Quantcast
Channel: بلاگ – Pakistan Views پاکستان ویوز | Latest Pakistani News Portal
Viewing all 215 articles
Browse latest View live

عمران سیریز کے مصنف مظہر کلیم ایم اے انتقال کرگئے

$
0
0

ملتان: لاکھوں نوجوانوں کے پسندیدہ مصنف اور ابنِ صفی کے بعد عمران سیریز کو دوام بخشنے والے ہر دلعزیز مصنف مظہر کلیم ایم اے آج صبح ملتان میں 72 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

اگرچہ مظہر کلیم ایم اے کا شمار ملتان کے معروف وکیلوں میں ہوتا تھا لیکن ان کی اصل وجہ شہرت عمران سیریز کی تصنیف رہی جسے انہوں نے ابنِ صفی کے انتقال کے بعد تقریباً 40 سال تک باقاعدگی سے جاری رکھا جبکہ عمران سیریز میں نئے کردار بھی شامل کرتے رہے۔

!واضح رہے کہ ابنِ صفی کے بعد اِن کے تخلیق کردہ کرداروں پر بہت سے مصنفین نے طبع آزمائی کی لیکن جو کامیابی مظہر کلیم ایم اے کے حصے میں آئی، وہ کسی اور کو حاصل نہ ہوسکی۔مظہر کلیم 22 جولائی 1942 کے روز ملتان کے ایک برخاست پولیس افسر حمید یار خان کے گھر پیدا ہوئے۔ ان اصل نام مظہر نواز خان تھا لیکن انہوں نے ’’مظہر کلیم ایم اے‘‘ کے قلمی نام سے شہرت پائی۔

جناب مظہر کلیم نے اسلامیہ ہائی اسکول ملتان اور ایمرسن کالج سے ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کی جس کے بعد جامعہ ملتان (موجودہ جامعہ بہاء الدین زکریا) سے اردو ادب میں ایم اے اور ایل ایل بی کی اعلی تعلیمی اسناد بھی حاصل کیں۔وکالت اور عمران سیریز کے علاوہ مظہر کلیم ایم اے ریڈیو ملتان سے مشہور سرائیکی ریڈیو ٹاک شو ’’جمہور دی آواز‘‘ کے میزبان بھی رہے جبکہ ملتان بار کونسل کے نائب صدر بھی منتخب ہوئے۔
مرحوم کے پسماندگان میں ایک بیٹا اور 4 بیٹیاں شامل ہیں۔


رحیمیار خان کا نیا سیاسی منظرنامہ

$
0
0

تحریر: نادر بلوچ

ضلع رحیم یار خان اپنے چھ قومی اور تیرہ صوبائی حلقوں کے ساتھ آئندہ آنے والے الیکشن میں ایک اہم اہمیت کا حامل ضلع ہے اور جوں جوں انتخابات قریب آرہے ہیں، رحیم یارخان میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی تین بڑی جماعتوں، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے سیاسی ورکرز اور رہنماء آئندہ الیکشن کو جیتنے کے لئے پُرعزم ہیں۔ اس ضلع کے تمام حلقوں میں امیدواروں کے درمیان متوقع صورتحال کچھ یوں ہے۔

این اے 175 رحیم یار خان 1:
رحیم یارخان کے پہلے قومی اسمبلی کے حلقے کا نیا نمبر این اے 175 ہے۔ اس حلقے کی آبادی آٹھ لاکھ 34 ہزار 642  افراد مشتمل ہے۔ یہ حلقہ لیاقت پور میونسپل کمیٹی، قصبوں سدھو والی، شیدانی شریف، خان بیلہ، پکا لاڑاں، الہ آباد اور تارو کاری پر مشتمل ہے۔ اس حلقہ میں قصبوں کے ساتھ ساتھ چکوک بھی شامل کئے گئے ہیں۔ اس حلقے میں تحریک انصاف کے مخدوم احمد عالم انور، مسلم لیگ نون کے مسعود احمد، پپلزپارٹی کے قطب فرید کویجہ اور آزاد امیدوار حامد سعید کاظمی کے درمیان مقابلہ ہے۔ حامد سعید جو پہلے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے تھے، اس بار آزاد امیدوار کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں، ان کا پیری مریدی کا بڑا حلقہ احباب ہے۔ اس لئے ان کے آزاد الیکشن لڑنے سے ووٹ کی تقسیم کا نقصان پیپلزپارٹی کو ہوگا، جس کا فائدہ پی ٹی آئی امیدوار کو ہوگا۔ یوں اس حلقے میں تحریک انصاف کے امیدوار مخدوم احمد عالم انور کے جیتنے کے چانسز زیادہ ہیں۔

این اے 176 رحیم یار خان 2:
رحیم یار خان کے دوسرے قومی اسمبلی کے حلقے کا نیا نمبر این اے 176 ہے۔ اس حلقے کی آبادی سات لاکھ 65 ہزار 764 افراد پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں میونسپل کمیٹی خانپور، چولستان کے چکوک عباسیہ ون ایل، عباسیہ ٹو ایل، ٹو آر چولستان، سیون آر چولستان، عباسیہ ون، عباسیہ ٹو اور مشہور قصبے گلشن فرید چولستان، حیدر شاہ، ہیڈ فرید، باغو بہار، بھٹہ شیخان، نواں کوٹ شامل ہیں۔ اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے میاں عبدالستار، نون لیگ کے شیخ اعجاز الدین کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ اس حلقے میں کس کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

این اے 177 رحیم یار خان 3:
رحیم یار خان کے تیسرے قومی اسمبلی کے حلقے کا نیا نمبر این اے 177 ہے۔ اس حلقے کی آبادی سات لاکھ 68 ہزار 719 افراد پر مشتمل ہے۔ نئی حلقہ بندی کے تحت اس حلقے میں میونسپل کمیٹی ظاہر پیر، مشہور قصبے و چکوک چاچڑاں شریف، سمکہ، ججہ عباسیاں، گڑھی اختیار خان، کوٹسمابہ موہل، رکن پور، احسان پور، دولت پور، آباد پور، ٹھل وزیر، پلو شاہ اور رنگ پور شامل ہیں۔ پیپلزپارٹی سے مخدوم شہاب الدین، تحریک انصاف سے مخدوم خسروبختار، نون لیگ سے علی معین الدین، اور جمشید دستی الیکشن میں حصہ لیں گے۔ اس حلقے میں سیاسی صورتحال کو دیکھا جائے تو خسروبختیار کے جتینے کے چانسز ہیں۔

این اے 178 رحیم یار خان 4:
رحیم یار خان کے چوتھے قومی اسمبلی کے حلقے کا نیا نمبر این اے 178ہے۔ اس حلقے کی آبادی سات لاکھ 82 ہزار 370 افراد پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں میونسپل کمیٹی احمد پورلمہ، تاج گڑھ، راجن پور، احسن پور، دولت پور، رنگ پور، ترنڈہ سوا ئے خان، سلطان پور، دڑی عظیم خان، بہشتی، کوٹلہ ایوب خان، محمد پور اور شہباز پور شامل ہیں۔ اس حلقے میں سابق گورنر پنجاب اور پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر مخدوم احمد کے صاحبزادے مخدوم مصطفیٰ محمود اور پی ٹی آئی کے رئیس محبوب کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔ قوی امکان ہے کہ پیپلزپارٹی اس حلقے سے سیٹ نکال جائے گی۔

این اے 179 رحیم یار خان 5:
رحیم یار خان کے پانچویں قومی اسمبلی کے حلقے کا نیا نمبر این اے 179 ہے۔ اس حلقے کی آبادی آٹھ لاکھ 43 ہزار 794 افراد پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں میونسپل کمیٹی رحیم یار خان، میونسپل کمیٹی ترنڈہ سوائے خان، میونسپل کمیٹی کوٹسمابہ، بندور، سلطان پور، دڑی عظیم خان، اور کوٹلہ ایوب خان کے علاقے شامل ہیں۔ اس حلقے سے مسلم لیگ نون کے میاں امتیاز احمد اور پاکستان تحریک انصاف کے جاوید وڑائچ کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ جاوید واڑایچ جو محترمہ بےنظیر بھٹو کے درینہ ساتھی تھے، کچھ عرصہ قبل ہی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں۔ اس حلقہ میں جاوید وڑائچ کی جیت کے چانسز زیادہ ہیں۔

این اے 180 رحیم یار خان 6:
رحیم یار خان کے چھٹے اور آخری قومی اسمبلی کے حلقے کا نیا نمبر این اے 180 ہے۔ اس حلقے کی آبادی آٹھ لاکھ 18 ہزار 717 افراد پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں میونسپل کمیٹی صادق آباد کی حدود، ٹلو گوٹھ، ولہار، بھونگ، کوٹ سبزل، ماچھکا اور قسمانی کے علاقے شامل ہیں۔ اس حلقے میں مخدوم احمد محمود کا دوسرا بیٹا مرتضیٰ محمود الیکشن لڑ رہے ہیں، اس حلقے میں مسلم لیگ نون کے ارشد خان لغاری اور تحریک انصاف کے رفیق حیدر لغاری کو ٹکٹ ملنے کے چانسز ہیں۔ تینوں امیدواروں میں رفیق حیدر لغاری مضبوط امیدوار تصور کئے جا رہے ہیں۔ ضلع رحیمیار خان میں امیدواروں کو دیکھ کر بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اس ضلع سے تین سے چار سیٹیں نکال جائے گی، اسی طرح پیپلزپارٹی کی ایک سیٹ کنفرم ہے جبکہ خانپور تحصیل میں پی ٹی آئی اور نون لیگ کے امیدوار کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔ صوبائی نشستوں پر ابھی تک حتمی ناموں کا اعلان نہیں کیا گیا، اس لئے اس پر فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

عہد یوسفی ختم ہوا

$
0
0

عہدِ یوسفی ختم ہو گیا

بیسویں صدی کے اولین عشروں کی بات ہے کہ انڈین شہر جےپور سے عبدالکریم یوسف زئی نامی ایک شخص کسی کام کے سلسلے میں پشاور گیا۔ لیکن جب انھوں نے وہاں اپنا تعارف یوسف زئی پٹھان کے طور پر کروایا تو مقامی لوگ ہنس دیے۔

وجہ یہ تھی کہ عبدالکریم کا خاندان قبائلی علاقہ چھوڑ کر کئی صدیاں قبل ریاست راجستھان میں جا آباد ہوا تھا اور وہ شکل و صورت، زبان، لہجے اور چال ڈھال سے مکمل طور پر مارواڑی روپ میں ڈھل چکے تھے۔

عبدالکریم، جو جےپور کے پہلے گریجویٹ مسلمان تھے، اس واقعے سے اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ انھوں نے اپنا نام ہی یوسف زئی سے بدل کر یوسفی کر ڈالا۔ عبدالکریم کے ہاں چار اگست 1923 کو ایک بچے کی ولادت ہوئی جس کا نام مشتاق احمد خان رکھا گیا۔

یہی بچہ آگے چل کر اردو کا صاحبِ طرز مزاح نگار اور تخلیقی نثرنگار مشتاق احمد یوسفی کہلایا۔

مشتاق احمد نے ابتدائی تعلیم جےپور ہی میں حاصل کی۔ 1945 انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا اور اول پوزیشن حاصل کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو کے ایک اور بے بدل، صاحبِ اسلوب نثرنگار مختار مسعود اسی زمانے میں علی گڑھ میں زیرِ تعلیم تھے۔

1946 میں پی سی ایس کر کے مشتاق احمد یوسفی ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مقرر ہو گئے۔ اسی سال ان کی شادی ادریس فاطمہ سے ہوئی جو خود بھی ایم اے فلسفہ کی طالبہ تھیں۔

اگلے ہی برس ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا جس کے بعد ان کے خاندان کے افراد ایک ایک کر کے پاکستان ہجرت کرنے لگے۔ یکم جنوری 1950 کو مشتاق احمد نے بوریا بستر باندھا اور کھوکھرا پار عبور کر کے کراچی آ بسے۔

اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ‘جون 1949 میں انھوں نے (حکام نے) طے کیا کہ اردو سرکاری زبان نہیں رہے گی، اس کے بعد ہم نے بھی کہہ دیا کہ ہم کام نہیں کریں گے۔’

کراچی آ کر انھوں نے شعبہ بدل لیا اور سول سروس کی بجائے مسلم کمرشل بینک سے منسلک ہو گئے۔ ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے 1974 میں وہ یونائٹیڈ بینک کے صدر مقرر ہوئے اور بعد میں بینکنگ کونسل آف پاکستان کے چیئرمین بھی رہے۔ 1979 میں انھوں نے لندن میں بی سی سی آئی کے مشیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، اور بالآخر 1990 میں ریٹائر ہو کر مستقل کراچی آ بسے اور تادمِ مرگ وہیں مقیم رہے۔

2007 میں 60 برس سے زیادہ کی رفاقت کے بعد ان کی اہلیہ ادریس فاطمہ کا انتقال ہو گیا۔ اس واقعے کے بعد مشتاق یوسفی ٹوٹ کر رہ گئے تھے۔ ان کی تمام تحریروں میں ان کا ذکر جہاں بھی آیا ہے وہاں یوسفی کے قلم سے محبت اور خلوص ٹپکتا محسوس ہوتا ہے۔

اپنے ادبی کریئر کے آغاز کے بارے میں یوسفی کہتے ہیں کہ ‘والد صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ ڈاکٹر بنوں اور عرب جا کر بدوؤں کا مفت علاج کروں۔’

لیکن اسے اردو والوں کی خوش نصیبی کہیے کہ وہ میڈیکل ڈاکٹر نہیں بن سکے البتہ طنز و مزاح کے نشتر سے دیسی معاشرے کے دکھوں کا علاج کرنے لگے۔

یوسفی نے پہلا باقاعدہ مضمون 1955 میں ‘صنفِ لاغر’ کے نام سے لکھا تھا۔ تاہم انھوں نے جب اسے اپنے زمانے کے مشہور رسالے ادبِ لطیف کو اشاعت کے لیے بھیجا تو اس کے مدیر مرزا ادیب نے یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ وہ اس کے مرکزی خیال سے متفق نہیں ہیں۔

