بعد شام کے مدافع و حمایتی ممالک نے زبانی و کلامی مذمت اور ہلکلی پھلکی دھمکی اب کی مار تو دیکھوں پر اکتفاء کرلیا ۔
سوال یہ ہے کہ اس کئی سو ملین ڈالر کے شامی عوام کے لئے بے ثمر نسخے کا امریکی سرکار بھادر ٹرامپ اور ان کے دو یارو مددگار ممالک کو کیا فائدہ ہوا ہے
1: ان حملات سے جہاں سرکار بھادر ٹرامپ نے روس کی حمایت سے الیکشن جیتنے کے دھبے کو دھونے کی کوشش کی وہیں برطانوی و فرانسوی وزراء اعظم نے اپنے ممالک میں موجودہ بحرانوں سے عوام و دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے ۔
2: امریکہ نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ابھی بھی دنیا کی چوہدراہٹ میرے پاس ہے جو بھی ہمارے خلاف چلے گا اس کا انجام ایسے ہی کریں گے ۔
3 : امریکی سرکار جو ایک طرف ایران فوبیا سے عرب ممالک کو کئی عشروں سے ڈرا کر ان سے سستا تیل لے رہا تھا دوسری طرف ان سے آنکھ بچا کر ایران سے مذاکرات کی پینگیں ڈال رہا تھا۔ یہ امریکی کام عرب ممالک کو ایک آنکھ نہ بھایا جس پر انہوں نے امریکا کے اس ہرجائی پن کا گلہ شکوہ کیا تو سرکار نے انہیں مزید ایران فوبیا میں مبتلا کر کے اپنی اسلحہ فیکٹریوں کی چمنیوں کو روشن رکھنے کے لئے کئی سو بلین ڈالر کا اسلحہ بیچنے کے علاوہ کئی سو بلین ڈالر کے نذرانے وصول کئے۔
اس کے باوجود عرب ممالک نا صرف اس پر مطمئن نہیں ہو رہے تھے بلکہ عراق و شام پر داعش کے خاتمے میں ایران کے اہم کردار پر سیخ پا تھے اور امریکی بھائی جان سے ایرانی اثرو رسوخ کو ختم کرنے کے خواہاں تھے ۔ انکل سام اور اس کے یاروں نے عرب ممالک کو چپ کرانے کے لئے اس حملے کا لالی پاپ ان کو تھما کر ان کو کچھ دیر اور چپ رہنے پر راضی کر لیا ہے۔
3:ترکی جو ابتداء میں امپورٹڈ و رینٹڈ جھادیوں کو شام میں داخلے کا دروازہ و سہولیات فراہم کرتا تھا ۔ لیکن جب حکمران طبقے کے خلاف ناکام بغاوت کے پیچھے انکل سام کے ہاتھ دیکھے تو اس نے اپنا قبلہ روس کی طرف موڑنا شروع کر دیا تھا۔ اسرائیل بھی مسلسل بشار حکومت کی ہاتھ سے نکلے علاقوں پر دوبارہ اس کی رٹ قائم ہونے سے خائف ہے ۔ اس حملے سے جہاں اسرائیل کی تشفی دل کا سامان فراہم کیا گیا ہے وہیں ترکی کوبھی اپنا پرانا قبلہ باقی رکھنے کا سگنل دیا گیا ہے۔
4:اس حملے کے ذریعے غیر مستقیم طور پر دیگر امریکی مخالف ممالک ایران و شمالی کوریا اور بعض مالک جن سے امریکا ناراض ہے جیسے پاکستان ان کے لئے یہ پیغام ہے کہ آپ کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے ہم اقوام متحدہ و بین الاقوامی برادری کی حمایت کے محتاج نہیں ہیں بلکہ جب اور جس پر چاہیں ہم حملہ کر سکتے ہیں ۔
ان حملات میں جہاں انکل سام اور ان کے حامیوں نے اپنے مفاد سمیٹے ہیں وہیں انھوں نے اپنے حریف روس کو بھی محروم نہیں رکھا، روس کے جدید ترین ایس 400 دفاعی میزایل سسٹم اور شام میں ایس 35 طیاروں کے ہوتے ہوئے یہ حملہ ہو گیا اور مقابل میں حملہ آوروں کا ذرا برابر بھی نقصان نہیں ہوا اگرچہ شامی و روسی نمائندگان ستر کے قریب میزائلوں کو فضا میں تباہ کرنے کی بات کر رہے ہیں اور ٹرمپ اس بات پر مصر ہے کہ کوئی میزائل بھی راستے میں تباہ نہیں کیا جا سکا۔ ایک سو دس کے قریب برسائے گئے میزائلوں میں سے اگر ستر راستے میں فضا میں تباہ ہوئے ہیں تو تیس سے چالیس تک تو پھر بھی اپنےھدف پر لگے ہیں جو جدید ایس 400 روسی دفاعی میزائل سسٹم کی ناکامی کی کسی حد تک دلیل ہے۔
اس حملے پر شام کے اتحادی ممالک نے صرف زبانی کلامی مذمت پر اکتفاء کیا جو بہت مشکوک ہے اور کوئی اس کی طرف نہ متوجہ ہے نہ غور کر رہا ہے۔ اگرچہ ایران اور حزب الله فورا ری ایکشن نہیں کیا کرتے بلکہ ٹھنڈے دماغ سے سوچ کر غیر متوقع وقت و موقع پر جواب کی تاک میں رہتے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایران فوبیا اور شامی کھڑاک سے جہاں عربوں کی جیبوں کو خالی کرنے کا کام جاری رکھا ہے، وہیں روس نے ایران سے مالی فوائد کی خاطر اس طول دے رکھا ہے اور اس کی جیبیں خالی کرنے کے درپے ہے۔
اگر بشار مخالفین کے مالی و جنگی ضروریات عرب ممالک کی نوازشات سے پوری ہو رہی ہیں تو روس بھی خدا واسطے اور محض شامی حکومت کی ہمدردی میں نہیں کر رہا بلکہ اس کی پوری قیمت ایران سے وصول کر رہا ہے، اس حملے کے نتیجے میں روس اپنی قیمت اور بڑھائے گا شام کو بچانے کی خاطر جس کو ایران ضرور ادا کرے گا ۔
اس حملے اور اس جیسے متوقع حملات کے نتیجے میں دیگر ممالک احساس خطر کریں گے جو امریکی اسلحہ و طیارے نہیں خرید سکتے یا جن کو امریکا اور اس کے اتحادی اسلحہ و طیارے فروخت نہیں کرتے وہ سب بڑے بڑے معاہدے روس سے کریں گے اور اس کی جیبیں بھریں گے ۔لہذا یہ حملہ کر کے امریکا نے روس پر بھی احسان کیا ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادی اور روس اگرچہ ابھی اپنے مفادات کی خاطر اس جنگ کو طول دے کر مالی فوائد و ثمرات حاصل کر رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کو جب چاہیں لپیٹ و سمیٹ سکتے ہیں ۔ ان دھکتے انگاروں کو اگر بجھایا نہ گیا تو اس کے بھڑکتے شعلے دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیں گے اور تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہو جائے گا جس کا ایندھن صرف شام ہی نہیں پوری دنیا بنے گی۔
ہر دفعہ انتخابات کے سال میں پیش کیے جانے والے بجٹ پر جو تنازعات سامنے آتے ہیں، اس دفعہ وہ دوبارہ وہ ٹربوچارج ہوگئے ہیں۔ بیرونی کھاتوں کے بظاہر ناقابلِ حل مسائل ہیں، ان کی وجہ سے یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی طرف جائے گا، بس یہ دیکھنا ہے کہ کب۔
سیاسی طور پر مشکلات کا شکار مسلم لیگ ن پر الزام ہے کہ اس نے اگلے عام انتخابات میں اپنی کامیابی کے امکانات بہتر بنانے کے لیے ایک آئینی مگر متنازعہ مکمل دورانیے کا بجٹ پیش کیا ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کا اسحاق ڈار کے بغیر یہ پہلا بجٹ تھا چنانچہ ایک نازک توازن کی ضرورت تھی: یعنی سابق وزیرِ خزانہ کو قصوروار ٹھہرائے بغیر ان کی کچھ مخصوص پالیسیوں کو واپس کرنا۔ اسحاق ڈار سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی شہہ پر بے تحاشہ اثر و رسوخ کے حامل تھے۔
مگر کل ہی وزیرِ خزانہ بننے والے مفتاح اسمٰعیل جب بجٹ تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو اپوزیشن نے ان کے خلاف ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ جہاں اسمٰعیل کی تقرری آئینی ہے، وہاں اس کی مثال بھی نہیں ملتی اور وزیرِ مملکت برائے خزانہ، جو کہ ایم این اے بھی ہیں کی موجودگی میں یہ نہایت غیر ضروری تھی۔ پارلیمنٹ کے اندر پی پی پی اور پی ٹی آئی کے حال ہی میں دریافت ہونے والے یکساں سیاسی مفادات کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا جب دونوں جماعتیں احتجاج کر رہی تھیں۔