صد شکر کہ یوسفی اس سے بدمزہ نہ ہوئے اور انھوں نے یہی مضمون ترقی پسند رسالے سویرا کو بھیج دیا، جس کے مدیر حنیف رامے نے نہ صرف اسے شائع کیا بلکہ یوسفی کو مزید لکھنے کی ترغیب بھی دی۔ ویسے تو حنیف رامے نے سیاسی میدان میں خاصی شہرت کمائی لیکن ادبی میدان میں شاید ان کا نام اردو ادب کو یوسفی سا تحفہ عطا کرنے کے حوالے ہی سے زندہ رہے۔

حنیف رامے کی شہ پا کر یوسفی نے مختلف رسالوں میں مضامین لکھنا شروع کیے جو ‘صنفِ لاغر’ کے ہمراہ 1961 میں یوسفی کی پہلی کتاب ‘چراغ تلے’ کا حصہ بنے۔ اس سے قبل اردو والوں نے اس قسم کی کوئی چیز نہیں پڑھی تھی اس لیے بحث چل نکلی کہ اس میں شائع ہونے والے ادبی پاروں کو مضمون کا نام دیا جائے، انشائیہ کہا جائے یا پھر افسانے سمجھا جائے۔ اس بحث کا تو آج تک حل نہیں نکل سکا، البتہ کتاب اس قدر مقبول ہوئی کہ اب تک اس کے درجنوں ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

لیکن یوسفی کی آنکھیں شہرت سے چکاچوند نہیں ہوئیں، اور اب انھوں نے رسالوں میں مضامین لکھنا بھی بند کر دیے، جب کہ ان کی اگلی کتاب کے لیے بھی ان کے مداحوں کی روزفزوں تعداد کو نو سال کا انتظار کرنا پڑا۔ جب ‘خاکم بدہن’ 1970 میں شائع ہوئی تو محسوس ہوا کہ ادیب نے ایک نئی کروٹ لی ہے۔ اگلے برس اس کتاب کو اس دور کے سرکردہ ادبی اعزاز آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

یہی ایوارڈ 1976 میں یوسفی کی تیسری کتاب ‘زرگزشت’ کو بھی دیا گیا۔ حسبِ روایت یہ کتاب بھی پچھلی دونوں کتابوں سے مختلف تھی جسے ان کی ڈھیلی ڈھالی خودنوشت سرگزشت بھی کہا جا سکتا ہے۔ خود یوسفی نے اسے اپنی ‘سوانحِ نوعمری’ قرار دیا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں نوعمری کا نام و نشان نہیں کیوں کہ اس کی کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب یوسفی نے پاکستان آ کر بینکنگ کے شعبے میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا تھا۔

یوسفی کی چوتھی کتاب ‘آبِ گم’ ہے جو 1989 میں شائع ہوئی۔ ایک بار پھر اس کی ہیئت پچھلی تینوں کتابوں سے مختلف تھی۔ چنانچہ بعض لوگوں نے اسے ناول بھی قرار دیا۔ ہمارے خیال سے یہ یوسفی کی اہم ترین کتاب ہے۔

البتہ اس کے بعد یوسفی نے ایک لمبے عرصے تک چپ سادھ لی۔ جب 2014 میں خبر ملی کہ چوتھائی صدی کے مراقبے کے بعد یوسفی کی پانچویں کتاب شائع ہو رہی ہے تو اس سے ادبی دنیا میں لہر دوڑ گئی۔ تاہم یہ کتاب پڑھ کر خاصی مایوسی ہوئی، کیوں کہ یہ کوئی باقاعدہ کتاب نہیں ہے بلکہ اس میں مختلف ادوار میں لکھے گئے مضامین، خطبات اور تقاریر اکٹھی کر دی گئی ہیں۔

یوسفی کے بنیادی موضوع بدلتی ہوئی معاشرتی صورتِ حال کا تجزیہ پیش کرنا ہے، گزرتے وقت کا ناسٹیلجیا (جسے انھوں نے ‘یادش بخیریا’ کا نام دیا ہے) ان کی تحریروں کا اہم جزو ہے۔

اردو مزاح نگاروں کی اکثریت قہقہہ آور صورتِ حال اور مضحکہ خیز کرداروں کی مدد سے مزاح پیدا کرتی ہے۔ اس سلسلے میں رتن ناتھ سرشار (خوجی)، امتیاز علی تاج (چچا چھکن)، پطرس بخاری کے مضامین، کرنل محمد خان کی بجنگ آمد، شفیق الرحمٰن اور ابنِ انشا کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ انگریزی اصطلاح میں اسے ‘سلیپ سٹِک کامیڈی’ کہا جاتا ہے۔

مشتاق احمد یوسفی نے اپنی راہ ان سب سے الگ نکالی۔ چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر ان کے ہاں مزاح صورتِ حال کی منظرکشی سے نہیں، بلکہ صورتِ حال پر فلسفیانہ غور و فکر اور گہرا اور چبھتا ہوا تبصرہ کر کے پیدا کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی فلسفے کی تعلیم ضرور کام آئی ہو گی۔

وہ کرداروں کی اچھل پھاند سے نہیں، بلکہ لفظوں کے ہیرپھیر، تحریف، لسانی بازی گری اور بات سے بات نکال کر مزاح پیدا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا وسیع ذخیرۂ الفاظ اور اس سے بھی وسیع تر مطالعہ ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ وہ ایسے مزاح نگار ہیں جن کی تحریر سے سرسری نہیں گزار جا سکتا، بلکہ ہر ہر فقرے کو بڑی توجہ اور احتیاط سے پڑھنا پڑتا ہے، اور بعض اوقات دوبارہ یا سہ بارہ پڑھ کر ہی اس سے بھرپور حظ کشید کیا جا سکتا ہے۔

اس ضمن میں چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں جن سے ان کے طرزِ تحریر پر روشنی پڑتی ہے:

•چھٹتی نہیں ہے منھ سے یہ ‘کافی’ لگی ہوئی۔

•بچپن ہی سے میری صحت خراب اور صحبت اچھی رہی ہے۔

•آپ نے بعض میاں بیوی کو۔۔۔ ہواخوری کرتے دیکھا ہو گا۔ عورتوں کا انجام ہمیں نہیں معلوم لیکن یہ ضرور دیکھا ہے کہ بہت سے ‘ہواخور’ رفتہ رفتہ ‘حواخور’ ہو جاتے ہیں۔

•مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔

•معتبر بزرگوں سے سنا ہے کہ حقہ پینے سے تفکرات پاس نہیں پھٹکتے۔ بلکہ میں تو عرض کروں گا کہ اگر تمباکو خراب ہو تو تفکرات ہی پر کیا موقوف ہے، کوئی بھی پاس نہیں پھٹکتا۔

•اختصار ظرافت اور زنانہ لباس کی جان ہے۔

•مزاح، مذہب اور الکحل میں ہر چیز میں باآسانی حل ہو جاتے ہیں۔

•ان کی بعض غلطیاں فاش اور فاحش ہی نہیں، فحش بھی تھیں۔

•جب نورجہاں کے ہاتھ سے کبوتر اڑ گیا تو جہانگیر نے اسے پہلی بار خصم گیں نگاہوں سے دیکھا۔

•صاحب، میں ماکولات میں معقولات کا دخل جائز نہیں سمجھتا۔

•مرحوم جوانی میں اشتہاری امراض کا شکار ہو گئے۔ ادھیڑ عمر میں جنسی تونس میں مبتلا رہے، لیکن آخری ایام میں تقویٰ ہو گیا تھا۔

کون کس حلقے سے الیکشن لڑے گا؟

$
0
0

کراچی: 25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے امیدواروں نے انتخابی مہم شروع کردی لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ کون سے امیدوار کن حلقوں سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ متوقع سخت مقابلوں کے پیش نظر سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور اہم رہنما ایک کے بجائے کئی حلقوں سے میدان میں اتر رہے ہیں جس میں سب سے نمایاں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف ہیں جو مجموعی طور پر 5،5 حلقوں سے میدان میں اتریں گے۔ قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے نمایاں امیدواروں کے حلقوں سے متعلق اعداد و شمار کچھ اس طرح ہیں:

عمران خان: ( این اے 53، این اے 95، این اے 243، این اے 131، این اے 35) 

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان قومی اسمبلی کی 5 نشستوں سے انتخاب لڑیں گے جس میں اسلام آباد کا حلقہ این اے 53 ٹو، کراچی کا حلقہ این اے 243 ایسٹ، لاہور کا حلقہ این اے 131 لاہور 9، میانوالی کا حلقہ این اے 95 اور بنوں کا حلقہ این اے 35 شامل ہے۔

این اے 131 لاہور9 کینٹ اور والٹن کے علاقوں پر مشتمل ہے جہاں خواندہ شہری رہائش پذیر ہیں جب کہ کراچی کے جس حلقے سے چیئرمین پی ٹی آئی میدان میں اتریں گے وہ گلشن اقبال، جمشید کوارٹرز اور گلستان جوہر پر مشتمل ہے۔

عمران خان اس سے قبل بھی لاہور اور میانوالی سے انتخاب لڑ چکے ہیں لیکن پہلی مرتبہ وہ کراچی، اسلام آباد اور بنوں سے میدان میں اتر رہے ہیں جہاں دلچسپ مقابلہ متوقع ہے۔

2013 کے انتخابات میں عمران خان نے چار حلقوں راولپنڈی، پشاور، میانوالی اور لاہور سے انتخاب لڑا تھا جس میں سے تین حلقوں میں کامیابی اور ایک میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

عمران خان کو لاہور کے حلقہ این اے 122 میں (ن) لیگی امیدوار سردار ایاز صادق نے شکست دی تھی۔

شہباز شریف: (این اے 132، این اے 249، این اے 3، پی پی 164، پی پی 165)

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف قومی اسمبلی کی 3 اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں کے لیے میدان میں اتریں گے۔

شہباز شریف لاہور، کراچی اور سوات سے قومی اسمبلی کے لیے انتخاب لڑیں گے جب کہ صوبائی اسمبلی کے لیے انہوں نے لاہور کے دو حلقوں کو حلقہ انتخاب بنایا ہے۔

(ن) لیگی صدر این اے 132 لاہور دس سے میدان میں اتریں گے اور یہ حلقہ کینٹ، شالیمار اور ماڈل ٹاؤن کے بعض علاقوں پر مشتمل ہے۔

شہباز شریف کراچی کے حلقہ این اے 249 کراچی ویسٹ ٹو سے پہلی مرتبہ میدان میں اتریں گے جہاں ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے امیدوار فیصل واوڈا سے ہوگا۔

شہباز شریف پنجاب اسمبلی کے لیے صوبائی نشست پی پی 164 لاہور 21 اور پی پی 165 لاہور 22 سے میدان میں ہوں گے، یہ دونوں حلقے شالیمار ، کینٹ ماڈل ٹاؤن اور کینٹ سے ملحقہ علاقوں پر مشتمل ہے۔

بلاول بھٹو زرداری: ( این اے 8، این اے 200، این اے 246)

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اپنی زندگی کا پہلا الیکشن لڑیں گے جس کے لیے انہوں نے قومی اسمبلی کے تین حلقوں سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری اپنے آبائی حلقے این اے 200 لاڑکانہ ون، کراچی کے حلقہ این اے 246 جنوبی اور مالاکنڈ کے حلقہ این اے 8 سے انتخابات میں حصہ لیں گے۔

بلاول بھٹو زرداری کا کراچی کی نشست پر (ن) لیگی امیدوار سلیم ضیاء سے مقابلہ ہوگا اور اس حلقے میں لیاری، گارڈن اور اس کے ملحقہ علاقے آتے ہیں۔

لاڑکانہ اور لیاری کا حلقہ ماضی میں بھی پیپلز پارٹی کا حلقہ انتخاب رہا ہے اس لیے بلاول بھٹو زرداری کو ان حلقوں سے انتخاب لڑایا جارہا ہے۔

مولانا فضل الرحمان: (این اے 38، این اے 39 ) 

متحدہ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل الرحمان قومی اسمبلی کے 2 حلقوں سے انتخاب لڑیں گے جس میں این اے 38 ڈی آئی خان ون اور این اے 39 ڈی آئی خان ٹو  شامل ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان کا حلقہ این اے 38 ون 2013 کے انتخابات میں این اے 24 تھا جو نئی حلقہ بندیوں کے بعد تبدیل ہوا، ماضی کے تین انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو اس حلقے سے 2002 اور 2013 کے انتخابات میں مولانا فضل الرحمان کامیاب ہوئے اور 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل کریم کنڈی نے انہیں شکست دی تھی۔

شاہد خاقان عباسی: ( این اے 53)

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی کے 2 حلقوں سے انتخاب لڑنے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے لیکن ان کے آبائی حلقے این اے 57 مری سے نامزدگی فارم مسترد کردیے گئے۔

شاہد خاقان عباسی نے اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 53 ٹو اور راولپنڈی کے حلقہ این اے 57 ون سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔

راولپنڈی کا حلقہ این اے 57 ون نئی حلقہ بندیوں سے قبل این اے 50 تھا جہاں سے شاہد خاقان عباسی 5 مرتبہ کامیاب ہوئے جو مری، کوٹلی ستیاں، کہوٹہ اور کلر سیداں پر مشتمل ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے اس حلقے پر بالترتیب 1990، 1993، 1997، 2008 اور 2013 میں کامیابی حاصل کی اور صرف ایک مرتبہ 2002 کے انتخابات میں انہیں پیپلز پارٹی کے امیدوار غلام مرتضیٰ ستی نے شکست دی تھی۔

تاہم 27 جون کے الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے بعد وہ این اے 57 سے الیکشن لڑنے کے لیے نااہل ہوچکے ہیں۔

چوہدری نثار: ( این اے 59، این اے 63، پی پی 10، پی پی 12)

مسلم لیگ (ن) کے ناراض رہنما چوہدری نثار اس مرتبہ آزاد حیثیت سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی 2،2 نشستوں سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، انہوں نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 59 راولپنڈی تھری اور این اے 63 راولپنڈی سیون سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔

چوہدری نثار صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر بھی انتخاب لڑیں گے جس میں پی پی 10 اور پی پی 12 شامل ہیں اور دونوں حلقے چکری، کلر سیداں، لکھاں، دھمیال اور دیگر علاقوں پر مشتمل ہیں۔

قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 59 راولپنڈی تھری نئی حلقہ بندیوں سے قبل این اے 52 تھا جہاں ماضی میں ہونے والے مسلسل تین انتخابات 2002، 2008 اور 2013 میں انہوں نے (ن) لیگ کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔

یہ حلقہ ریلوے ہاؤسنگ اسکیم، ڈھوک چوہدریاں، شکریال، لالازر، شیر زمان کالونی، مورغا، گلریز، سفاری ولاز، پولیس فاؤنڈیشن، میڈیا ٹاؤن، لال کرتی، کوٹھا کالان، گلشن آباد، بحریہ ٹاؤن، روات، کلرسیداں، چک بیلی خان، پنڈوری، آرمی آفیسرز کالونی، منور، ذوالفقار اور پولیس فاؤنڈیشن کے علاقوں پر مشتمل ہے۔

چوہدری نثار پوٹوہار ریجن سے 1985 سے انتخابات میں حصہ لیتے آرہے ہیں اور وہ تمام الیکشنز میں قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔

چوہدری نثار 1985، 1988، 1993، 1997، 2002، 2008 اور 2013 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے قومی اسمبلی کے رکن بنے۔

قومی اسمبلی کی جس دوسری نشست سے چوہدری نثار میدان میں ہوں گے وہ ٹیکسلا اور واہ کینٹ پر مشتمل ہے، جہاں سے گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار غلام سرور خان نے چوہدری نثار کو شکست دی تھی اور اسی حلقے میں چوہدری نے آخری مرتبہ 2008 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔

خواجہ سعد رفیق: ( این اے 132، پی پی 168)

مسلم لیگ (ن) کے امیدوار خواجہ سعد رفیق ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑ رہے ہیں، ان کا مقابلہ این اے 131 لاہور 9 سے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے ہوگا جب کہ صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 168 سے وہ میدان میں ہوں گے۔

پرانی حلقہ بندیوں میں این اے 125 کی تقسیم کے بعد بننے والا نیا حلقہ این اے 131 لاہور سیون، 7 لاکھ 72 ہزار 182 نفوس پر مشتمل ہے جس میں نشاط کالونی، والٹن، آر اے بازار، بیدیاں روڈ، ایئرپورٹ، بھٹہ چوک، چنگی امرسدھو، کوالری اور کماہاں کے علاقے شامل ہیں۔

صوبائی اسمبلی کی جس نشست پر خواجہ سعد رفیق الیکشن لڑیں گے اس میں ماڈل ٹاؤن اور والٹن کے علاقے آتے ہیں اور لاہور کی وہ صوبائی اسمبلی کی 25ویں نشست ہے۔

اسفند یار ولی خان: ( این اے 24 چارسدہ)

عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 24 چارسدہ 2 سے الیکشن لڑیں گے۔

یہ حلقہ 1977 سے 2013 کے انتخابات تک این اے 7 چارسدہ ون تھا جو نئی حلقہ بندی کے بعد این اے 24 چارسدہ 2 ہوچکا ہے۔

2013 کے عام انتخابات میں اس حلقے میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما مولانا محمد گوہر شاہ نے کامیابی حاصل کی تھی اور اسفند یار ولی تیسرے نمبر پر تھے۔

اس نشست پر اے این پی کے سربراہ نے 2008 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔

  شیخ رشید: ( این اے 60، این اے 62)

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے انتخاب لڑ رہے ہیں، وہ این اے 60 راولپنڈی 4 اور این اے 62 راولپنڈی 6 سے (ن) لیگی امیدواروں کے مدمقابل ہوں گے۔

گزشتہ انتخابات میں این اے 60 کو این اے 55 کی حیثیت حاصل تھی جہاں سے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کامیابی حاصل کی تھی۔

25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں اس نشست پر شیخ رشید کا مقابلہ (ن) لیگی امیدوار حنیف عباسی سے ہوگا، اس حلقے میں چکلالہ، کینٹ اور اس سے ملحقہ علاقے آتے ہیں۔

این اے 60 پر 2002 کے انتخابات میں شیخ رشید نے آزاد حیثیت سے انتخاب لڑ کر کامیابی حاصل کی تھی اور 2008 کے انتخابات میں یہ نشست حنیف عباسی کے پاس رہی۔

اس نشست پر تحریک انصاف نے شیخ رشید کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا اور پی ٹی آئی نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔

این اے 62 راولپنڈی 6 بھی شیخ رشید کا حلقہ انتخاب ہے جہاں سے انہوں نے گزشتہ انتخابات میں 95 ہزار 643 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی تھی۔

پرویز خٹک: (این اے 25، پی کے 61، پی کے 62)

تحریک انصاف کے امیدوار پرویز خٹک قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر انتخاب لڑیں گے، انہوں نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 25 نوشہرہ ون جب کہ صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے 61 نوشہرہ ون اور پی کے 64 نوشہرہ 4 سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔

نئی حلقہ بندیوں سے قبل این اے 25 نوشہرہ ون کو این اے 6 نوشہرہ 2 کا درجہ حاصل تھا جہاں 2013 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار سراج محمد خان نے کامیابی حاصل کی تھی۔

2018 کے انتخابات میں اس نشست پر تحریک انصاف کے امیدوار پرویز خٹک میدان میں ہوں گے۔

مریم نواز: ( این اے 127، پی پی 173)

سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز قومی و صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست پر انتخاب لڑ رہی ہیں۔

مریم نواز قومی اسمبلی کی نشست این اے 127 لاہور 3 سے تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کا مقابلہ کریں گی اور اس نشست پر ہونے والے الیکشن پر سب کی نظریں ہیں۔

مریم نواز صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 173 لاہور 30 سے بھی میدان میں اتریں گی، یہ حلقہ شہری آبادی پر مشتمل ہے جس میں کینٹ کے علاقے آتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی: ( این اے 156، این اے 221)

تحریک انصاف کے امیدوار شاہ محمود قریشی قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے الیکشن لڑیں گے جس میں ملتان کے حلقہ این اے 156 تھری اور تھرپارکر کے حلقہ این اے 221 ون سے امیدوار ہوں گے۔

این اے 156 ملتان 3 نئی حلقہ بندیوں سے قبل این اے 150 تھا، جہاں 2013 کے عام انتخابات میں شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر 92 ہزار 761 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔

اس نشست پر 2002 اور 2008 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار رانا محمود الحسن نے کامیابی حاصل کی تھی۔

شاہ محمود قریشی سندھ کے ضلع تھرپارکر سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 221 سے بھی میدان میں اتر رہے ہیں، جن کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے امیدوار پیر نور محمد شاہ جیلانی ہوں گے جو گزشتہ انتخابات میں بھی اسی حلقے سے کامیاب ہوئے تھے۔

نئی حلقہ بندیوں سے قبل یہ حلقہ این اے 230 تھرپارکر 2 تھا، اس حلقے میں 2008 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کے غلام حیدر سمیجو اور 2002 کے الیکشن میں نیشنل الائنس کے ٹکٹ پر غلام حیدرسمیجو کامیاب ہوئے تھے۔

علیم خان: ( این اے 129)

تحریک انصاف کے امیدوار علیم خان قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 129 لاہور سیون سے میدان میں اتریں گے۔

یہ حلقہ اکثر دیہی آبادی پر مشتمل ہے جس میں شادی پورہ، حمید پورہ، فتح گڑھ، انگوری باغ، مغل پورا، مصطفیٰ آباد، غازی آباد دروغاوالا سمیت دیگر دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔

این اے 129 پر علیم خان کا مقابلہ تحریک انصاف کے امیدوار سردار ایاز صادق سے ہوگا جنہوں نے گزشتہ انتخاب میں لاہور کے حلقہ این اے 122 سے عمران خان کو شکست دی تھی۔

خواجہ آصف: ( این اے 73)

مسلم لیگ (ن) کے امیدوار خواجہ آصف اپنے آبائی علاقے سیالکوٹ سے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑیں گے۔

این اے 73 سیالکوٹ ٹو سے خواجہ آصف میدان میں ہوں گے اور یہ حلقہ 7 لاکھ 78 ہزار 12 نفوس پر مشتمل ہے، نئی حلقہ بندیوں سے قبل یہ حلقہ این اے 110 تھا۔

این اے 73 سیالکوٹ ٹو پسرور تحصیل پر مشتمل ہے جہاں نئی حلقہ بندیوں کے بعد مختلف علاقوں کو دوسرے حلقے میں شامل کرلیا گیا ہے جس میں ہرونس پور، قلعہ سبھا سنگھ نمبر ایک، قلعبہ سبھا سنگھ نمبر 2، ملکوک نمبر 1 اور ملکو نمبر 2 سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔

خواجہ آصف کے مدمقابل تحریک انصاف کے امیدوار عثمان ڈار ہوں گے، جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں بھی ان کا مقابلہ کیا تھا۔

2013 کے الیکشن میں خواجہ آصف نے اس حلقے سے 92 ہزار 848 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جب کہ تحریک انصاف کے امیدوار 71 ہزار 573 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔

ایاز صادق: (این اے 129)

مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سردار ایاز صادق قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 129 لاہور سیون سے انتخاب لڑیں گے۔

یہ حلقہ شالیمار، لاہور کینٹ تحصیل اور ملحقہ علاقوں پر مشتمل ہے، گزشتہ انتخابات میں اس حلقے سے (ن) لیگی امیدوار شازیہ مبشر نے پی ٹی آئی امیدوار چوہدری منشیٰ کو شکست دی تھی۔

25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اس حلقے پر سردار ایاز صادق کا مقابلہ پی ٹی آئی امیدوار علیم خان سے ہوگا۔

یاد رہے کہ سردار ایاز صادق 2013 کے انتخابات میں لاہور کے حلقہ این اے 122 سے کامیاب ہوئے تھے اور انہوں نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو شکست دی تھی۔

نوٹ: الیکشن کمیشن نے امیدواروں کی حتمی فہرست ابھی جاری کرنی ہے تاہم یہ رپورٹ امیدواروں کے مختلف حلقوں سے جمع کرائے جانے والے کاغذات نامزدگی جمع کرانے اور منظور کیے جانے کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔ 

وہ ایدھی جسے آپ نہیں جانتے تھے

$
0
0

ایک بار ایدھی صاحب شاہانہ کپڑوں کے بجائے سادہ کپڑوں میں ملبوس ہو کر کسی عام آدمی کی طرح عشائیے کی دعوت پر تشریف لائے تھے، وہ عیشائیہ میرے ذہن میں آج بھی محفوظ ہے۔ وہ پھولے ہوئے صوفے پر سرمئی، ٹوپی اور چپل پہنے انتہائی سادہ انداز میں تشریف فرما تھے۔

میں نے جیسے ہی انہیں ’مولانا ایدھی‘ کہہ کر مخاطب کیا تو سخت لہجے میں جواب دیا کہ،

’مجھے مولانا کہہ کر مخاطب نہ کریں!‘

’مگر ایدھی صاحب آپ کو تو سب اسی نام سے پکارتے ہیں۔‘

انہوں نے میری طرف انگلی اونچی کرتے ہوئے کہا کہ،’میں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے، صرف اس وجہ سے وہ مجھے مولوی پکارتے ہیں۔ میں مولانا نہیں ہوں۔‘

یہ سن کر مجھے وہ بات یاد آئی جب لوگوں نے ایدھی صاحب سے پوچھا کہ وہ اپنی ایمبولینسز میں غیر مسلموں کو لے جانے کی اجازت کیوں دیتے ہیں اور انہوں نے اس پر سخت لہجے میں جواب دیا تھا کہ:

’کیونکہ میری ایمبولینس آپ سے زیادہ مسلمان ہے۔‘

ایدھی صاحب کسی بھی شے یا شخص کے بارے میں غلط محسوس کرتے تو اس کے خلاف بولنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ ان سے گفتگو کے دوران جب میں نے ان کے سامنے شہر کے بنیادی ڈھانچوں کو بہتر کرنے پر کراچی کے ایک سابق میئر کی تعریف کی تو وہ آگ ببولا ہوکر کہنے لگے:

’وہ سرگرم تو نہیں! آپ کو پتہ ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقعے پر ہم ہی وہ سب سے پہلے لوگ تھے جو کھالیں اکٹھا کیا کرتے تھے، اور پھر انہیں بیچ کر جو بھی پیسے ملتے انہیں خیراتی کاموں میں لگا دیتے تھے۔ مگر جیسے دوسروں کو احساس ہوا کہ کھالوں سے پیسہ بنایا جاسکتا ہے، تو انہوں نے بھی فلاحی کاموں کی آڑ میں خود جا جا کر جبراً کھالیں اکٹھی کرنا شروع کردیں۔ جھوٹے اور چور ہیں وہ لوگ۔‘

اور پھر پرسکون ہو کر کھانا کھانے میں مصروف ہو گئے۔

ایک عاجز عظیم انسان

انہوں نے 1957ء میں تن تنہا ایدھی فاؤنڈیشن کی بنیاد ڈالی اور آگے چل کر اس ادارے نے پاکستان کے کونے کونے میں پھیل کر ایک غیر منافع بخش فلاحی تنظیم کے طور پر اپنا کام شروع کیا، ان کاموں میں غریبوں اور ضرورتمندوں کو طبی امداد، خاندانی منصوبہ بندی اور ایمرجنسی مدد اور تعلیم فراہم کرنا شامل ہیں۔ اس ادارے کے تحت زچگی خانے، ذہنی مریضوں کی پناہ گاہیں، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بینک اور یتیم خانے بھی چلائے جاتے ہیں۔