بجٹ تقریر کے بعد ڈان سے ایکسکلوزیو گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے یہ فیصلہ ایسے سمجھایا: “گزشتہ رات وزیرِ اعظم سے بات چیت ہوئی تھی کہ آیا ضوابط کو معطل کیا جائے، یا پھر وزارتی راستہ اختیار کیا جائے۔ یہ طے پایا کہ ضوابط کی معطلی درست نہیں ہوگی اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا۔”
مفتاح اسمٰعیل کی تقرری ایک تاریخی مثال ہے، مگر ان کا پیش کیا گیا بجٹ نہیں۔ اپوزیشن اور مالیاتی ماہرین کی جانب سے فوراً اس کا آپریشن کر دیا گیا۔ اس بجٹ پر تنقید کی جا رہی ہے کہ یہ ادائیگیوں کے توازن پر شدید دباؤ، اور عام انتخابات کے قریب آنے پر اخراجات کے سیاسی مطالبوں کے درمیان توازن رکھنے میں ناکام ہو چکا ہے۔
پی پی پی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیرِ خزانہ نوید قمر نے کہا ہے کہ “انہیں معلوم ہے کہ انہوں نے اس بجٹ پر عمل نہیں کرنا، اور ممکنہ طور پر انہیں یقین ہے کہ اگلی حکومت ان کی نہیں ہوگی۔” بجٹ پر مزید گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، “ہر کسی کو لالی پاپ دیا گیا ہے۔ دیکھیں ایک ایسی معیشت میں جہاں ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو (مجموعی قومی پیداوار میں ٹیکس کا حصہ) کم ہو، وہاں آپ کو دھیان رکھنا ہوتا ہے کہ ایک شعبے میں ٹیکس میں دی جانے والی چھوٹ دوسری شعبے سے پوری کی جائے۔ انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا اور اگلی حکومت کے ہاتھ باندھ دیے ہیں۔ ان تحائف کو واپس لینا آسان نہیں ہوگا۔”
وقار مسعود، جو کہ اسحاق ڈار کے ماتحت سابق سیکریٹری خزانہ اور پورے سال کا بجٹ پیش کرنے کے مخالف رہ چکے ہیں، ناخوش تھے۔ “یہ مالیاتی پالیسیوں سے مکمل انحراف ہے۔ ایف بی آر اب بہت پریشان ہوگا۔ ہم نے دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ بونس شیئرز اور شیئرز پر منافع (ڈیویڈینڈز) پر ٹیکس بڑھانے کے لیے محنت کی اور انہوں نے اسے پوری طرح اٹھا کر پھینک دیا ہے۔ یہ بجٹ موجودہ اقتصادی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔”
مگر وزیرِ خزانہ زور دیتے ہیں کہ بجٹ محتاط، اور نتیجتاً حقیقت سے قریب تر ہے۔ “ہم نے ایف بی آر کے محصولات میں 11 فیصد اضافے کا اندازہ لگایا ہے جو کہ جی ڈی پی کی معمولی ترقی سے کم ہے۔ ماضی کے برعکس، جب پینشنز اور تنخواہوں میں اضافے کا تخمینہ بجٹ میں نہیں رکھا جاتا تھا، میں نے تمام اضافوں کا اندازہ لگایا ہے اور اسے بجٹ میں شامل کیا ہے۔ ہمارے مکمل اخراجات جی ڈی پی کی 21.5 فیصد سے کم ہو کر 21.2 فیصد ہوں گے۔”
“روپے کی قدر میں حالیہ کمی اور برآمدی پیکج کے بعد ہماری برآمدات میں مثبت اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ مارچ میں ہماری برآمدات میں 24 فیصد اضافہ ہوا جبکہ درآمدات میں صرف 6 فیصد۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ رجحان کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو سنبھال لے گا۔”
مگر اسحاق ڈار کو ناراض کرنے اور نواز شریف کو شرمندہ کرنے سے بچنے کے لیے کئی لیگی ارکان نے پسِ پردہ رہ کر بات کرتے ہوئے تازہ ترین بجٹ میں پارٹی کی مشکلات کا ذمہ دار اسحاق ڈار کی پالیسیوں کو ٹھہرایا۔ ایک سینیئر لیگی رہنما کا کہنا تھا “ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ بجٹ نہایت غیر ذمہ دارانہ ہے، یہ اس سے کہیں بہتر ہو سکتا تھا۔ ہم اس حٓل تک اس لیے پہنچے کیوں کہ ڈار روپے کی قدر میں کمی نہیں چاہتے تھے۔ برآمدات میں اضافہ تو ہو رہا ہے مگر ادائیگیوں کا توازن مستحکم ہونے میں وقت لگے گا۔”
نگراں حکومت کے دور میں کسی مالیاتی جھٹکے کی توقع نہیں ہے، پر کیلنڈر سال کے اختتام تک معلوم ہوجائے گا کہ بجٹ میں پیش کیے گئے اندازے ہدف سے دور ہیں، یا پھر بیرونی کھاتوں کا خسارہ کم یا واپس ہوا ہے یا نہیں۔
نوید قمر کہتے ہیں کہ “کسی بھی حکومت کے لیے کوئی اچھے آپشن نہیں۔ اگر اچانک کوئی نیا غیر ملکی مددگار، مثلاً چین یا سعودی عرب ہاتھ نہیں بڑھاتا، تو زیادہ کچھ نہیں کیا جا سکتا”، یعنی کہ آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا ہی پڑے گا۔
ریٹائرڈ بیوروکریٹ وقار مسعود بھی ناامید ہیں۔ “آئی ایم ایف ممکنہ طور پر بجٹ خسارے کو (جی ڈی پی کے) 4 سے 4.5 فیصد تک رکھنے کے لیے کہے گا اور حکومت پہلے ہی اس سے زیادہ کا خسارہ تجویز کر چکی ہے۔ بعد میں کی جانے والی ایڈجسٹمنٹ کے لیے بہت سخت اقدامات کی ضرورت ہوگی۔”
مگر وزیرِ خزانہ کو یقین ہے کہ ان کے اعداد و شمار اور اندازے ٹھیک ثابت ہوں گے۔ “مجھے پورا یقین ہے کہ یہ بجٹ مستحکم ہے اور کسی منی بجٹ کی ضرورت نہیں ہوگی۔” اگلے چند ماہ میں کانٹے کے انتخابی معرکے کے بعد معلوم ہوجائے گا کہ آیا مفتاح اسمٰعیل درست ہیں یا ان کے ناقدین۔
فرانسس برنیئر 1658ء میں ہندوستان آیا اور 1670ء تک یہاں رہا۔ یہ شاہ جہاں کا آخری زمانہ تھا۔ فرانس کا رہنے والا برنیئر طبی ماہر تھا۔ یہ مختلف امرا اور شاہی خاندان تک رسائی حاصل کرنے میں کام یاب ہو گیا اور یوں اسے مغل دربار، شاہی خاندان، مغل شہزادوں اور شہزادیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ برنیئر نے شاہ جہاں کو اپنی نظروں کے سامنے بے اختیار ہوتے اور اورنگ زیب کے ہاتھوں قید ہوتے دیکھا۔اس نے اورنگ زیب عالم گیر کی اپنے تینوں بھائیوں دارا شکوہ، سلطان شجاع اور مراد بخش سے جنگیں بھی دیکھیں اور بادشاہ کے ہاتھوں بھائیوں اور ان کے خاندانوں کو قتل ہوتے بھی دیکھا۔ اس نے دارا شکوہ کوگرفتار ہو کر آگرہ آتے اور بھائی کے سامنے پیش ہوتے بھی دیکھا۔ اسے اورنگ زیب عالمگیر کے ساتھ لاہور، بھمبر اور کشمیر کی سیاحت کا موقع بھی ملا۔ فرانسس برنیئر نے اپنے وطن واپس جاکر ہندوستان کا سفر نامہ تحریر کیا۔ یہ سفر نامہ 1671ء میں پیرس سے شایع ہوا۔فرانسس برنیئر نے ہندوستان کے بارے میں لکھاکہ ہندوستان میں مڈل کلاس طبقہ سرے سے موجود نہیں، ملک میں امرا ہیں یا پھر انتہائی غریب لوگ، امرا محلوں میں رہتے ہیں، ان کے گھروں میں باغ بھی ہیں، فوارے بھی، سواریاں بھی اور درجن درجن نوکر چاکر بھی۔ جب کہ غریب جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور ان کے پاس ایک وقت کا کھانا تک نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں خوشامد کا دور دورہ ہے، بادشاہ سلامت، وزرا، گورنرز اور سرکاری اہل کار دو دو گھنٹے خوشامد کراتے ہیں، دربار میں روزانہ سلام کا سلسلہ چلتا ہے اور گھنٹوں جاری رہتا ہے۔
لوگوں کو خوشامد کی اس قدر عادت پڑ چکی ہے کہ یہ میرے پاس علاج کے لیے آتے ہیں تو مجھے سقراط دوراں، بقراط اور آج کا بو علی سینا قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد نبض کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں۔ بازار بے ترتیب اور گندے ہیں۔ شہروں میں حلوائیوں کی دکانوں کی بہتات ہے، مگر آپ کو دکانوں پر گندگی، مکھیاں، مچھر، بلیاں اور کتے دکھائی دیتے ہیں۔ہندوستان کی مٹی زرخیز ہے لیکن زراعت کے طریقے قدیم اور فرسودہ ہیں چناں چہ کسان پوری پیداوار حاصل نہیں کر پاتے، ہندوستان کی زیادہ تر زمینیں بنجر پڑی ہیں، لوگ نہروں اور نالیوں کی مرمت نہیں کرتے، چھوٹے کسان یہ سمجھتے ہیں اس سے جاگیرداروں کو فائدہ ہو گا اور جاگیردار سوچتے ہیں بھل صفائی پر پیسے ہمارے لگیں گے، مگر فائدہ چھوٹے کسان اٹھائیں گے۔ لہٰذا یوں پانی ضایع ہو جاتا ہے۔فرانسیس برنیئر نے ہندوستان کے لوگوں کے بارے میں لکھا، یہ کاری گر ہیں لیکن کاری گری کو صنعت کا درجہ نہیں دے پاتے، لہٰذا فن کار ہونے کے باوجود بھوکے مرتے ہیں۔ یہ فن کاری کو کارخانے کی شکل دے لیں تو خوش حال ہو جائیں اور دوسرے لوگوں کی مالی ضروریات بھی پوری ہو جائیں، ہندوستان کے لوگ روپے کو کاروبار میں نہیں لگاتے، یہ رقم چھپا کر رکھتے ہیں، عوام زیورات کے خبط میں مبتلا ہیں، لوگ بھوکے مر جائیں گے لیکن اپنی عورتوں کو زیورات ضرور پہنائیں گے۔یہ لوگ گھر بہت فضول بناتے ہیں۔ ان کے گھر گرمیوں میں گرمی اور حبس سے دوزخ بن جاتے ہیں اور سردیوں میں سردی سے برف کے غار، بادشاہ اور امرا سیر کے لیے نکلتے ہیں تو چھے چھے ہزار مزدور ان کا سامان اٹھاتے ہیں۔ ہندوستان کی اشرافیہ طوائفوں کی بہت دلدادہ ہے، ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں طوائفوں کے کوٹھے ہیں اور امرا اپنی دولت کا بڑا حصہ ان پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ وزرا صبح اور شام دو مرتبہ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں، بادشاہ کے حضور حاضری نہ دینے والے وزرا عہدے سے فارغ کر دیے جاتے ہیں۔
اللہ تعالی نے اپنے بہت سے بندوں کو ہدایت اور توفیق بخشی کہ وہ ظاہری اور باطنی علوم حاصل کریں،روشن سینے کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کریں اور تفویض کردہ خطوں میں ظلم و جبر کے نظام کو زمیں بوس کر دیں۔ تین عظیم شخصیتیں، جو مختصر عرصے کے فرق سے اس دنیا میں ظہور ہوئیں، خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ، سید محمد عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندرؒ اور بہائو الدین زکریاؒ ہیں۔ ان کی آمد کے بعد ظلم و کفر کی آگ سرد ہو گئی اور انہیں کئی معاملات پر ایک جیسی جدوجہد،مراحل اور واقعات سے گزرنا پڑا۔ حضرت شہباز قلندرؒ جن کا اصل نام محمد عثمان تھا ، اکثریتی تحقیق و اتفاق رائے کے مطابق538ھ میں تبریز کے نزدیک ایک مقام مروند میں پیدا ہوئے۔ اس خوبصورت مقام پر وہ خوبصورت شخصیت پیدا ہوئی جس کے ماننے والوں میں مسلمان کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل ہیںاور یہ سب حضرت سخی لعل شہباز قلندرؒ کے ساتھ اپنی نسبت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ آپؒ بچپن سے انتہائی ذہین اور روشن دماغ تھے۔ آپؒ ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے، اس لئے اپنے شہر مروند میں ہی مقیم رہے۔ہر کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے ۔مروند سے سید عثمان مروندیؒ کی روانگی یوں ہوئی کہ جب آپؒ اٹھارہ برس کے ہوئے ، تو والد محترم سیدابراہیم کبیر الدینؒ انتقال فرما گئے۔ حضرت محمد عثمان مروندیؒ کے مرشدحضرت شاہ جمالؒ تھے۔ جو اپنے وقت کے بہت بڑے بزرگ اور درویش تھے۔ حضرت لعل شہبازقلندرؒ نے مرشدکی بیعت میںدرویشی کے نئے اسرارو رموز تک رسائی حاصل کی۔حجاب کے پردے اٹھتے گئے اور عشق حقیقی کے راستے پر سفر طے ہونے لگا۔آپؒ نے مرشد کی خدمت کی اور اس کے عوض ان کی محبت اور لازوال تحائف حاصل کئے۔ مرشد نے حضرت سخی لعل شہباز قلندرؒ کو گلو بند عنایت کیا ۔حضرت سخی لعل شہباز قلندرؒ اس گلوبندکو بہت عزیزرکھتے تھے، انہیں اس گلو بندمیں اپنی عالی مرتبت مرشد کی تصویر نظر آتی تھی۔یہ گلوبند درگاہ حضرت سخی لعل شہباز قلندرؒ میں موجود ہے اور سالانہ عرس کے موقع پر لوگ اس کی زیارت کرتے ہیں اس کے علاوہ خرقۂ خلافت اور ایک عصا عنایت ہوا جو بادام کی لکڑی سے بنایا گیا تھا۔روایت کے مطابق حضرت امام زین العابدینؒ یہ عصا اپنے دست مبارک میںرکھتے تھے۔ بیعت ہونے کے بعد حضرت سخی لعل شہباز قلندرؒ نے اپنی ریاضت کا نیاسلسلہ شروع کیا۔ اس دوران بہت سے بزرگان دین سے ملاقاتیںکیں اور فیوض و برکات کی دولت تقسیم کرتے مکہ معظمہ پہنچے، وہاں حج کا فریضہ ادا کیا اور مدینہ منورہ چلے گئے۔رحمت اللعالمینؐ کے روضہ اقدس پر حاضری دی۔دل و جان کو رحمت سے فراز کیا۔ کہا جاتا ہے کہ آپؒ کے مرشدنے آپؒ کو ر اہ دکھائی اور ہدایت کی کہ آپؒ ہندوستان چلے جائیں۔ آپؒ نے ملتان میں قیام کیا اور بالاآخر سیوستان میں مستقل طور پرٹھہر گئے کہ یہی جگہ آپؒ کا آخری مقام قرار دی گئی۔ حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی آمد سے بہت پہلے ان کے ایک مرید نے وہاں ٹھکانہ بنا لیا۔ اس کانام بودلے سکندربیان کیا جاتا ہے۔ آپؒ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہاں آئے۔سیہون شریف ریلوے اسٹیشن کے قریب ’’ لال باغ ‘‘ ہے جس کا نام مرشد کامل کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔ ۔ یہاں شہباز قلندر ؒ نے چلہ کشی کی تھی۔سیہون ریلوے اسٹیشن کے جنوب میں ایک پہاڑ کے اندر ایک غار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس غار میں لعل شہباز قلندرؒ نے چلہ کشی کی تھی ۔ آ پؒ یہاں عبادت بھی کرتے تھے۔ دھمال دراصل ایک سر ، ایک لے کا نام ہے جس کا اظہار دھل یا نقارہ پر ضرب لگا کر کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آواز سے فقیر ، درویش وجد کی کیفیت میں داخل ہو جاتے ہیں اور ایک حلقہ بنا کر رقص کرتے ہیں۔یہ طریق حضرت مولانا رومی ؒ کے مریدوں کے محفل سماع سے ملتا جلتا ہے وہاں سماع کے وقت لوگ دف بجایا کرتے تھے ، تب کچھ لوگ کھڑے ہو جاتے اور آہستہ آہستہ رقص کی کیفیت میں آجاتے ۔ عرس اور میلے کے دنوں میں پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں ۔ وہاں وہ صرف لعل شہباز قلندر ؒ کے دیوانے ہوتے ہیں ، مختلف علم ( جھنڈے ) اٹھائے قافلے جوق در جوق آتے ہیں ۔ سخی شہباز قلندرؒ کا وصال شعبان کے مہینے میں ہوا ۔ اور ہر سال اسی مہینے میں آپؒ کا عرس منایا جاتا ہے جس میں دوردراز کے علاقوں سے بلا تمیز مذہب ، ذات ، رنگ و نسل لوگ شریک ہوتے ہیں۔
بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ جوانی کی زندگی مزے اور لاپروائی کی ہوتی ہے اور نوجوانوں کو کسی بھی طرح کے مسائل اور پریشانیاں نہیں ہوتیں۔ یہ سچ نہیں۔ آج کل کے نوجوان بہت زیادہ ذہنی دبائوکا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ تناؤ، پریشانی اور ڈپریشن کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں اور بعض اوقات خودکشی بھی کر لیتے ہیں۔ جو نوجوان تناؤ ، پریشانی اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں مندرجہ ذیل علامات نمایاں طور پر نظر آتی ہیں: وہ ہر وقت دکھی رہتے ہیں اوران کا کسی بھی چیز میں دل نہیں لگتا۔ وہ بے چینی محسوس کرتے ہیں، چھوٹی اور غیر ضروری باتیں ان کو غصہ دلاتی ہیں۔ وہ لوگوں میں رہ کر بھی خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی جان کی پروا کرنا چھوڑ سکتے ہیں اور شدید مایوسی کی کیفیت میں خودکشی کے خیالات ان کے ذہن میں آنے لگتے ہیں۔ ان میں سے چند خودکشی کر لیتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ایسا سوچنے اور محسوس کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ یہ جسمانی، نفسیاتی اور سماجی ہو سکتی ہیں اوران عوامل کا مجموعہ بھی ہوسکتی ہیں: ۱) وراثت ان میں سب سے پہلی وجہ ہو سکتی ہے۔ اگر خاندان میں کسی نے بھی گزشتہ زندگی میں ڈپریشن کا سامنا کیا ہے، تو امکانات ہیں کہ آنے والی نسلوں میں بھی اس کے اثرات منتقل ہوں۔ ۲) غذائیت کی کمی بھی ذہنی امراض بشمول ڈپریشن کی وجہ بنتی ہے۔۳) شدید جسمانی مرض جیسے ہائی بلڈپریشر، ذیابیطس، کینسر اور پارکنسن وغیرہ سبب ہو سکتے ہیں۔ ۴) کسی بھی قسم کی زیادتی یا بدسلوکی ان کیفیات کو پیدا کر سکتی ہے جن کا نتیجہ ڈپریشن کی صورت میں نکلے۔ ۵) مختلف طرح کے مسائل، جیسا کہ مالی وسائل کی کمی، اقلیت ہونے کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا، گھر یلو مشکلات ، توقعات پر پورا اترنے میں ناکامی یاسیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ۶ ) زندگی میں کوئی اچانک آنے والی تبدیلی، جیسے ملازمت کا چلا جانا یا کسی قریبی ساتھی سے علیحدگی۔ ۷) تعلیمی دبائو۔ آج کل کے نوجوانوں کے سامنے جو مشکلات ہیں ان میں سے بہت سارے ان سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ انہیں دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈپریشن ایک ایسا مرض ہیں جو پوری دنیا میں ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کی روز مرہ کے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ 15 سے 29 سال کی عمر کے افراد میں ڈپریشن، موت کا دوسرا اہم سبب ہے۔ اکثر ڈپریشن کی تشخیص نہیں ہوتی کیونکہ اس کو بیماری نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان میں سالانہ ہزاروں افراد اپنی جان لے لیتے ہیں۔ خودکشی کی بڑی وجہ ڈپریشن ہے جو خودکشی کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ڈپر یشن سے لڑنے اور خودکشی سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں سے بات کریں، ان کی مشکلات کو سمجھیں اور ان کو یقین دلائیں کہ ان کی ہر مشکل میں وہ ان کے ساتھ ہیں۔ اگر ڈپریشن کی علامات بہت زیادہ ہوں تو ان کا علاج جلد سے جلد شروع کروائیں۔ اس میں کسی قسم کی شرم یا ہچکچاہٹ محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔ نوجوانوں کو اپنی ذات سے ہمدردی کی تعلیم دینی چاہیے، یعنی خود سے محبت کرنا سکھانا چاہیے ۔ خود سے ہمدردی کو بنیاد بنا کر انسان تین اہم باتیں سیکھ سکتا ہے، احساس، انسانیت اور محبت۔ یوں اپنی جان لینے کے خیالات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے درجنوں ارکان نے ٹارگٹ کلنگ کے خلاف کئی روز سے جو دھرنا دے ر کھا تھا‘ اسے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی اس یقین دہانی کے بعد کہ آئندہ ہزارہ برادری کے ارکان کا مکمل تحفظ کیا جائے گا اور ٹارگٹ کلنگ کے جرم میں ملوث افراد کو سخت ترین سزائیں دی جائیں گی، ختم کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کوئٹہ پہنچے تھے اور دھرنے کے شرکا سے بات چیت کے ذریعے اسے ختم کروانے کی کوشش کی تھی‘ لیکن دھرنے میں شریک ہزارہ برادری نے احسن اقبال کی یقین دہانیوں کو مسترد کرتے ہوئے دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا اصرار تھا کہ آرمی چیف دھرنے میں آئیں اور شرکا کو ہزارہ برادری کے تحفظ کا یقین دلائیں‘ صرف اسی صورت میں دھرنا ختم ہو گا۔ آرمی چیف خود تو دھرنے میں تشریف نہیں لائے البتہ انہوں نے ہزارہ برادری کے عمائدین سے ملاقات کرکے تحفظ کا یقین دلایا۔ اس میٹنگ میں‘ جس کی صدارت آرمی چیف کر رہے تھے، بلوچستان کے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اور صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال بھی موجود تھے۔ ہزارہ برادری کے ارکان نے دھرنا صوبائی اسمبلی کے سامنے دے رکھا تھا‘ جبکہ کوئٹہ پریس کلب کے باہر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن اور رکن بلوچستان بار کونسل جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے احتجاجاً ہڑتال کر رکھی تھی۔ دھرنا ختم کرنے کے ساتھ ہی جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے اپنی بھوک ہڑتال بھی ختم کر دی۔
عوام کے جان و مال کی حفاظت کسی بھی ریاست کی بنیادی اور سب سے اہم ذمہ داری ہے اور ریاست پاکستان نے آئین کے مطابق یہ ذمہ داری صوبائی حکومتوں کو سونپ رکھی ہے۔ اس لئے بلوچستان میں اگر لاکھوں افراد پر مشتمل ہزارہ برادری کے ارکان کی نہ جان محفوظ ہے اور نہ مال تو اس کی باز پرس سب سے پہلے صوبائی حکومت یا حکومتوں سے ہونی چاہئے کہ وہ اس وقت اس اہم آئینی ذمہ داری کو پورا کرنے میں کیوں ناکام رہیں؟ لیکن اس ضمن میں وفاقی حکومت کو بھی بری الذمہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ صوبائی پولیس کے سربراہ نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ بلوچستان کے 34 میں سے 80 فیصد اضلاع، ضلعی پولیس آفیسر سے خالی ہیں۔ یہی حال اس سے اوپر کی سطح کے پولیس افسروں یعنی ڈی آئی جیز کا ہے، جہاں آدھی سے زیادہ آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ آئی جی پولیس کے مطابق ان آسامیوں کو پُر کرنے کیلئے صوبائی حکومت کی جانب سے وفاقی حکومت کو بارہا درخواست کی گئی‘ مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد امن و امان بحال کرنے کی تمام تر ذمہ داری صوبائی حکومتوں پر ڈال دی گئی ہے لیکن اس ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے صوبوں کو ضروری وسائل اور استعداد مہیا نہیں کی گئی۔ بلوچستان میں پولیس کی زبوں حالی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن صوبے میں قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی فورسز مثلاً ایف سی بھی تو موجود ہے اور ان کی موجودگی کافی بھاری ہے۔ جا بجا چیک پوسٹوں پر ان کی موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبے میں امن و امان کے قیام کی ذمہ داری ایف سی نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ تقریباً نصف دہائی سے ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے، حالانکہ اس کے پیچھے کارفرما ہاتھ کی کئی مرتبہ نشاندہی کی جا چکی ہے لیکن نہ صرف ہر صوبائی حکومت بلکہ وفاقی حکومت بھی‘ اس جانب کوئی موثر اقدام کرنے میں ناکام رہی ہیں اور حالات یہ ہیں کہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے گھر سے باہر کہیں بھی محفوظ نہیں۔ اس برادری سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو نشانہ بنایا گیا۔ اپنی دکانوں پر بیٹھے افراد کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کو جانے والی طالبات اور طلبا پر حملے کئے گئے۔ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے پروفیشنلز کو دن دیہاڑے قتل کیا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب میاں ثاقب نثار نے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے بالکل درست فرمایا کہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے گھر سے باہر نکلنا محال ہو گیا ہے، ان کے بچے سکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں داخلہ نہیں لے سکتے، ان کیلئے کاروبار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ انہوں نے بجا طور پر سوال اٹھایا کہ کیا وہ اس ملک کے شہری نہیں؟ کیا انہیں جان و مال کے تحفظ کا حق نہیں؟ عدالتِ عظمیٰ نے حکومت اور حکومت کے زیر کنٹرول امن و امان اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے تمام ذمہ داروں کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ امید ہے کہ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر بحث آئے گا تو اس میں بہیمانہ قتل عام کے ذمہ دار چہروں پر سے نقاب ہٹائے جائیں گے۔ اس وقت چونکہ اس معاملے کو از خود نوٹس لے کر سپریم کورٹ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے‘ اس لئے اس کے ممنکہ محرکات اور ملوث ہونے والے عناصر کے بارے میں کچھ کہنا مناسب نہ ہو گا لیکن قومی سلامتی اور ملک کے مستقبل کے حوالے سے چند پہلوئوں کی طرف اشارہ کرنا مفید ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس کو محض لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ اس کی تہہ میں پہنچ کر اس کے حقیقی محرکات کی کھوج لگا کر اصل مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے۔ بلوچستان میں فرقہ وارانہ فساد، انتہا پسندی اور دہشتگردی کو پروان چڑھانے والے عناصر کون ہیں؟ اس کی بہت حد تک نشاندہی سپریم کورٹ کے ایک سابق فاضل جج جناب جسٹس قاضی فیض عیسیٰ اپنی رپورٹ میں کر چکے ہیں۔ جسٹس فیض عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں صورتحال پر قابو پانے کیلئے چند سفارشات بھی پیش کی تھیں لیکن کیا ان سفارشات پر عمل درآمد ہوا؟ صاف ظاہر ہے کہ نہ صرف صوبائی بلکہ وفاقی حکومت بھی اس سلسلے میں مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوئی۔ صوبائی پولیس کے سربراہ نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ، دہشتگردی کے دیگر واقعات کی وجہ یہ ہے کہ شہر افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحد کے قریب ہے جسے بآسانی عبور کرکے دہشتگرد بلوچستان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کے دیگر واقعات کی ذمہ داری بیرونی عناصر پر ڈال دی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان اپنی مخصوص جغرافیائی پوزیشن اور خاص طور پر سی پیک کی وجہ سے ان بیرونی قوتوں کی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے جو پاکستان کو ترقی، خوشحالی اور امن کی راہ پر گامزن نہیں دیکھنا چاہتیں لیکن بلوچستان میں دہشتگردی اور خصوصاً ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ میں اندرونی عناصر کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا‘ بلکہ بعض حلقوں کے نزدیک انتہاپسندی اور فرقہ واریت کا پرچار کرنے والے عناصر سب سے بڑے مجرم ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان عناصر کو معاشرے میں نفرت اور عدم برداشت پھیلانے کیلئے تقریروں، جلسوں اور جلوسوں کی صورت میں اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھنے کی کھلی چھٹی ہے حالانکہ چار سال قبل شروع کئے گئے نیشنل ایکشن پلان میں ان عناصر کی سرگرمیوں کو دبانے پر خاص طور پر زور دیا گیا تھا۔ مگر نہ تو قومی اور نہ صوبائی سطح پر نیشنل ایکشن پلان ہمیں نظر آتا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہماری کائونٹر ٹیررازم حکمت عملی ڈی ریل ہو چکی ہے۔ پورے صوبے میں چیک پوسٹوں کا جال دہشتگردوں کی نقل و حرکت کو روکنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس نے اس چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے اہم کامیابیاں حاصل کیں؛ تاہم ہزارہ برادری کے ارکان کے قتل کا نہ رکنے والا سلسلہ بھیانک صورت میں جاری ہے۔ اعداد و شمار کے چکر میں ڈال کر اس جرم پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ ناانصافی اور ظلم کی بازگشت اب ملک سے باہر حلقوں میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ قوم کا اپنی حکومت اور اس کے اداروں پر اعتماد بھی متزلزل ہوتا ہے جو کسی بھی لحاظ سے قومی سلامتی، اتحاد اور یکجہتی کیلئے سود مند نہیں۔ اس لئے یہ خوش آئند بات ہے کہ آرمی چیف نے ہزارہ برادری کے وفد کو آئندہ اس قسم کے واقعات کو سختی سے روکنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور سپریم کورٹ نے اس کا از خود نوٹس لے کر حکومت اور اس کے اداروں سے جواب طلبی کی ہے۔ امید ہے کہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ہمارے بھائی آنے والے دنوں میں محفوظ زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
میاں بیوی میں کسی نکتے پر لڑائی ہو جایا کرتی ہے۔ لڑائی کا مطلب یہ نہیں کہ دونوں میں سے کسی ایک نے غلط انسان سے تعلق جوڑ لیا ہے یا یہ رشتہ اب مزید نہیں چل سکتا۔ طویل المدت اور انتہائی قریبی تعلقات میں تنازعات کا پیدا ہونا حیرت کی بات نہیں ہوتی۔ تاہم لڑائی کی نوعیت اور شدت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ازدواجی تعلق کس قدراطمینان بخش ہے۔زیادہ تر جوڑے یہی کوشش کرتے ہیں کہ کم سے کم تکرار ہو، چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا نہ ہو اور شامیں سہانی گزریں۔ لیکن پھر آخر لڑائیاں ہوتی کیوں ہیں؟ اس حساس سوال پر بلجیم میں حال ہی میں دو تحقیقات ہوئی ہیں۔ ان کے نتائج جواب تلاش کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک تحقیق کا محور وہ ضروریات تھیں جو پوری نہ ہونے سے میاں بیوی کے درمیان تنازعات جنم لیتے ہیں۔ یہ کام گائل وانہی اور ان کے ساتھیوں نے کیا۔محققین کو معلوم ہوا کہ مذکورہ انسانی تعلق میں جب مندرجہ ذیل ضروریات پوری نہیں ہوتیں تو جوڑے زیادہ لڑتے ہیں۔وابستگی: زندگی میں جن افراد کو اہم گردانا جاتا ہے ان سے مضبوط تعلق ایک ضرورت ہوتا ہے۔ کسی سے اظہارِ وابستگی (اٹیچمنٹ) کیسے کرنا ہے، یہ کافی حد تک ہم بچپن میں سیکھ لیتے ہیں۔ کسی سے مناسب انداز میں وابستگی کو ظاہر کرنا مضبوط اور طویل المدت تعلق قائم کرنے میں انتہائی معاون ہوتا ہے۔ جس تعلق میں وابستگی کا عنصر شامل ہو وہ زیادہ تسلی بخش، قریبی اور گہرا ہوتا ہے اور اس کے خاتمے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔قبولیت: جب یہ احساس ہوتا ہے کہ دوسرے فرد میں قبولیت کا جذبہ موجود ہے تو تعلقات اچھے ہونے لگتے ہیں۔ قبولیت کا مطلب دوسرے کی سب باتوں کو مان لینا نہیں۔ ہم کسی فرد کے کچھ فیصلوں یا اس کے کسی انتخاب سے اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن ساتھ ہی ہم اس کا بھرم رکھتے ہیں اور بیشتر کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ ازدواجی زندگی میں قبولیت بہت اہم ہوتی ہے۔ یعنی بہت سی صورتوں میں اپنے جیون ساتھی سے اختلاف کے باوجود اس کی بات کو تسلیم کرنا ہوتا ہے۔توجہ: محض اختلاف کو قبول کرنا کافی نہیں ہوتا، جیون ساتھی یہ بھی چاہتا ہے کہ دوسرا اسے پسند کرے۔ جیون ساتھی رشتے کی حدت کو پانا چاہتا ہے۔ صرف یہ کہنے سے بات نہیں بنتی کہ میں تمہاری بیشتر خامیوں کو قبول کرتا ہوں۔خود مختاری: انسان کی ایک اہم ضرورت اپنے اعمال کے فیصلے خود کرنے کا اختیار ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جو ہم کرنا چاہتے ہیں وہ کر سکیں۔ مذکورہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سب سے زیادہ عدم اطمینان ان جوڑوں میں پایا جاتا ہے جن میں دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی خودمختاری کو کم کرتا ہے۔قابلیت: یہ احساس ہونا چاہیے کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ اچھی طرح کرتے ہیں۔ اس طرح ہم خود کو قابل سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک کسی شعبے میں مسابقت میں پیچھے ہو تو یہ تعلق میں عدم توازن اور بالآخر کشیدگی کی وجہ بنتا ہے۔ اگر شریک حیات میں سے کوئی دوسرے کو نالائق سمجھتا ہے تو تعلقات میں بگاڑ آ سکتا ہے۔ اگر جوڑوں میں یہ مندرجہ بالا ضروریات پوری نہ ہوں تو منفی احساسات جنم لیتے ہیں۔ اس سے تنازعات کو بڑھاوا ملتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی پر سخت تنقید کرنے یا رد کرنے سے دوسرے کو لگتا ہے کہ اسے قبول نہیں کیا جا رہا۔ اس سے شرمندگی اور اداسی پیدا ہو سکتی ہے۔ ان احساسات کا اظہار زیادہ تر براہ راست نہیں ہوتا اور پھر یہ غصے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ تب اس سے منفی گفتگو شروع ہو جاتی ہے جس سے تنازع بڑھ جاتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ شریک حیات کی ان ضروریات کو کیسے پورا کیا جائے۔ اس کی ابتدا یوں کی جا سکتی ہے کہ شریک حیات ہی سے پوچھ لیا جائے۔ ہو سکتا ہے اس نے اس بارے میں سوچا نہ ہو لیکن کم ازکم اسے یہ پیغا م ضرور ملے گا کہ اس کے بارے میں فکر کی جارہی ہے۔ اپنی ضروریات پر بھی غور کریں اور اس بات پر کہ تعلق میں کون سا عنصر غائب ہے۔ پھر ان پر مثبت انداز میں باہمی گفتگو کریں۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادۂ معظم محمد بن سلمان نے کچھ دنوں پہلے فرمان جاری کیا تھا: ’’فلسطینی صدر ٹرمپ کی امن سے متعلق تجاویز قبول کریں یا اپنا منہہ بند رکھیں‘‘ مگر یہ فلسطینی بڑے ہی گستاخ ہیں، ویسے بھی پیغمبروں کی بستی کے مکین شاہوں کو خاطر میں کہاں لائیں گے، انھوں نے ٹرمپ کی تجاویز کے ساتھ سعودی شاہ زادے کا حکم بھی جوتے کی نوک پر رکھا اور مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کے خلاف سڑکوں پر سینہ سپر ہوگئے۔ سو اب ان کے سینے سیدھی چلائی جانے والی گولیوں سے چھلنی ہورہے ہیں، جسموں سے لُہو پھوٹ رہا ہے، جان سے جارہے ہیں یا لاشیں اُٹھا رہے ہیں، لیکن شہر مقدس کو امریکی داشتہ صہیونیت کا کوٹھا بننے سے روکنے کے لیے برسر پیکار ہیں۔
پیر کو مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کی صہیونی خواہش اور امریکی ہٹ دھرمی نے امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی کے بعد عملی صورت اختیار کی تو عالم اسلام سمیت پوری دنیا پر سکوت طاری رہا، لیکن فلسطینی احتجاج کرتے گھروں سے نکل آئے۔ قابض اسرائیلی فوج نے فلسطینی مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کر کے 55 افراد کو شہید کردیا، جب کہ 2700 سے زائد زخمی کردیے گئے۔
احتجاج اور مظاہرین پر گولیاں برسانے کا یہ خون میں ڈوبا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی فوج نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا۔ ان کی گولیوں کی زد میں آکر زخمی ہونے والوں میں بچے، خواتین اور صحافی بھی شامل ہیں۔ اس ظلم، خوف ناک تشدد اور وحشیانہ سلوک کے باوجود فلسطینی احتجاج کرتے رہے۔
فلسطینیوں پر صہیونی ریاست کے تشدد کا سلسلہ اس سال مارچ سے جاری اور لاتعداد فلسطینیوں کی جانیں لے چکا ہے۔ رواں سال 30 مارچ کو فلسطین کے یوم الارض کے موقع پر فلسطینیوں نے اپنے گھروں کی واپسی کے عنوان سے اسرائیل کی سرحدی باڑ پار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے لیے ہزاروں فلسطینی اسرائیلی سرحد پر پہنچ گئے تھے، جہاں مظاہرین پر اسرائیلی فوج نے براہ راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 40 روز میں صحافی سمیت 60 سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے تھے۔
پیر کو امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے اعلان کے فوری بعد فلسطینی سڑکوں پر جمع ہوگئے اور اسرائیلی فوج اور امریکا کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے بیت المقدس کی جانب بڑھتے رہے۔ مظاہرین نے ٹائر جلا کر اپنے احتجاج ریکارڈ کرایا جس پر اسرائیلی فوج نے مظاہرین کو براہ راست گولیوں کا نشانہ بنایا۔
جب آپ اپنے گھر میں سکون سے بیٹھے شاید چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، اس وقت بھی فلسطینی نوجوان، بوڑھے، عورتیں اور بچے جان ہتھیلی پر رکھے سراپا احتجاج ہوں گے اور اسرائیلی فوجیوں کی گولیاں کسی فلسطینی کے حلقوم، سینے اور سر میں چھید کرکے شیطانی ریاست کے لیے خون کا خراج وصول کررہی ہوں گی۔
ایک جنگ، مسلسل جنگ، جو ستّر سال سے جاری ہے، ایک دن کے لیے بھی نہیں رُکی۔۔۔۔۔ یہ کیسی جنگ ہے۔۔۔ ایک طرف جوہری طاقت کے جدید ترین اسلحے سے لیس فوجی، بندوقیں، ٹینک، میزائل، طیارے۔۔۔۔ اور دوسری طرف ہاتھوں میں پتھر اور غلیلیں، گولیاں روکنے کے لیے جرأت سے لبریز سینے، بندوقوں کی دھاڑ کے جواب میں نعروں کی للکار۔۔۔۔ ایک فریق کا سرپرست اور مربی عالمی وڈیرا امریکا، روس سمیت یورپ کی طاقتیں اس کے مظالم اور کالے کرتوتوں پر چُپ سادھے یا پوری منافقت کے ساتھ کم زور سا احتجاج کرکے اُس کی خاموش حلیف، چین اُس کی سفاکیوں اور استحصال پر منہہ کان اور آنکھیں بند کیے۔