16 نومبر 2009ء کو عالمی یومِ برداشت کے موقعے پر ایدھی صاحب ‘یونسکو مدنجیت سنگھ ایوارڈ’ برائے ‘فروغ رواداری’ و ‘عد م تشدد وصول کرنے پیرس گئے تھے۔ یہ ایوارڈ انہیں ’پاکستان میں پسماندہ طبقات کی خدمات کے لیے تاحیات جدوجہد اور انسانی وقار، انسانی حقوق، باہمی احترام و برداشت کے نظریات کو فروغ دینے کے اعتراف میں دیا گیا تھا۔‘

ایوارڈ وصولی کی تقریب کا انعقاد اقوام متحدہ کی وسیع و عریض عمارت میں ہوا تھا؛ اس موقعے پر میں بھی وہاں موجود تھی۔ ڈزائینر سوٹس، چم چماتے کوٹس اور فینسی جوتوں کے درمیان ایدھی صاحب سب سے منفرد انداز میں سرمئی شلوار قمیض زیب تن کیے ہوئے اور سادہ چپل پہنے کھڑے تھے۔

لکھاری پیرس میں ایدھی صاحب کے ہمراہ۔

ایک ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی جس میں ایدھی صاحب اور ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی معاشرے کے نادار لوگوں کے درمیان فلاحی کاموں میں مصروف دکھائی دے رہے تھے۔

جب ایدھی صاحب یونیسکو کا ایوارڈ وصول کرنے اٹھے تو تالیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔ کئی یورپی لوگوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ وہ ایسے عظیم انسان سے ملاقات نصیب ہونے پر خود کو کافی خوشقسمت محسوس کر رہے تھے۔

ایدھی صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی خاطر ایک ہندوستانی جوڑے نے اپنی وطن واپسی کی فلائٹ تک منسوخ کردی تھی، ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف ایدھی صاحب کی دعائیں حاصل کرنا چاہتے تھے۔

جیسے ہی یہ غیر معمولی تقریب اپنے اختتمام کو پہنچی تو ایدھی صاحب جلد ہی خوش و خرم پاکستانیوں میں گھل مل گئے۔ ایدھی صاحب کے ساتھ گفتگو اور لاتعداد تصاویر کھنچوانے کا سلسلہ شروع ہوگیا، جب اقوام متحدہ کے افسران نے اپنی نگاہیں گھڑیوں کی طرف دوڑانا شروع کیں تب جا کر تصاویر کھنچوانے کا سلسلہ ختم ہوا، مگر پھر ڈنر کی دعوتوں کے سلسلے کا آغاز ہوا۔

اس وقت ایدھی نہایت تھکے ہوئے دکھائی دے رہے تھے مگر انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی شخصیت کا توازن نہیں کھویا۔ شام 7 بجے سونے اور صبح 4 بچے جاگنے کے عادی، شدید تھکان اور لگاتار سماجی ملاقاتوں کی وجہ سے تھکن سے چُور تھے مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں کے پاکستانیوں سے ملنے کا موقعہ کھونا نہیں چاہتے۔

کئی پاکستانی ایدھی صاحب کا ہاتھ تھام کر دعائیں مانگنے لگے اور ان کے فلاحی ادارے کو امداد دینے کا اظہار بھی کیا۔

وہ ایدھی جسے کم لوگ جانتے تھے

ان کے ساتھ کسی ہیرو جیسا رویہ روا رکھے جانے کے باوجود بھی ایدھی پرسکون رہے اور کبھی کبھی تو تند و تیز مزاحیہ جملے بھی کہہ رہے تھے، ایسے ہی ایک فقرے سے انہوں نے ایک معمر خاتون کو چپ کروا دیا تھا۔

وہ خاتون ان کے پاس آئیں اور شاہانہ انداز میں یہ اعلان کیا کہ وہ رٹائرمنٹ کے بعد ایدھی سینٹر میں رضاکارانہ کام کریں گی۔

’اس طرح کے کام کرنے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ لہٰذا زیادہ دیر نہ کریں ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔‘

جب وہ مجھے تہمینہ درانی کے ساتھ مل کر لکھی گئی اپنی آپ سوانح حیات دینے لگے تب بھی انہوں ایک ایسا ہی مزاحیہ بات کہی تھی۔ دراصل جب باتوں کا رخ جب تہمینہ کی دوسری شادی کی طرف گیا تو معصومانہ انداز میں کہنے لگے کہ،

’انہوں نے شہباز سے ہی شادی کیوں کی؟‘

اس پر میں نے کہا کہ، ’کیوں نہ کرتیں؟ اور کس کے ساتھ کرتیں؟‘

’میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ میں نہیں تھا کیا، میں بھی تھا‘۔

ان کی یہ بات سن کر ان کی بیٹیاں اور نواسا ہنس پڑے۔

’خیراتی کام اپنے اصل تصور سے مختلف تھا۔ فلاحی کاموں کے فروغ میں جو ایک دوسری بڑی رکاوٹ پیش آئی وہ تھی انسان کی انسانیت کے لیے نفرت۔ ہر کسی کا ردعمل حقارت بھرا ہوتا تھا۔ میرے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کے بگڑے ہوئے چہرے دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ فقط میں وہ اکیلا شخص ہوں جسے ان کاموں میں حقارت محسوس نہیں ہوتی۔ میرے ساتھی بار بار اچھی طرح اپنے ہاتھ صاف کرتے اور اپنے کپڑوں کو سونگھتے اور مسلسل شکایت کرتے رہتے کہ بدبو ان کے جسم میں سما چکی ہے۔ پھر وہ اپنے گھر جاتے، نہاتے، کپڑوں کو رگڑ کر صاف کرتے اور جراثیم سے پاک بناتے تھے، کبھی کبھار تو وہ اپنے کپڑے کسی دوسرے کو دے دیتے اور کہتے کہ ’ لباس خراب ہوگیا ہے‘۔ ہم اس وقت تک دکھ اور تکلیفوں کو کم نہیں کر سکتے جب تک ہم اپنے حواسوں پر غالب نہیں آجاتے۔‘

—عبدالستار ایدھی (اے مرر ٹو دی بلائنڈ سے اقتباس)

وہ نڈر تھے

ایدھی صاحب ان مقامات پر بھی جانے سے نہیں ہچکچاتے جہاں دیگر جانے سے خائف رہتے۔ وہ قبائلی علاقوں کی راہ گزر ٹنک بھی گئے جہاں طالبان انہیں قتل بھی کرسکتے تھے مگر بجائے ایسی کسی بات کے طالبان نے کھلی باہوں کے ساتھ ایدھی صاحب کا استقبال کیا۔

ایدھی صاحب نے انہیں اسلامی تعلیمات کے منافی پرتشدد طرز زندگی کو ترک کرنے کا کہا۔ طالبان نے انہیں خدائی فقیر پکارا، انہوں نے ایدھی صاحب کو انتہائی احترام سے سنا اور پھر انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا۔

ایدھی صاحب کی زندگی کے ذاتی سانحات

ایدھی صاحب کی آپ بیتی میں تحریر ہے کہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا سانحہ ان کے محبوب نواسے بلال کی وفات تھی۔ جب سینٹر کی ایک رضاکار نے نہلاتے وقت ان پر کھولتا پانی ڈال دیا جس سے جل کر وہ انتقال کرگئے۔ اس حادثے سے پہنچنے والے شدید صدمے کے باوجود انہوں نے اپنا دل مضبوط کیے رکھا اور جس عورت نے ان کے نواسے کو مارا تھا اسے اپنی پناہ گاہ سے نکالنا گوارا نہ کیا۔

لیکن جس واقعے نے انہیں بکھیر دیا وہ تھا اکتوبر 2014ء میں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے سینٹر میں ہونے والی ڈکیتی۔

عبدالستار ایدھی کی موجودگی آپ کو مستقبل کے لیے ایک امید بندھا دیتی تھی کیونکہ ان کا پختہ یقین تھا کہ امداد دینے کے حوالے سے پاکستانیوں سے زیادہ سخی اور کوئی نہیں اور پاکستان جیسی عظیم جگہ پوری دنیا میں نہیں ہے۔

اب جبکہ وہ وفات پاچکے ہیں تو اب یہ ہر ایک پاکستانی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عظیم انسان دوست کی جلائی ہوئی شمع کو روشن رکھیں۔

ایدھی کو بھی پاکستان کے لوگوں سے صرف یہی توقع وابستہ ہوگی۔

 

پاکستان میں انتخابات کا المیہ

$
0
0

تحریر: مجاہد بریلوی

قیامِ پاکستان کے بعد بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے انتخابات بدقسمتی سے23سال بعد ہوئے۔ مزید بدقسمتی یہ کہ وہ بھی وطنِ عزیز کو دولخت کرگئے۔ اور پھر اس سے بھی بڑا المیہ یہ کہ بعد کے برسوں میں کوئی بھی الیکشن ایسا نہ تھا جو کسی بڑے بحران اور بھونچال کا باعث نا بنا ہو۔ مارچ 1969ء میں جب صدر جنرل ایوب خان اقتدار سے دستبردار ہو رہے تھے تو 1962 کے آئین کے تحت وہ اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی کو قائم مقام صدر کے عہدے پر فائز کرسکتے تھے مگر جس غاصبانہ انداز میں وہ 8 اکتوبر 1958ء کو اقتدارمیں آئے، اسی روایت پر چلتے ہوئے جنرل یحییٰ خان بھی صدر ایوب خان سے اقتدار چھین کر اقتدار اعلیٰ کے مالک و مختار بن گئے۔

معتبر مؤرخین کا کہنا ہے کہ جنرل یحییٰ خان کا خیال تھا کہ مغربی اور مشرقی پاکستان میں جو نتائج آئیں گے، اس میں صرف ایک ہی بات پر اتفاق ہوگا، اور وہ ان کا یعنی جنرل یحییٰ خان کا صدر مملکت بننا۔

مگر جنرل یحییٰ خان اور ان کے ٹولے کو یہ علم نہ تھا کہ ہر الیکشن کی اپنی ایک حرکیات ہوتی ہیں۔ بھٹو صاحب کا پنجاب میں اکثریت سے قومی و صوبائی اسمبلی میں کامیاب ہونا محض تبدیلی نہیں ایک انقلاب تھا، روایتی جاگیردارں اور وڈیروں کے خلاف۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کو جو کامیابی ملی وہ بھی ایک شدید ردعمل تھا، اسلام آباد کے حکمرانوں کے خلاف اور صوبائی خود مختاری کے لیے۔

آگے بڑھنے سے پہلے ذرا 1970ء کے انتخابات پر ایک نظرڈال لیں۔ 1970ء میں قومی اسمبلی کی 300 نشستوں میں سے عوامی لیگ نے 160 (ساری کی ساری مشرقی پاکستان سے حاصل کی گئیں) اور پیپلزپارٹی نے 81 ( صرف مغربی پاکستان سے) نشستیں حاصل کیں۔ یقیناً یہ ایک صاف و شفاف الیکشن تھے، مگر اسلام آباد میں بیٹھی سویلین و فوجی نوکر شاہی کی نیت میں ابتداء ہی سے فتور تھا۔

دوسری بات یہ کہ عوامی لیگ کے قائد اتنی عظیم الشان کامیابی کے بعد مغربی پاکستان سے ابھرنے والی دوسری سیاسی قوت کو شریکِ اقتدار نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بظاہر 1970 کے اس خونی کھیل کے تین بڑے فریق تھے۔ جنرل یحییٰ خان، شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو۔ مگر ان تینوں کے اپنے اپنے مفادات تھے۔ اپنی اپنی ذات اور ہوس اقتدار۔

مگر یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اس کا موقع فراہم کرنے میں یحییٰ خان کے فوجی ٹولے کا ہاتھ بھی تھا اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کا بھی جنہوں نے مشرقی پاکستان میں فوج کشی پر ‘خدا کا شکر’ ادا کیا تھا۔ 1970ء کے الیکشن نے ملک کو دولخت کیا تو اپریل 1979 میں پاکستانی سیاست کے سب سے سحر انگیز قائد کو ہی پھانسی کے تختے پر چڑھایا گیا۔

پہلے متفقہ آئین کی تشکیل، اسلامی سربراہی کانفرنس اور اس سے بھی بڑھ کر پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا ذوالفقار علی بھٹو کا ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ بھٹو صاحب نے اپنے ان کارناموں کے سبب تاریخ میں اپنا مقام محفوظ کرلیا ہے۔ بدقسمتی سے بھٹو صاحب کے ان تمام عظیم الشان کارناموں کا جن کا میں نے ذکر کیا۔ بھٹو صاحب ایک اسٹیٹس مین ہونے کے باوجود اپنے اندر کے فیوڈل سے جان نہ چھڑا پائے۔

بھٹو صاحب اپنے اقتدار کے پہلے ہی سال میں اپنی سیاسی جدوجہد کے پرعزم، نظریاتی ساتھیوں سے محروم ہوتے گئے جنہوں نے پارٹی کے قیام کے لیے اپنا خون پسینہ دیا۔ 76-1975 کے آس پاس دیکھا جائے تو چاروں صوبوں میں ان کے گورنر اور وزرائے اعلیٰ وہی موقع پرست سردار، نواب ،جاگیردارتھے جو بنیادی طور پر پیپلز پارٹی کے منشور کے بدترین مخالفین میں سے تھے۔

بھٹو صاحب ایسی سویلین اور ملٹری نوکر شاہی کے نرغے میں بھی آچکے تھے کہ جو ہر دور کے حکمرانوں کے آگے سر بسجود ہوتے ہیں۔ یوں مارچ 1977 کے الیکشن کے آتے آتے ذوالفقار علی بھٹو کے پیروں سے وہ زمین نکل چکی تھی جہاں کبھی عوام کا جم غفیر انہیں آسمان پر اٹھا لیتا تھا۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ بھٹو صاحب کے خلاف بننے والے پاکستان قومی اتحاد کے پیچھے پنڈی اور آب پارہ بھی تھا اور امریکہ بہادر کی بدنام زمانہ ایجنسی سی آئی اے کے اہلکار بھی۔

بھٹو صاحب نے اپنی کتاب If I am Assassinated میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جس دن انہوں نے مارچ 1977 کے الیکشن کا اعلان کیا اُس سے کچھ ہی دیر پہلے ان کے ایک وزیر رفیع رضا بڑی عجلت میں اُن سے ملنے آئے۔ بھٹو صاحب لکھتے ہیں کہ رفیع رضا کا چہرہ سپاٹ حد تک سفید تھا۔ رفیع رضا نے بھٹو صاحب سے کہا، “آپ یہ الیکشن ملتوی کردیں کیونکہ دونوں صورتوں میں آپ کو زندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔”

بھٹو صاحب رفیع رضا کو اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ انہیں کس کا پیغام دے رہا ہے۔ الیکشن کروانے کا تیر ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ اور پھر مارچ 1977 الیکشن میں جو کچھ انہوں نے کیا یا اُن سے ہوا وہ اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے ہی مترادف تھا۔ 1977ء کے الیکشن میں کل نشستیں 200 تھیں جن میں انتخاب سے پہلے ہی پیپلز پارٹی کے 19 ارکان بلا مقابلہ منتخب ہوگئے۔

آج بھی غیر جانبدار مؤرخین و مبصرین کا کہنا ہے کہ بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی باآسانی سادہ اکثریت سے یہ الیکشن جیت سکتی تھی۔ اس انتخاب میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 155، پاکستان قومی اتحاد نے 36، اور آزاد امیدواروں نے 8 نشستیں جیتی تھیں۔ مارچ سے جولائی تک 4 ماہ میں جو تحریک چلی اس نے بھٹو صاحب کا دھڑن تختہ کر دیا اور اس کے بعد پوری ایک دہائی تک قوم انتخابات کا منہ نہ دیکھ سکی۔

جنرل ضیاء الحق کی پوری ایک دہائی کی فوجی آمریت کے بعد ہونا تو یہ تھا کہ ملکی سیاسی جماعتیں ماضی کی تاریخ سے سیکھتے ہوئے مستحکم جمہوری اداروں کی بنیاد رکھتیں۔ مگر ایک تو ضیاء آمریت کی باقیات سیاسی طور پر ایک بڑی قوت بن چکی تھی، پھر بدقسمتی سے جو پیپلز پارٹی ایک طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد 1988 کے الیکشن میں اقتدار میں آئی، اس کی پہلی ترجیح بھی ہر صورت میں اقتدار کے ثمرات سے مستفیض ہونا تھا۔

نومبر 1988 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو 94 نشستیں ملی تھیں اس کے مقابل اسٹیبلشمنٹ کے کھڑے کیے گئے اسلامی جمہوری اتحاد کو ملنے والی نشستوں کی تعداد 64 تھی۔ پیپلز پارٹی کے اس وقت کے سرکردہ نظریاتی رہنماؤں کا خیال تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو صدر غلام اسحاق خان کی شرائط پر اقتدار لینے کے بجائے اسے ٹھکرا دینا چاہیے، مگر ایک دہائی کی شدید مار کے بعد جیالے مزید کوئی قربانی دینے اور آئندہ انتخابات تک کا انتظار کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔

پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کو صدر غلام اسحاق خان نے محض 18 ماہ میں لپیٹ دیا اور اس میں بھی جنہوں نے سب سے زیادہ ہاتھ بٹایا وہ ہمارے آج کے سب سے بڑے جمہوری چیمپیئن نواز شریف تھے۔ 90 کی دہائی کو پاکستانی سیاست میں Sham Democracy کے نام سے یاد کیا جائے گا، اور اس کی ذمہ دار بھی دونوں ہی مرکزی دھارے کی جماعتیں ہیں، یعنی ن لیگ اور پی پی پی۔

دوسری بار میاں نواز شریف جب 1997 میں اقتدار میں آئے تو انہیں اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی جس سے وہ با آسانی اپنی مدت پوری کر سکتے تھے۔ مگر ساڈا صدر، تے ساڈا جج کے ساتھ ساڈے جنرل کو بھی قابو لانے کے چکر میں محترم میاں صاحب بم کو لات مار بیٹھے۔ نتیجہ اکتوبر 1999 کا وہ فوجی انقلاب تھا جس نے جنرل مشرف کو ایک طویل عرصے تک اس بد قسمت ملک پر مسلط کر دیا۔

اکتوبر 1999 میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو نکال باہر کرنے اور اُس کے قائد میاں نواز شریف کو لمبی سزائیں دلوانے کے بعد پاکستان کی تاریخ میں آنے والے چوتھے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے سر میں بھی سودا سما گیا کہ وہ پاکستانی قوم کے لیے ایک بہتر نجات دہندہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اُس وقت اعلیٰ عدالتوں نے محترم جنرل صاحب کو ایک نہیں، دو نہیں، بلکہ پورے تین سال کے لیے آئینی طور پر مطلق العنان حکمراں بننے کا موقع بڑی آسانی سے فراہم کر دیا۔

محترم میاں صاحب اپنے رفقاء سمیت جیل میں تھے اور اُن کی مخالف اپوزیشن جماعتیں بشمول پاکستان پیپلز پارٹی شادیانے بجا رہی تھیں۔ یہ درست ہے کہ ہمارے جنرل صاحب کی پہلی ٹیم نیک، شریف، اور پرعزم مشیروں وزیروں پر مشتمل تھی۔ پھر سال بھر ہی میں میاں نواز شریف بھی حوصلہ ہار بیٹھے اور باقاعدہ لکھ کر 10 سال کی توبہ کا معاہدہ کر کے اپنے دوست وطن یعنی جدّہ سدھار گئے۔

بے نظیر بھٹو کے بیرون ملک ہونے کے سبب پیپلز پارٹی اتنی مظبوط نا تھی کہ کوئی بڑا چیلنج ثابت ہوتی۔ یوں جنرل پرویز مشرف نے 2002 میں الیکشن کروائے اور وہ ان کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہی ہوئے۔ مگر عسکری امور کے تمام اسرار و رموز کا پختہ تجربہ رکھنے والے جنرل کو سیاست کی ڈائنامکس یعنی حرکیات سے آشنائی نہ تھی کہ یہ وہ میدان ہے جہاں بقول شاعر

یہاں پگڑی اچھلتی ہے

اسے میخانہ کہتے ہیں

مسلم لیگ ن کے بطن سے پیدا ہونے والی ق لیگ سے جنرل صاحب نے 2002 کے الیکشن کے ذریعہ سویلین کیپ سر پر سجا لی، مگر 273 کی قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت لانا جنرل صاحب کی ٹیم کے لیے لوہے کے چنے چبانے کے مترادف تھا۔ ق لیگ کے بعد پی پی میں بھی نقب لگائی گئی اور محض ایک ووٹ سے بلوچستان کے ایک سرکردہ شریف سردار محترم ظفر اللہ خان جمالی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر بیٹھے، مگر سال گزرنے سے پہلے ہی جمالی صاحب کی شنوائی آگئی اور یوں بیرون ملک برسوں سے مالیاتی اداروں سے تربیت یافتہ محترم شوکت عزیز کے سر پہ وزارت عظمیٰ کا ہُما سجا۔

اس دوران 11/9 ہو چکا تھا، افغان جنگ کا جو طبل بجا اس نے ایک بار پھر وطن عزیز کو 80 کی دہائی میں دھکیل دیا، مگر اس بار کھلاڑی اور کپتان مختلف تھے۔ جنرل صاحب نے پانچ سال تو گزار دیے مگر مغرب بالخصوص امریکی دباؤ اتنا تھا کہ ہمارے محترم جنرل صاحب کو این آر او کے ذریعہ پیپلز پارٹی اور بے نظیر بھٹو کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔

دسمبر 2007 کا الیکشن اس منظم، مربوط حکمت عملی کے تحت ہی ہونا تھا مگر دوسری طور پر القاعدہ، طالبان، کی صورت میں جنگجوؤں کی فوج یہ کس طرح برداشت کر سکتی تھی کہ ایک مقبول عوامی جماعت عسکری قوت سے ہاتھ ملا کر، کہ جو اس وقت کی ضرورت بھی تھی، اسلام آباد میں ایک مستحکم جمہوری سسٹم کی بنیاد رکھتی؟

محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت دراصل ہمارے جنرل پرویز مشرف کے زوال کا آغاز تھی تو دوسری طرف دبئی میں برسوں سے براجمان اقتدار کی منہ زور خواہش رکھنے والے محترم آصف زرداری کی لاٹری کھلنے کا وقت آ پنہچا تھا۔ 2008 کے الیکشن کا انعقاد، اور اس میں پیپلز پارٹی کا اقتدارمیں آنا معجزہ نہیں تھا، مگر ایک دہائی سے بیرون ملک علاج معالجے میں گھرے محترم آصف علی زرداری کا صدر مملکت بننا یقیناً ایک بڑا سیاسی معجزہ تھا۔

اور پھر اس سے بھی بڑھ کر تمام تر دشنام طرازیوں اور کرپشن کے سنگین الزاموں کے باوجود پانچ سالہ مدّت پوری کرنے کے بعد یقیناً کھلاڑیوں کا کھلاڑی ہونے کا لقب اُن کی شخصیت پر پوری طرح جچتا ہے۔ 2013 میں مسلم لیگ ن کی دو تہائی اکثریت سے جیت اور ایک صوبے کے علاوہ تینوں صوبوں میں صفایا، اور پھر تحریک انصاف کا تیسری بڑی قوّت بن کر سامنے آنا حال ہی کی تاریخ ہے۔

محترم میاں نواز شریف نے 14 سال اقتدار سے باہر رہ کر گزارے، جلاوطنی کی سختیاں بھی جھیلیں اور پھر پانچ سال اقتدار کے ثمرات سے دونوں ہاتھوں سے مستفیض بھی ہوئےْ تیسری بار وزارت عظمیٰ ہی نہیں، سیاست سے بھی باہر کیے جا رہے تھے تو اسلام آباد میں آہ و زاریاں کرنے والے ہزاروں تو چھوڑیں سینکڑوں بھی نہیں تھے۔

بد قسمتی سے آج جب پاکستانی قوم گیارہویں الیکشن میں جا رہی ہے تو اُس کی امید کی آخری کرن کہیں اور نہیں ابھی بھی پنڈی سے ہی پھوٹتی نظر آتی ہے۔

کیا عمران خان بھٹو بن سکتے ہیں؟

$
0
0

تحریر: مجاہد بریلوی

کیا پاکستانی سیاست کے سب سے سحر انگیز سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کا تحریکِ انصاف کے سربراہ محترم عمران خان سے ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے موازنہ کیا جاسکتا ہے؟

ایک عرصے تک ہمارے خان صاحب بھٹو صاحب کی عوامی سیاست کو سراہتے رہے مگر انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھٹو صاحب کا مقام کبھی نہیں بخشا بلکہ حالیہ دنوں میں اُن کے شوہر آصف علی زرداری اور اُن کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کا تذکرہ بڑے ہی تضحیک آمیز انداز میں کرتے رہے۔

وزارتِ عظمیٰ کا تاج سر پر رکھنے کے بعد کیا وہ اُن کا اندازِ سیاست اپنائیں گے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستانی سیاست کے اس دوسرے بڑے رہنما کو کیا کوئی مقام دیں گے؟ اس پر گفتگو ذرا بعد میں۔

تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ دونوں کو ہی اپنی نوجوانی میں اپنے اپنے شعبوں کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت ملی اور ہاں پاکستانی سیاست میں 2 ہی ایسے بڑے سیاستدان ہیں جن پر Ladies Man کا جملہ سجتا ہے۔

5 جنوری 1928ء کو پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کی زمین تقسیم سے پہلے ہی کوسوں میل پر پھیلی ہوئی تھی، مگر ایک فیوڈل شہزادہ ہونے کے باوجود انہوں نے مغرب کی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور وطن واپسی پر ایک وکیل کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔

50ء کی دہائی کا کراچی نائٹ کلبوں اور ریس کورسوں کا شہر کہلاتا تھا۔ اسکندر مرزا کراچی میں ایوانِ صدر میں براجمان ہوچکے تھے جن کی ایرانی نژاد بیگم ناہید مرزا ایوانِ صدر میں ’ایرانین نائٹس‘ سجاتی تھیں۔ بھٹو صاحب ان محفلوں کی جان ہوتے تھے، پس اُن کی ملاقات نصرت سے ہوئی جو اُن کی بعد میں دوسری بیگم بنیں۔

اسکندر مرزا کے بعد صدر ایوب خان کی کابینہ میں نوجوان بھٹو نے اپنی علمیت اور انگریز دانی سے جلد ہی منفرد مقام بنالیا۔ پہلے پانی اور بجلی کے وزیر اور پھر صرف 36 سال کی عمر میں وزارتِ خارجہ کا منصب سنبھالا۔ بھٹو صاحب کو 1965ء کی جنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے کہ انہوں نے آپریشن ’جبرالٹر‘ پلان کیا جس کے سبب بھارت کو پاکستان پر حملے کا موقع ملا۔

65ء کی جنگ میں روسی مداخلت سے دونوں روایتی دشمن برابر جھٹ گئے مگر بھٹو صاحب کو تاشقند میں ہونے والا معاہدہ قبول نہ تھا۔ تاشقند ڈکلیریشن کی مخالفت اور سلامتی کونسل میں اُن کی تقریروں نے راتوں رات انہیں پاکستانی عوام کا ہیرو تو بنا ہی دیا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساری دنیا میں بھی اُن کی شہرت کا ڈنکا بجنے لگا۔

ایوب خان کی حکومت سے علیحدگی اُن کی سیاسی زندگی کا پہلا بڑا امتحان تھا جس پر وہ پورے اترے۔ نومبر1967ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور محض 3 سال بعد ہی صرف 44 سال کی عمر میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ اُن کا 5 سالہ دورِ اقتدار اور پھر جولائی 1977ء میں اقتدار سے علیحدگی اور اپریل 1979ء میں پھانسی پانے کے بعد آج بھی وہ اپنی قبر سے کروڑوں عوام کے دلوں پر راج کر رہے ہیں۔