اُمت مسلمہ کا ایک ٹھیکے دار سعودی عرب مکر کی نقاب سرکا کر اُسے تسلیم کرنے کو تیار، ملت اسلامیہ کی امامت کا دعوے دار ایران ریاکاری کا ہنر آزماتے ہوئے بس لفظوں کے گولے برسا کر اور یوم القدس منا کر اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ، عالم اسلام کی قیادت کا خواب آنکھوں میں سجائے تُرکی کا کردار اُس کی زبانی کلامی مخالفت تک محدود، باقی کی مسلم دنیا اور دیگر ممالک خاموش تماشائی۔۔۔۔ اور دوسری طرف تنہا اور نہتے فلسطینی اپنی بقاء کی جنگ اور مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام کو صیہونیت کا سیاسی مرکز بنانے سے بچانے کے لیے اکیلے مصروفِ جنگ۔
کتنے مایوس کُن حالات ہیں، زمین سے آسمان تک مکمل اندھیرا، اُمید کی کوئی ٹمٹماتی کرن بھی نہیں، آس کے ایک کے بعد ایک بجھتے دیپ، مگر یہ فلسطینی نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں کہ مایوس ہوتے ہی نہیں۔ عشروں سے لڑ رہے ہیں، اپنی دھرتی اپنے جسموں سے بھر رہے ہیں، ننھے ننھے بچوں کی لاشیں دفناتے ہیں، اور ابھی ناخنوں سے چھوٹی سی قبر کی مٹی دُھل بھی نہیں پاتی کہ پھر خونخوار اسرائیلی فوجیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ باہر کی تاریکی ان کا کچھ نہیں بگاڑ رہی، روشنی تو ان کے سینوں میں بھری ہے۔
ان کے خون میں پیغمبروں کا عزم، جرأت اور استقامت لہریں مارتی ہیں۔ چناں چہ بم باری سے گھر تباہ کردیے جاتے ہیں، روزگار چھین لیا جاتا ہے، پانی کی راہیں روک کر انھیں قطرے قطرے کے لیے محتاج کردیا جاتا ہے، انھیں ترک وطن پر مجبور کرنے کے لیے ہر جتن کیا جارہا ہے، لیکن وہ اپنی زمین تو کیا اپنی جدوجہد چھوڑنے کے لیے بھی آمادہ نہیں۔
فلسطینیوں کی اس استقامت پر صہیونی اور ان کے پرانے حبیب اور نئے دوست کیوں غصے اور جھنجھلاہٹ کا شکار نہ ہوں۔ محمد بن سلمان کے لفظوں میں بھی یہی جھنجھلاہٹ پھنکار رہی ہے۔ ’’فلسطینی اپنی زبان بند رکھیں‘‘ جیسے رعونت بھرے الفاظ تو شاید کبھی اسرائیل کے حکم رانوں اور ڈونلڈٹرمپ سمیت اسرائیلی رکھیل کے ناز اٹھاتے امریکی صدور نے بھی ادا نہیں کیے۔
یہ زہر بھرا جملہ اپنے اندر بہت سے معنی سموئے ہوئے ہے۔ سعودی عرب کا ولی عہد اور عملی طور پر سعودی مملکت کا بادشاہ بہ الفاظ دیگر فلسطینیوں سے کہہ رہا ہے: ’’بکواس بند کرو، ہمارے آقا، ظل سبحانی، میرے سلطان ڈونلڈٹرمپ امن کے نام پر تمھیں جو خیرات عطا کر رہے ہیں وہ سر جھکا کر ہاتھ بڑھا کر وصول کرو۔ تم جانے کب سے ہمارے لیے مصیبت اور جان کا عذاب بنے ہوئے ہو، تم مسلم اُمہ کی سربراہی اور خیرخواہی اور اسلام کی خدمت کے ہمارے دعوؤں پر سوالیہ نشان اور بدنما داغ بن گئے ہو۔ واشنگٹن سرکار اور ہمارے درمیان مزید قُربت کی راہ میں تم ایک روڑا ہو، جسے ہم آل سعود اپنے عوام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے ردعمل کی خوف سے ٹھوکر نہیں مار پاتے، اس لیے مجبوراً دھیرے دھیرے سرکا رہے ہیں۔ اب اپنے ہونٹوں پر تالا ڈال کر چُپ چاپ وہ کھیل دیکھو جو تم سے کھیلا جارہا ہے۔‘‘
محمد بن سلمان یہ نہیں بھی کہتے تو سعودی عرب کی حالیہ قیادت کے اقدامات فلسطینیوں کو یہ باور کرانے کے لیے کافی ہیں کہ سعودی قیادت کیا چاہتی ہے۔ یوں بھی فلسطینیوں اور ان کی جدوجہد کے لیے سعودی اعانت احتجاج اور اخلاقی امداد سے ایک قدم بھی کبھی آگے نہیں بڑھی ہے۔ لہٰذا اپنی جنگ آپ لڑتے فلسطینیوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کی غم گساری اور ملت اسلامیہ کی غم خواری کے دعوے دار کب اپنے عمل کی طرح دعوؤں پر بھی سیاہی پھیر دیتے ہیں۔
اس وقت فلسطینی ایک ایسے شہر کے تقدس کے لیے میدان میں آئے ہیں جو امت مسلمہ کے لیے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے بعد تیسرا پاکیزہ ترین شہر ہے، جسے ہر مسلمان پوری عقیدت کے ساتھ قبلۂ اول کہتا ہے۔ لیکن قبلۂ اول کو بچانے کی جنگ صرف فلسطینی لڑ رہے ہیں کوئی اور مسلم قوم اس معرکے میں صف اول تو کجا ان کی پشت پر بھی نہیں۔ سعودی عرب اپنے مفادات کے لیے یمن پر جنگ مسلط کرنے سے گریز نہیں کرتا، شام میں اپنے وسائل جھونک دیتا ہے، اپنی جنگ بازی کے لیے دنوں میں اسلامی عسکری اتحاد بنا کے کھڑا کردیتا ہے (جس کی سیادت ہمارے ’’ہیرو‘‘ راحیل شریف کے حصے میں آئی)، امریکا کے اشارے پر افغانستان میں پوری قوت سے ’’شریک جہاد‘‘ہوجاتا ہے۔
اسی طرح ایران بشارالاسد جیسے جلاد آمر کی حکومت بچانے کے لیے اپنے فوجیوں اور پاکستان سمیت مختلف ممالک میں موجود اپنے ہم نواؤں کو ارض شام پر کٹوا دینے سے دریغ نہیں کرتا، مشرق وسطیٰ میں اپنا کردار بڑھانے پر مُصر ترکی شامی سرزمین پر سینہ تان کر بم برساتا ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن مسلم دنیا کے یہ ’’قائدین‘‘ اور اسلام کے یہ محافظ اسرائیلی سرحد تو کیا اسرائیل کے سائے سے بھی دور ہوتے ہیں۔ فلسطینیوں کو تحفظ دینے کے لیے ان ممالک نے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، لیکن اسلام کے یہ پاسبان بیت المقدس کی پامالی پر بھی ’’غم و غصے کی لہر‘‘ سے زیادہ کچھ نہ دکھا سکے۔ یہ لہر بھی کچھ دن چنگاریاں اُڑا کر سرد پڑ چکی ہے۔ رہی اسلامی ممالک کی تنظیم تو یہ اقتدار کی مصروفیات سے تھک جانے والے مسلم دنیا کے حکم رانوں کی گپ شپ کی بیٹھک کے سوا کچھ نہیں۔
اس معاملے میں مسلم دنیا کی واحد جوہری قوت پاکستان کا کردار بھی کچھ کم افسوس ناک نہیں۔ ہمارا کردار بھی فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر احتجاج تک محدود ہے۔ پرویزمشرف کے دور میں تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں بھی ہونے لگی تھیں، لیکن بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ ریاستی سطح پر کردار سے قطع نظر اب لگتا ہے کہ جیسے فلسطین کا معاملہ جو کبھی دلوں کو گرما دیتا تھا، اب بھولی ہوئی داستان اور گزرا ہوا خیال بن کے رہ گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مقتدر حلقوں نے ریاست اور شہریوں کو افغانستان پر روس کی یلغار اور امریکی حملے کے بعد جس طرح استعمال کیا، اس کے نتائج نے ہمارے شدید مسائل سے دوچار کرنے کے ساتھ ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیٹر تُو‘‘ کی خود غرضانہ سوچ کا شکار بھی کر دیا ہے۔
فلسطینیوں کا خون بہہ رہا ہے اور مشرق تا مغرب کسی کی آنکھ میں آنسو تک نہیں۔ محمد بن سلمان نے جو بات کہہ دی، لگتا ہے سارے حکم راں خاص طور پر مسلم دنیا کے صاحبان اقتدار فلسطینیوں کو انھی الفاظ میں جھڑک رہے ہیں، ’’فلسطینیوں اپنا منہہ بند رکھو، خون کا بہتا دریا دیکھو، لیکن زبان سے اُف تک نہ نکلے، اپنے کم سِن بچوں کی لاشیں زمین میں اُتارتے رہو، لیکن سسکی بھی بلند نہ ہو، تمھارے شہر لُٹیں عزتیں پامال ہوں لیکن خبردار جو حرف انکار بلند کیا۔۔۔۔ چُپ، ایک دم خاموش، ہماری نیند میں خلل مت ڈالو، ہم امریکی محبوب کے ساتھ ملن کا گیت گارہے ہیں، تمھاری آواز مخل نہ ہو۔‘‘
سیرو سیاحت آج کے دور میں دنیا بھر میں مقبول ہو رہی ہے۔ دنیا کے سبھی ممالک کے لوگ اب گوگل پر سرچ کرکے سیاحت کےلیے نکل پڑتے ہیں۔ سیاحت کو فروغ دینے کےلیے دنیا بھر میں سیاحت کا عالمی دن ستمبر کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ سیر و سیاحت دُنیا کی سب سے زیادہ ترقی کرنے والی صنعت ہے اور یہ تمام دُنیا کی گھریلو صنعتوں کے تقریباً 10 فیصد کی نمائندگی کرتی ہے۔
ایک مُلک کی معیشت سیر و سیاحت پر کس طرح انحصار کرتی ہے؟ اس کےلیے بہاماس کی مثال پر غور کیجیے: یہ ایک سا مُلک ہے جو سیکڑوں چھوٹے بڑے جزیروں کی شکل میں خلیج میکسیکو کے دہانے سے لے کر امریکا میں فلوریڈا کے درمیان اور کیوبا تک پھیلا ہوا ہے۔ بہاماس میں کوئی وسیع تجارتی زرعی رقبہ اور صنعتی خام مال نہیں۔ لیکن ان جزائر میں گرم موسم، شاندار گرم مرطوب ساحل، لگ بھگ چار لاکھ ملنسار لوگوں کی چھوٹی سی آبادی اور امریکا سے قریب ہونا، یہ سب مل کر اسے سیاحت کی دنیا میں منفرد مقام عطا کیے ہوئے ہیں۔
سیر و سیاحت اور تصویر کشی کے دلدادہ لوگوں کےلیے قدرتی حسن سے مالا مال پاکستان ہمیشہ سے ایک ترجیحی منزل رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ شمالی علاقہ جات کے ہوٹل ہمہ وقت غیر ملکیوں سے بھرے رہتے تھے۔ سکردو کے بازاروں میں اکثر اوقات پولینڈ اور جرمنی کے لوگ نظر آتے تھے کہ انہیں کے ٹو سر کرنا ہوتا تھا۔ برطانوی سیاح زیادہ تر کاغان، ناران اور بابوسر کے اردگر پھیلے علاقے کی تصویر کشی میں محو دکھائی دیتے تھے۔
پھر ایک پرائی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے سارا منظر ہی گہنا دیا۔ نانگا پربت کے بیس کیمپ پر غیر ملکی سیاحوں کو رات کے اندھیرے میں گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ ایک وقت آیا کہ غیر ملکی سیاحوں کی آمد بالکل ختم ہوگئی۔ مینگورہ، سوات اور کالام، دہشت گردوں کے قبضے میں چلے گئے۔ ہوٹل سیاحوں سے خالی ہوگئے اور جھیلیں خوش نما پرندوں سے۔
کچھ عرصہ یہ حالات رہے اور پھر قدرت کو ہم پر رحم آیا اور پاکستانی سیاحت کے افق پر چھائی یہ طویل رات دھیرے دھیرے روشن صبح میں تبدیل ہوگئی۔ صرف گلگت بلتستان کے علاقائی محکمہ سیاحت نے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ سال 2017 میں 10 لاکھ سے زائد افراد، سال 2016 میں لگ بھگ 7 لاکھ، جب کہ سال 2015 میں لگ بھگ ڈھائی لاکھ سیاحوں نے اس علاقے کا رخ کیا تھا۔ پاکستان میں سیاحت کے دوبارہ عروج کی ایک بہت بڑی وجہ عیدالفطر کا گرمیوں کے دنوں میں آنا ہے۔ عیدالفطر کےلیے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر تقریباً ایک ہفتے کی تعطیلات ہوتی ہیں۔ ایسے میں لوگوں نے پچھلے کچھ برسوں میں گرمی کی وجہ سے عید کے خوبصورت ایام کو خاندان کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں گزارنے کو رواج دیا ہے۔
پوٹھوہار ریجن کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں سے آنے والوں سیاحوں کی پہلی منزل کوہ مری ہی ہے۔ دور دراز سے تھکے ہارے آئے لوگوں کو شب بسری کےلیے کمرہ چاہیے ہوتا ہے اور اس کمرے کےلیے پھر وہ ہوٹل مالکان کی صوابدید پر ہوتے ہیں کہ کون کتنی بڑی گاڑی میں آیا ہے تو اسے کتنا چونا لگایا جائے۔ عید کی شام مری پر جس طرح سیاح یلغار کرتے ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے بہت پہلے ہی ہوٹل مالکان اسے نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ جو مرضی کرلو، ان لوگوں کو تو یہاں آنا ہی ہے تو کیوں نہ انہیں جی بھر کر لوٹا جائے۔
حالیہ دنوں میں ’’بائیکاٹ مری‘‘ کی مہم سوشل میڈیا پر بہت جوش و خروش سے جاری ہے اور اس کی وجہ ایک سال پرانی ویڈیو ہے جو وائرل ہوچکی ہے۔ یہ ایک بدقسمتی ہے کہ شمالی علاقہ جات میں ہوٹل مالکان کا سیاحوں کے ساتھ رویہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تقریباً ایک جیسا ہی ہے۔ لوگوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ من مانی قیمتوں پر کھانا، چائے، لانڈری وغیرہ کی سہولیات سے مستفید ہوں۔ کیمپنگ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے بلکہ اسکرپٹ کے مطابق سیاحوں کو مقامی لوگوں کی مدد سے کیمپنگ سے خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ جمعہ، ہفتہ، اتوار کے ایام میں شب بسری کا کرایہ باقی دنوں کی نسبت دوگنا کردیا جاتا ہے۔ کمرہ دیتے وقت ہنی مون کےلیے آئے جوڑوں کو نکاح نامہ کے نام پر بلیک میل کیا جاتا ہے۔
مری میں مہنگے ہوٹل جی پی او چوک کے دائیں بائیں میں واقع ہیں جہاں ایک رات قیام کا خرچہ 5000 سے 10000 کے درمیان وصول کیا جاتا ہے جب کہ آپ کو مری میں کم از کم بھی 3000 روپے کے بدلے ایک رات رکنے کی جگہ میسر آسکتی ہے لیکن اس کا فاصلہ جی پی او چوک سے تقریباً ایک کلومیٹر ہوگا۔ اس کا موازنہ اگر ہم مکہ مکرمہ میں موجود حرم پاک سے ایک کلومیٹر دور ہوٹل کے نرخوں سے کریں تو فرق واضح نظر آئے گا کہ وہاں آپ کو ایک کمرہ تقریباً 1500 پاکستانی روپوں میں (سوائے رمضان کے) بہ آسانی ایک رات کےلیے مل جائے گا۔ اس موازنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ سوچا جائے کہ اگر مکہ مکرمہ میں جہاں ہمہ وقت اتنا ہجوم موجود ہوتا ہے اور واقعتاً تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی، اگر وہ لوگ اتنا سستا کمرہ دینے کے بعد کچھ نفع کما رہے ہیں تو مری کے ہوٹل مالکان کا منافع کتنے فیصد تک ہوتا ہوگا؟
قدرت کی طرف سے بہترین سیاحتی مقامات پاکستان کو تحفتاً ملے ہیں لیکن پچھلے ایک عشرے سے غیر ملکی سیاحوں کی پاکستان میں آمد چند سو تک محدود ہے جب کہ ہمارے سیاحتی مقامات میں اتنی کشش ہے کہ ہم ملک کا ایک صوبہ صرف سیاحت سے ہونے والی آمدن سے چلا سکتے ہیں۔ اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں اور یہ ہمارا فرض ہے کہ سیاحوں سے بدتمیزی کرنے والے ہوٹل مالکان اور ملازمین کو بے نقاب کیا جائے۔ لیکن کسی بھی علاقے کا بائیکاٹ کرکے ہم اپنے ملک کی کوئی خدمت نہیں کررہے۔
سیاحوں کو درپیش مسائل حل کرنے کےلیے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنرز کو پابند کیا جائے کہ وہ مختلف ہوٹلوں میں موجود سہولیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے فی رات کرایہ جات مقرر کریں اور ان کرایہ جات کی لسٹ کی ہر ممکنہ حد تک تشہیر کی جائے تاکہ سیاح لٹنے سے بچ سکیں۔ حکومتی نگرانی میں ہوٹل مینیجرز کےلیے وقتاً فوقتاً مہمان نوازی کے کورسز کروائے جائیں۔ کیمپنگ سائٹس کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جائے تاکہ قدرتی مناظر کے دلدادہ لوگ شہر کے دھوئیں اور ٹریفک کے شور سے دور خوبصورت مناظر کو اچھی طرح اپنی یادوں میں سمیٹ سکیں۔ کیمپنگ سائٹس کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ ہوٹل مالکان کے من مانی والے رویّے کا بہت حد تک توڑ کیا جاسکے۔