دوسری طرف تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان سیاست نہیں بلکہ کرکٹ کے میدان کے کھلاڑی تھے مگر دیگر پاکستانی کھلاڑیوں سے مختلف۔ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ، لندن کی ایسٹ سوسائٹی میں Play Boy اور پھر پاکستانی کرکٹ ٹیم کو پہلی بار ورلڈ کپ دلا کر عمران خان بھی بھٹو صاحب کی طرح پاکستان کے کروڑوں عوام کے ہیرو بن گئے۔

شوکت خانم ہسپتال نے اُن کی شہرت کو چار چاند لگائے مگر سیاست اُن کا میدان نہ تھا۔ پہلی بار 1997ء میں عملی سیاست میں آئے تو وہ 12ویں کھلاڑی تھے۔ 2002ء کی انتخابی شکست کے بعد کوئی اور ہوتا تو لندن میں جا کر پناہ لے لیتا مگر اُن کے اندر کا کھلاڑی ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی چین سے نہیں بیٹھا۔ 2008ء میں انتخابی بائیکاٹ کے بعد 2013ء میں خیبرپختونخوا میں شاندار کامیابی اُن کی وزارتِ عظمیٰ کے لیے پہلی سیڑھی بنی اور پھر 25 جولائی 2018ء کو اُنہیں 23 سال کی سیاست کا ثمر ملا اور اب یہی وہ دن اور وقت ہے جہاں سے اُن کے سیاسی امتحان کا آغاز ہوتا ہے۔

بھٹو صاحب محض ایک سیاستدان نہیں اسٹیٹمین تھے، اس حیثیت میں انہوں نے اپنا لوہا ساری دنیا میں منوایا جبکہ عمران خان کے اندر کا کھلاڑی ابھی تک اُن کے اندر سے نہیں نکلا۔ اُن کے اردگرد نو آموز سیاسی کھلاڑیوں یا پھر مقامی روایتی سیاستدانوں کا ایک گروپ ہے جو اُن کو ایک مزید عظیم سیاسی رہنما بننے سے روکے ہوئے ہے۔

بھٹو صاحب کو تاریخ کا ادراک تھا، کتب بینی کے بے انتہا شوقین تھے، اپنی علمیت، قابلیت کا لوہا منوانا جانتے تھے۔ ڈاکٹر ہنری کسنجر جیسے شاطر وزیرِ خارجہ نے مشہور صحافی اوریانا فلاسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ دنیا میں جن چند شخصیات سے متاثر ہیں، بھٹو اُن میں سے ایک ہیں۔

لیکن دونوں کے ماضی اور حال کو دیکھنے کے بعد معذرت کے ساتھ کہنے دیجیے کہ عمران خان کو وزیرِ اعظم بننے کے باوجود بھٹو صاحب کے گرد تک پنہچنے کے لیے بھی ایک طویل عرصہ درکار ہے اور بدقسمتی یہ کہ عمر کے اس حصے میں شاید وہ وہاں تک پنہچ نہ پائیں۔

’’ وزارت عظمیٰ ‘‘ عمران خان کے 22 سالہ سیاسی سفر کی پہلی منزل

$
0
0

کرکٹر عمران خان سے وزیراعظم عمران خان تک، کہنے کو یہ بائیس برس کا سیاسی سفر ہے، تاہم  25 اپریل 1996ء کو قائم ہونے اور 25 جولائی 2018ء کو منعقدہ عام انتخابات میں  سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرنے والی تحریک انصاف کے سربراہ  کا کہنا ہے کہ  یہ پانی پت کی لڑائی تھی۔ اس لڑائی کا پہلے دن سے احوال سن لیجئے۔ سن1997ء کے عام انتخابات میں عمران خان  نے لاہور کے حلقہ این اے 94 اور میانوالی کے حلقہ این اے53سے انتخاب لڑا لیکن کسی بھی حلقے سے جیت نہ سکے۔ انتخابی نتائج کے مطابق ان کی جماعت نے ملک بھرمیں مجموعی طور پر314,820  ووٹ حاصل کئے۔

انتخابات2002ء میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان کے متعدد حلقوں سے انتخاب لڑا ، عمران خان کا اندازہ تھا کہ ان کی جماعت  انتخابات جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، تاہم اس قدر سیٹیں حاصل کرلے گی کہ کسی دوسری جماعت کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے میں ضرور کامیاب ہوجائے گی لیکن  انتخابی نتائج سامنے آئے تو عمران خان کے علاوہ ، تحریک انصاف کا کوئی امیدوار کامیاب نہ ہوسکا۔ یوں تحریک انصاف ایک سیٹ کے ساتھ قومی اسمبلی میں داخل ہوگئی لیکن  اس کے مجموعی ووٹ بنک میں خاصی کمی واقع ہوئی۔ انتخابی نتائج کے مطابق اسے پورے ملک میں صرف 137,383  ووٹ ملے۔

2008ء میں تحریک انصاف نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا البتہ 2013ء میں وہ ووٹوں کے اعتبار سے ملک کی دوسری اور اسمبلی میں نشستوں کی بنیاد پر تیسری بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ تحریک انصاف نے 76لاکھ 79ہزار954 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ پیپلزپارٹی نے 69 لاکھ11ہزار218 ووٹ حاصل کئے، تحریک انصاف کی قومی نشستیں 28جبکہ پیپلزپارٹی کی33 تھیں۔ ان انتخابات کے نتیجے میں  صوبہ خیبرپختونخوا میں اکثریت حاصل کرنا عمران خان کی بڑی کامیابی تھی ۔ ان کی جماعت نے99کے ایوان میں 39نشتیں حاصل کیں اور جماعت اسلامی، قومی وطن پارٹی، کچھ آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر حکومت قائم کرلی۔

تیزی سے بڑھتی ہوئی عوامی حمایت کے پیش نظر عمران خان کو مکمل یقین تھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی تیزی سے غیرمقبول ہورہی ہیں،  وہ عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات بھی نہیں کررہی ہیں ، اس لئے انھیں کوئی شک نہ رہا کہ وہ اگلے انتخابات ضرور جیتیں گے۔ اس کے لئے عمران خان نے دو نکات پر مشتمل حکمت عملی وضع کی۔

اولاً مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو عوام کی نظروں سے گرانے کے لئے مختلف ایشوز پر آواز بلند کی جائے، گزشتہ پانچ برسوں کے دوران میں انھوں نے مسلم لیگ ن کی حکومت کو خصوصیت کے ساتھ اپنی تنقید کا نشانہ بنایا، اس پر الزام عائد کیا کہ وہ دھاندلی کی پیداوار ہے اور پھر اسے بدعنوان بھی قراردیا۔ اس کے لئے انھوں نے عوام کو سڑکوں پر نکالا، اسلام آباد کی راہ دکھائی اور وہاں یکے بعد دیگرے دھرنے دے کر مرکز اور بڑے صوبہ پنجاب کی حکمران جماعت کوشدیدمشکلات کا شکار کیا۔ ان کی حکمت عملی کا دوسرا نکتہ خیبر پختون خوا حکومت تھی کہ اسے اس اندازمیں چلایاجائے کہ عوام کی توجہ عام انتخابات 2018ء میں تحریک انصاف ہی کی طرف مبذول ہو۔

تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس کی خیبرپختونخوا حکومت نے متعدد کامیابیاں حاصل کیں ، مثلاً صوبے میں ایک بااختیار بلدیاتی نظام قائم کیا جس کی آزادحلقوں نے بھی تعریف کی کہ یہ  نظام سب صوبوں میں سب سے بہترین ہے، صوبہ کے پرائمری سکولوں کے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور اساتذہ کی بھرتی اور ٹریننگ میں تحریک انصاف کی حکومت باقی صوبائی حکومتوں کی نسبت آگے رہی۔ اسی طرح ’صحت سہولت پروگرام‘ کے تحت دیا جانے والے  صحت کارڈز ایک بہترین اقدام تھا جس کے ذریعے  صوبہ کے50 فیصد گھرانوں کو مفت  بہترین علاج معالجہ کی سہولت ملی۔

تحریک انصاف کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے صوبہ خیبرپختون خوا میں پولیس کو مکمل غیرسیاسی بناکر آزاد، بااختیار اور عوام دوست بنایا۔’بلین ٹری سونامی پرجیکٹ‘ کے نام سے ایک ارب درخت لگانے کا منصوبہ مکمل کیا، اس پراجیکٹ کی ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ سمیت متعدد عالمی اداروں نے تصدیق اور تعریف کی کہ یہ  ماحولیات کے تحفظ اور موسمی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کیلئے ایک انقلابی قدم تھا۔ ورلڈ اکانومک فورم نے اس پروگرام کو مثالی قرار دیا۔ اگرچہ تحریک انصاف کی خیبرپختون خوا حکومت آئیڈیل نہ تھی تاہم اس نے دیگرصوبائی حکومتوں کی نسبت بہترڈیلیورکیا، جس کی وجہ سے2018ء کے انتخابات میں اس نے مرکز اور چاروں صوبوں میں گزشتہ انتخابات کی نسبت کہیں زیادہ عوامی حمایت حاصل کرلی۔

حالیہ انتخابات کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف نے ایک کروڑ68لاکھ 84 ہزار266 ووٹ حاصل کئے جبکہ دوسرے نمبر پر مسلم لیگ ن رہی جسے ایک کروڑ 29لاکھ30ہزار117ووٹ ملے۔ پیپلزپارٹی کے ووٹ 69لاکھ13ہزار466ہیں، وہ ووٹوں اور نشستوں، دونوں اعتبار سے تیسرے نمبر پر رہی۔ تحریک انصاف نے دیگرجماعتوں پر سبقت حاصل کرکے قبل ازانتخاب ہونے والے رائے عامہ کے متعدد جائزوں کو غلط ثابت کردیا۔

یادرہے کہ نو میں سے سات جائزوں میں کہاگیاتھا کہ کامیابی مسلم لیگ ن کو ملے گی،  مسلم لیگ ن  26سے38 فیصد جبکہ تحریک انصاف 23سے29فیصد ووٹ حاصل کرے گی۔ انتخابی نتائج  رائے عامہ کاجائزہ لینے والوں کے اندازوں اور سیاسی جماعتوں(تحریک انصاف کے علاوہ) کی امیدوں سے بہت زیادہ مختلف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، متحدہ مجلس عمل، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیوایم سمیت دس سیاسی جماعتیں انتخابات کو دھاندلی زدہ قراردے کر نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کررہی ہیں۔

جن دنوں میں نئے اپوزیشن کیمپ سے ازسرنوانتخابات یا ملک بھر کے حلقے کھولنے کی آوازیں بلندہورہی تھیں، عمران خان اپنی رہائش گاہ بنی گالہ میں اس سوال کا جواب مرتب کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ کس اندازمیں حکمرانی کریں گے؟ ان کا کہناہے:’’ہم اپنی حکومت کے پہلے100 دنوں میں وہ کام کریں گے جن سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا وجود منتشر ہوجائے گا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ وہ کن خطوط پر حکمرانی کریں گے؟ کیا وہ اپنے دعووں پر پورا اترسکیں گے؟ آئیے! ان سوالات کا جوابات مرتب کرتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے پہلے عمران خان کے نظریات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

٭عمران خان کا نظریہ حکومت اور گیارہ نکات

عمران خان پہلے دن سے بہت تیقن سے کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم پاکستان کو فلاحی ریاست بنائیں گے‘‘ اور ’’ہمارا نظریہ مدینہ کی ریاست کا نظریہ ہوگا۔‘‘ ان کی اکثر گفتگوئیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ وہ ریاست مدینہ کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں اور اسی سے روشنی حاصل کرتے ہوئے اپنی پالیسیاں ترتیب دیں گے۔ ان کا کہناہے کہ ’’قابلیت اور اہلیت ریاست مدینہ کا اہم جزو تھا اور قانون کی بالادستی ریاست مدینہ کا دوسرا اہم جزو تھا۔‘‘  عام انتخابات 2018ء کی انتخابی مہم شروع کرتے ہوئے انھوں نے قوم کے سامنے مندرجہ ذیل گیارہ نکات پیش کئے، انھیںتحریک انصاف کے منشور کا خلاصہ قرار دیاجاسکتا ہے:

1۔ قوم کو ایک بنانے کیلئے ایک تعلیمی نصاب لائیں گے۔

2۔ عوام کیلئے ہیلتھ انشورنس لے کر آئیں گے۔

3۔ ٹیکس سسٹم ٹھیک کریں گے اور 8 ہزار ارب روپے ہر سال قوم سے اکٹھا کرکے ملک کو قرضے سے نجات دلائیں گے۔

4۔ نیب کو مضبوط کرکے کرپشن کا خاتمہ کریں گے۔

5۔ سرمایہ کاری میں اضافہ کریں گے۔

6۔ لوگوں کو روزگار دیں گے اور 50 لاکھ سستے گھر بنائیں گے۔

7۔ پاکستان کو ٹورازم کا حب بنائیں گے، جس کے ذریعے بے روزگاری ختم ہوگی۔

8۔ شعبہ زراعت میں اصلاحات لائیں گے تاکہ کسان کی حالت بہتر ہو۔

9۔ وفاق کو مضبوط اور صوبوں کو حقوق دیں گے، جنوبی پنجاب کو نیا صوبہ بنائیں گے ۔

10۔ ماحولیات کا سسٹم بہتر کریں گے، پاکستان بھر میں 10 ارب درخت لگائیں گے۔

11۔ انصاف اور پولیس کا نظام بہتر کریں گے۔

٭ پہلے 100دنوں کا پروگرام

انتخابات سے چند روز قبل عمران خان نے اقتدارمیںآنے کی صورت میں پہلے100دنوں کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا:’’ہماری حکومت کے ابتدائی 100 روز پارٹی کی عکاسی کریں گے کہ پارٹی کس راستے پر گامزن ہے‘‘۔  اپنے اس منصوبے میں انھوں نے کس قسم کے عزائم اظہارکیاتھا، آئیے! ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔

تحریک انصاف نے حالیہ انتخابات سے قبل پہلے 100 روز کے دوران جو اقدامات کرنے کا اعلان کیاتھا، اسے چھ نکاتی ایجنڈے کا نام دیاگیاتھا جس میں طرزِ حکومت کی تبدیلی  کواولین ترجیح قراردیاگیاتھا۔اسکے علاوہ معیشت کی بحالی، زرعی ترقی اور پانی کا تحفظ، سماجی خدمات میں انقلاب، پاکستان کی قومی سلامتی کی ضمانت وغیرہ شامل ہیں۔ سول سروس میں اصلاحات لائی جائیں گی اور پولیس کو میرٹ کی بنیاد پر غیر سیاسی بنایا جائے گا۔ پی ٹی آئی حکومت اپنے ابتدائی 100 روز میں نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کرے گی اور نچلے طبقے کو اوپر لایا جائے گا۔ پاکستان میں دنیا بھر کی طرح گلوبل وارمنگ کا خطرہ ہے، ملک سے جنگلات کا تیزی سے خاتمہ ہورہا ہے اور گرمی بڑھ رہی ہے، اس کا توڑ نکالنے کے لیے درخت لگانے ہوں گے۔

وفاقی کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کا خیبرپختونخوا میں انضمام کیلئے قانون سازی کی جائے گی اور یہاں پر تعمیر و ترقی کے لیے ایک بڑے منصوبے (میگا منصوبے) کا آغاز کیا جائے گا اور اس کے علاوہ فاٹا میں باقی تمام قوانین کو لاگو کرنے کا آغاز کیا جائے گا۔

بلوچستان میں بڑے پیمانے پر سیاسی مفاہمت کی کوششیں شروع کی جائے گی اور صوبے کا احساسِ محرومی ختم کرنے کے لیے صوبائی حکومت کو بااختیار بنایا جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ صوبے میں ترقیاتی منصوبوں خصوصاً گوادر میں جاری ترقیاتی عمل میں مقامی آبادی کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا۔

جنوبی پنجاب میں بسنے والے تین کروڑ 50 لاکھ افراد کو غربت کی دلدل سے نکالنے اور صوبوں کے مابین انتظامی توازن قائم کرنے کے بنیادی مقاصد کے تحت صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کے لیے قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا۔

کراچی کی بہتری کیلئے خصوصی منصوبہ بنایا جائے گا جس میں بہتر انتظامات، سیکیورٹی، انفراسٹرکچر، گھروں کی تعمیر، ٹرانسپورٹ کا نظام، کچرا اٹھانے کا بہتر انتظام اور پینے کے صاف پانی جیسی سہولیات مہیا کی جائیں گی۔

پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے پسماندہ اور غریب ترین اضلاع سے غربت کے خاتمے کے لیے جاری کاوشوں کو تقویت دینے کے لیے خصوصی پلان تیار کیا جائے گا۔

حکومت نوجوانوں کو روزگار  فراہم کرے گی اور پانچ برس کے دوران ایک کروڑ سے زائد نوکریاں پیدا کی جائیں گی، اور اس حوالے سے ملکی تاریخ کی سب سے زبردست حکمتِ عملی سامنے لائی جائے گی۔ تحریک انصاف اپنی اس پالیسی کے ذریعے ہنر دینے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔

پاکستان کی پیداواری صنعت کو عالمی منڈی میں مقابلے کی اہلیت سے آراستہ کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے کم ٹیکس، برآمدات پر چھوٹ اور اضافی سہولیات پر مبنی امدادی پیکج کا اعلان کیا جائے گا، اور مزدورں کی حفاظت لیے ایک لیبر پالیسی شروع کی جائے گی۔

نجی شعبے کے ذریعے پانچ سالوں کے دوران کم لاگت سے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے لیے ’وزیراعظم اپنا گھر پروگرام‘ شروع کیا جائے گا۔ اس پروگرام کے ذریعے صنعتی شعبے کو فروغ ملے گا، روزگار کے اسباب پیدا ہوں گے اور معاشرے کے غریب ترین طبقے کو چھت جیسی بنیادی سہولت میسر آئے گی۔

ملک میں موجود سیاحتی مقامات کو بہتر بنانے اور نئے مقامات کی تعمیر کے لیے نجی شعبے سے سرمایہ کاری کے لیے فریم ورک بنایا جائے گا۔

تحریک انصاف کی حکومت سرکاری گیسٹ ہاؤسز کو ہوٹلز میں بدلنے کا عمل شروع کرے گی، اور انہیں عوام کے لیے کھولا جائے گا جبکہ پہلے 100 دنوں کے دوران چار نئے سیاحتی مقامات دریافت کیے جائیں گے۔

حکومت ابتدائی 100 روز کے اندر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی سربراہی کے لیے ایک دلیر، قابل اور متحرک چئیرمین فوری طور پر مقرر کرے گی اور ادارے کے لیے اصلاحاتی پروگرام متعارف کرایا جائے گا۔

حکومت کاروبار کرنے کی عالمی رینکنگ میں 147ویں نمبر سے نیچے جانے والے پاکستان کو 100 کے اندر لے کر آئے گی اور پاکستان میں کاروبار کو آسان بنانے، سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے، غیر ملکی پاکستانیوں کی معیشت میں شمولیت کو بہترکرنے اور ملکی برآمدات میں قابلِ ذکر اضافے کے لیے وزیراعظم کی سربراہی میں ’کونسل آف بزنس لیڈرز‘ قائم کیا جائے گا۔

تحریک انصاف اپنے ابتدائی 100 ایام میں ریاستی اداروں کی تنظیمِ نو، ملک میں توانائی بحران کا خاتمہ کرنے کے لیے اقدامات، شہریوں اور صنعتکاروں کی مالی وسائل تک رسائی میں اضافہ، اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اقتصادی راہدی منصوبے کو حقیقتاً ایک انقلابی منصوبہ بنانا ہے۔

طرز حکومت میں تبدیلی کیلئے شفافیت پہلا قدم ہوگا۔ تحریک انصاف قومی احتساب بیورو (نیب) کو مکمل خود مختاری دے گی اور بیرونِ ملک محفوظ مقامات پر چھپائی گئی چوری شدہ قومی دولت کی وطن واپسی کے لے خصوصی ٹاسک فورس قائم کی جائے گی اور بازیاب کی گئی دولت غربت میں کمی لانے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں استعمال کی جائے گی۔ پختونخوا طرز کے بہتر بلدیاتی نظام کو پورے ملک میں لایا جائے گا، جس کے ذریعے اختیارات اور وسائل کی گاؤں کی سطح تک منتقلی کی راہ ہموار کی جائے گی۔

خیبرپختونخوا میں پولیس کی اصلاح کے کامیاب نمونے کی پیروی کرتے ہوئے تمام صوبوں میں قابل اور پیشہ وارانہ مہارت کے حامل انسپکڑ جنرلز کی فوری تعیناتی کے ذریعے پولیس کو غیر سیاسی اور بہتر بنانے کے عمل کا آغاز کیا جائے گا۔

زیر التواء  مقدمات کے خاتمے کا بندوبست کیا جائے گا، ایک برس کی مدت کے اندر تمام مقدمات کے تیز تر اور شفاف ترین فیصلوں کے لیے متعلقہ ہائی کورٹس کی مشاورت سے خصوصی طور پر تحریک انصاف کے ’جوڈیشل ریفارمز پروگرام‘ کا آغاز کیا جائے گا۔ حکومت کے پہلے 100 روز سے متعلق ایجنڈے میں وفاقی بیورو کریسی میں خالصتاً اہلیت و قابلیت کی بنیاد پر موضوع ترین افسران مقرر کریں گے۔

سول سروسز کے ڈھانچے میں کلیدی تبدیلی کے منصوبے کی تیاری کیلیے ’ٹاسک فورس‘ قائم کی جائے گی جو سرکاری افسران کی مدتِ ملازمت کے تحفظ اور احتساب کے طریقہ کار کے ذریعے بیورو کریسی کی ساکھ بہتر بنانے کے لیے قابل عمل تجاویز مرتب کرے گی، جس کے نتیجے میں ذہین اور قابلیت کے حامل افراد کو بیوروکریسی میں شمولیت کی ترغیب ملے گی اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ان کی خدمات کے حصول کا انتظام کیا جائے گا۔

حکومت اپنے ابتدائی 100 ایام میں کاشتکار کیلئے زراعت کو منافع بخش بنانے کیلئے زرعی ایمرجنسی کا نفاذ کرے گی، کسانوں کی مالی امداد اور وسائل تک رسائی میں اضافہ کیا جائے گا اور زرعی اجناس کے مناسب دام یقینی بنانے کے لیے منڈیوں اور ذخائر میں اضافے کی مہم شروع کی جائے گی۔ حکومت پاکستان کودودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات میں خود کفیل بنانے کا منصوبہ شروع کرے گی اور لاکھوں چھوٹے چھوٹے کسانوں کو بہتر کرنے کے لیے گوشت کی پیداوار کو بڑھانے پر ایک پروگرام متعارف کرایا جائے گا۔ حکومت دیامربھاشا ڈیم کی تعمیر میں تیزی کے لیے وزیراعظم کی سربراہی میں فوری طور پر ’نیشنل واٹر کونسل‘ قائم کرے گی، اور قومی سطح پر پانی کے بچاؤ کی کوششوں میں توسیع کے لیے قومی واٹر پالیسی سے ہم آہنگ منصوبہ مرتب کیا جائے گا۔

صحت اور تعلیم کے شعبے میں انقلاب برپا کرنے اور تحریک انصاف کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ حکومت پہلے 100 روز میں مفصل منصوبے مرتب کرے گی جس کے ذریعے واضح کیا جائے گا کہ کیسے تحریک انصاف کی حکومت پانچ سالوں میں صحت اور تعلیمی معیار، عوام کی ان تک رسائی اور ان کے انتظامِ کو بہترکرنے کویقینی بنائے گی۔ ’صحت انصاف کارڈ‘ کو پورے ملک میں موجود خاندانوں تک توسیع دی جائے گی۔

انکم سپورٹ پروگرام کو فوری طور پر 54 لاکھ خاندانوں سے بڑھا کر خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے80 لاکھ خاندانوں تقریباً چھ کروڑ پاکستانیوں تک توسیع دی جائے گی، جبکہ معذور افراد کے لیے خصوصی پروگرام شروع کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ خواتین کی ترقی اور بہبود، شہریوں کے لیے پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور ماحول کے تحفظ کے لیے شجر کاری کی جائے گی۔

حکومت اپنے 100 روزہ ایجنڈے کے مطابق وزارت خارجہ کی ادارہ جاتی استطاعت بشمول قانونی استطاعت، صلاحیت اور عالمی رسائی میں اضافے کے ذریعے وزارت کومضبوط بنانے کے عمل کا آغاز کیا جائے گا۔ حکومت میں آنے کے بعد قومی مفادات سے ہم آہنگ پالیسیوں کا آغاز کرے گی اور پاکستان کی ترجیحات کو مدنظر کھتے ہوئے مغربی اور مشرقی ہمسایوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے تنازعات کے حل کا کلیہ اپنایا جائے گا۔

حکومت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل کی منصوبہ بندی کے لیے کام کا آغاز کرے گی۔ علاقائی اور عالمی طور پر دو طرفہ اور کثیرالجہتی سطح پر پاکستان کی مطابقت میں اضافے کے لیے چین اور خطے میں پاکستان کے دیگر اتحادیوں کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کو توسیع دی جائے گی۔ خارجہ پالیسی کے ذریعے معیشت کی مضبوطی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، نیشنل سیکیورٹی آرگنائزیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور ساتھ ساتھ داخلی سیکیورٹی میں اضافہ کیا جائے گا۔

٭انتخابی نتائج کے بعد، توقعات

انتخابی کامیابی کے بعد عمران خان نے اپنے نومنتخب ارکان اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ روایتی سیاست نہیں کریں گے،میں پروٹوکول لوں گا نہ ہی شاہ خرچیاں کی جائیں گی، میں خود مثال بنوں گا اور آپ سب کو بھی مثال بننے کی تلقین کروں گا۔ ان کا کہناتھا کہ عوام ہم سے روایتی طرز سیاست و حکومت کی امید نہیں رکھتے، روایتی طرز حکومت اپنایا تو عوام ہمیں غضب کانشان بنائیں گے ، عوام آپ کے طرز سیاست اور کردار کے مطابق ردعمل دیں گے۔ ہم حکومت میں نہیں بلکہ جہاد کرنے آئے ہیں، ہمیں اپنے اخراجات کم کرناہوں گے۔ ان کا کہناتھا کہ کمیٹی بنا کر وزیراعظم ، صدر، وزیروں کے خرچے کم کریں گے۔ نیا پاکستان بنانا ہے، سب لوگوں کا احتساب ہوگا ، میرٹ پر وزیراعلیٰ اور وزیروں کا انتخاب میری ذمہ داری ہے، سب وزیروں کو ٹارگٹ دیں گے، وزیروں کو 9 بجے دفتر پہنچنا ہوگا۔

تحریک انصاف پانچ سالہ (صوبائی) حکومتی تجربے کے بعد اب وفاق اور دوصوبوں میں حکمرانی کرے گی، اس اعتبار سے یقیناً اس کی حکومتیں اپنے انتخابی وعدے پورے کرے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو اس وقت ایک مستحکم حکومت کی ضرورت ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت اپوزیشن سے الجھاؤ میں نہ پڑیں، یہ ایک بڑا چیلنج ہے، اگر وہ اس میں کامیابی حاصل کرتے ہیں تو  اس کا فائدہ ہوگا کہ وہ اپنے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے میں پوری طرح یکسو رہیں گے۔

ایسا نہ ہو کہ پانچ سال بعد تحریک انصاف والے کہیں کہ انھیں ڈسٹرب کیاگیا۔ اپوزیشن کا سب سے بڑا ایشو حلقے کھلوانا ہیں، انتخابی نتائج ابھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ عمران خان نے تمام حلقے کھلوانے کا وعدہ کیاتھا۔ اس وعدے پر عمل درآمد ضروری ہے بصورت دیگر اپوزیشن جماعتیں حکومت کو الجھانے کے لئے صف بندی کررہی ہیں۔

تحریک انصاف کے مختلف رہنماؤں کی طرف سے ایسے بیانات آناشروع ہوگئے جن سے اپوزیشن رہنماؤں کو کہنے کا موقع مل رہاہے کہ نئے حکمران اپنے وعدوں سے یوٹرن لے رہے ہیں۔ مثلاً  تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور متوقع وزیرخزانہ اسدعمر کا کہناہے کہ چھ ماہ تکلیف دہ ہوں گے، عوامی منشا پر پورا اترنے اور اپوزیشن میں بیٹھ کر دعوؤں میں زمین آسمان کا فرق ہوتاہے۔

اس اعتبار سے اگر وہ اپنے پہلے 100دنوں کے حوالے سے وعدے پورے نہیں کرتی تو وہ اس کے بارے میں عوامی اعتماد کا گراف پہلے سو دنوں میں  ہی گرنا شروع ہوجائے گا۔ اس لئے عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپنے وعدوں سے پیچھے نہ ہٹیں چاہے اس کے لئے جو بھی قیمت ادا کرنا پڑے، پہلے 100دنوں میں جو کام کرنے کا وعدہ کیا، وہ 100دنوں میں پورے ہونے چاہئیں۔ ان کی حکومت کے ابتدائی 100 ایام بہرصورت پارٹی پالیسیوں کے عکاس ہونے چاہئیں۔ بھارتی ریاست دہلی میں ’عام آدمی پارٹی‘ کے نام سے ایک نئی جماعت برسراقتدارآئی  تو اس نے اپنے اقتدار کے پہلے 100دنوں کے دوران میں  بجلی کے نرخ 50فیصد کم کرنے جیسے اقدامات کرکے عوام کا دل موہ لیا، پہلے تین مہینوں کے دوران میں آدھے سے زائد انتخابی وعدے پورے کردئیے تھے۔ اگر عمران خان کی حکومت بھی پہلے سو ایام میں ایسا کرشمہ دکھادے تو  عمران خان کا  اگلے 22 برس تک اقتدار میں رہنے کا خواب پورا ہوجائے گا۔

بدقسمتی سے پچھلے کئی عشروں سے پاکستان میں زراعت کا شعبہ بری طرح نظرانداز ہوا، کسان دوستی کے دعوے کئے گئے لیکن یہ محض دعوے ہی تھے۔ پرانے نصابوں میں پڑھا کرتے تھے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے  لیکن حقیت یہ ہے کہ پاکستانی کسان بری طرح تباہ ہوچکاہے۔ اگراگلے پانچ برسوں میںملک میں سبز اور سفید انقلاب  بپا ہوگیا تو  یہ نئی حکومت کا بڑا کارنامہ ہوگا۔

اس تناظر میں زرعی شعبے سے متعلق وعدے پورے ہونے چاہئیں۔ پہلے 100ایام میںکاشتکار کیلئے زراعت کو منافع بخش بنانے کیلئے زرعی ایمرجنسی کا نفاذ، کسانوں کی مالی امداد اور وسائل تک رسائی میں اضافہ اور زرعی اجناس کے مناسب دام یقینی بنانے کے لیے منڈیوں اور ذخائر میں اضافے کی مہم شروع ہونی چاہئے۔ پاکستان کودودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات میں خود کفیل بنانے کا آغاز نظر آنا چاہئے اور لاکھوں چھوٹے چھوٹے کسانوں کو بہتر کرنے کے لیے گوشت کی پیداوار کو بڑھانے پر پروگرام بہرصورت متعارف  ہوناچاہئے۔

اب وقت آگیا ہے کہ عمران خان ٹیکس چوری کو ختم کرنے اور ملکی خزانہ بھرنے کے اپنے خواب پورے کریں۔ بطور اپوزیشن رہنما، ٹیکس اکٹھا کرکے وہ پاکستان کو خوشحال بنانے اور اس کے قرضے اتاردینے کا خواب دکھایاکرتے تھے، اب قوم  اس کی تعبیر دیکھناچاہتی ہے۔ عمران خان کہاکرتے تھے کہ پاکستان میں سالانہ 3.2کھرب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے۔ہم ایک سال میں آٹھ ہزار ارب روپے اکٹھا کر یں گے۔ انھوں نے اس کا طریقہ بھی بیان کیاتھا کہ وہ ٹیکس کم کریں گے۔ اب انھیں اپنا یہ وعدہ وفا کرنا ہوگا، صرف اسی صورت میں وہ پاکستان سوئٹزرلینڈ بن سکے گا، یادرہے کہ عمران خان دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ نیب ، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو ٹھیک کرکے پاکستان کو سوئٹزر لینڈ بنادیں گے۔ یقیناً کرپشن کا مکمل قلع قمع کرکے پاکستان اور اس کی قوم کے وسائل کو بچاکرفلاح وبہبود کے شعبوں میں لگایاجاسکتاہے۔

تحریک انصاف سیاحت کے شعبے کو فروغ دینے کی بات کرتی تھی، اگر اس نے اپنے وعدے کے مطابق پہلے 100 دنوں کے دوران چار نئے سیاحتی مقامات دریافت کرلیے  تو  یہ ایک بڑی پیش رفت ہوگی۔ اسی طرح پہلے سے موجود سیاحتی مقامات میں سیاحوں کے لئے زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائیں، وہاں صفائی کا اہتمام ازحد ضروری ہے کیونکہ آلودگی تیزی سے یہاں کا ماحول گندا کررہی ہے۔ امید ہے کہ اگلے پانچ برسوں کے دوران میں ملک میں امن وامان کی صورت حال اس قدر بہتر ہوجائے گی کہ بیرونی سیاحوں کو پاکستان کی طرف راغب کیاجاسکے۔

ملک کو نئی شکل وصورت دینے اور اسے تیزرفتار تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے جن انقلابی پالیسیوں کی ضرورت ہے، اس کے لئے ٹیم کا انقلابی ہونا ضروری ہے۔ اطلاعات ہیں کہ عمران خان نے ہرشعبے کو اس کے بہتر ماہرین کے ساتھ چلانے کی حکمت عملی وضع کی ہے۔اس تناظر میں امید کی جاسکتی ہے کہ عمران خان اپنے تصورات کے عین مطابق پاکستان کی تعمیر کرسکیں گے۔ پاکستانی قوم کو واقعتاً ایک فلاحی ریاست میں زندگی بسر کرنے کا موقع میسر ہوگا۔

عمران خان

عمران احمد خان نیازی 5 اکتوبر، 1952 کو میانوالی میں محترمہ شوکت خانم اور اکرام اللہ خان نیازی کے گھر میں میں پیدا ہوئے ،جوانی میں بہت خاموش اور شرمیلے تھے ، عمران خان  نے والدین کا واحد بیٹا ہوتے ہوئے چار بہنوں کے ساتھ پرورش پائی ، والد کا تعلق پشتون اور نیازی قبیلے کے شرمنخیل خاندان سے تھا۔  عمران خان اب بھی اپنے خاندانی پس منظر کو پٹھان ہی سمجھتے ہیں۔

انھوں نے پہلے کیتھڈرل سکول، بعدازاں ایچی سن کالج سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ،کبلی کالج آکسفورڈ  سے اپنی معاشیات کی انڈر گریجویٹ ڈگری سے قبل رائل گرامر سکول ورکسٹر میں داخل ہوئے ، 1974 میں یونیورسٹی کے دوران عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے۔ عمران خان اور ان کی والدہ کا خاندانی پس منظر کرکٹ سے وابستہ ہے جس میں کامیاب ہاکی پلیئر بھی شامل تھے، جنھیں برکی کہا جاتا تھا۔ عمران خان کے کھلاڑی کزنز میں جاوید برکی اور ماجد خان شامل ہیں جنہوں نے پاکستان کیلئے ٹیسٹ کرکٹ بھی کھیلی، ان کے والد کے خاندان کی جانب سے عمران خان کے شاہد علی خان جیسے کزن تھے جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں رہے۔

عمران خان کرکٹ کی تاریخ میںاعلیٰ پائے کے آل راؤنڈر اور بڑے فاسٹ بولر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے1971 ء سے 1992ء کے درمیان پاکستان کیلئے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی، ان کی قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے ورلڈکپ جیتا۔ اس کے بعد پاکستانی ٹیم تاحال یہ عالمی اعزاز دوبارہ حاصل نہ کرسکی۔ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد عمران خان نے لاہور میں شوکت خانم کینسر ہسپتال و ریسرچ سنٹر کا آغاز کیا۔ نوّے کی دہائی میں ’پاکستان تحریک انصاف‘ کے نام سے ایک سیاسی پارٹی قائم کی، پارٹی کا بنیادی مقصد  آزاد عدلیہ کے ذریعے پاکستان کے لوگوں کو انصاف دلانا قرار پایا۔ تحریک انصاف کی ویب سائٹ کے مطابق یہ پارٹی اسلامی اقدار پر ایمان رکھتی ہے اور عمران خان اسلامی نظریات سے متاثر ہیں۔

بطور سیاستدان ، عمران خان کی سوچ اور مقصد پاکستان کو انصاف سے بھرے معاشرے میں تبدیل کرنا ہے جہاں انسانیت کی بنیاد پر فیصلے ہوں، ایسا کرنے کیلئے وہ  ایک ایسی آزاد عدلیہ چاہتے ہیں جو جمہوریت کو مضبوط، انسانی حقوق کا تحفظ اور قانون کی بالادستی قائم کرے ، ایسے میرٹ کی مثال قائم کرے جو معاشرے میں ہر ایک کیلئے برابری کی سطح پر مواقع پیدا کرے، کام کرنے والے طبقے میں معاشرتی شعور پیدا ہو۔ وہ پاکستان کا مدینہ منورہ جیسی اسلامی ریاست بناناچاہتے ہیں۔

عمران خان کے سیاسی آئیڈیل ڈاکٹر اور فلاسفر علامہ محمد اقبال ہیں۔  عمران خان نے برطانیہ کے معروف اخبار ’ٹیلی گراف‘ سے اپنے انٹرویو کے دوران  اپنے سیاسی مقاصد واضح کرتے ہوئے کہاتھا: ’’میں پاکستان کو ایک فلاحی ریاست دیکھنا چاہتا ہوں جس میں حقیقی جمہوریت، قانون کی بالا دستی اور آزاد عدلیہ ہو . ہمیں مرکزی طاقت کو ختم کرکے نچلی سطح پر لوگوں کو با اختیار بنانا ہے۔‘‘عمران خان 2002ء  میں پہلی بار میانوالی سے  قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، سن2013ء کے انتخابات میں چارحلقوں سے الیکشن لڑا، تین میں کامیابی حاصل کی جبکہ انتخابات2018ء میں پانچ حلقوں سے جیت کر کلین سویپ کیا۔


وزیرِاعظم صاحب، موجودہ جامعات پر پہلے توجہ دیجیے!

$
0
0

بلاگ: علیم احمد

وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد جناب عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں جن چیدہ چیدہ نکات پر بات کی، ان میں سے ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ وزیراعظم ہاؤس کو ایک جدید ’’ریسرچ یونیورسٹی‘‘ میں تبدیل کردیا جائے گا۔ بصد احترام، آپ کی اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہوں گا کہ وزیرِاعظم کی شاندار رہائش گاہ کو یونیورسٹی میں بدلنا ایک صائب قدم ضرور ہے لیکن اسے نئی حکومت کی ترجیح ہر گز نہیں بننا چاہیے۔ اس کے بجائے پاکستانی جامعات (بالخصوص سرکاری جامعات) کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے تو خاصے کم وقت میں اس سے کہیں بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

جہاں تک ’’ریسرچ یونیورسٹی‘‘ کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ ’’تحقیق‘‘ (ریسرچ) ہی وہ طرہٴ امتیاز ہے جو ایک جامعہ کو کسی بھی دوسرے، ڈگریاں دینے والے اعلیٰ تعلیمی ادارے (ڈگری ایوارڈنگ انسٹی ٹیوشن) سے مختلف بناتی ہے۔ کسی بھی جامعہ میں ایک جانب مختلف شعبہ جات میں اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے تو دوسری طرف وہاں انواع و اقسام کی تحقیق بھی ہمہ وقت جاری رہتی ہے… جس کا تعلق مسائل کی نشاندہی سے لے کر انہیں حل کرنے تک سے ہوتا ہے؛ جبکہ نت نئی دریافتیں، ایجادات و اختراعات بھی جامعات میں ہونے والی تحقیق ہی کی مرہونِ منت ہوتی ہیں۔

اسی تسلسل میں یہ بات بھی یقیناً برمحل رہے گی کہ جدید مغربی ترقی میں جہاں دیگر عوامل کارفرما رہے ہیں، وہیں جامعات میں ہونے والی تحقیق نے بھی دریافتوں، ایجادات اور اختراعات کو جنم دے کر ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ تحقیق کی بدولت معاشی و معاشرتی ترقی (socioeconomic development) کا یہ سفر قدرے طویل اور صبر آزما ضرور ہوتا ہے لیکن اگر صحیح ترجیحات کے ساتھ درست سمت میں پیش رفت جاری رکھی جائے تو کامیابی یقینی ہے… آخر ایک پودا بھی سایہ دار اور پھل دار درخت بننے میں کئی سال لگا دیتا ہے۔

جامعات (یا تحقیقی اداروں) میں ہونے والی تحقیق ایک طرف ’’تحقیقی مقالہ جات‘‘ (ریسرچ پیپرز) کی بنیاد بنتی ہے تو دوسری جانب اطلاقی تحقیق (اپلائیڈ ریسرچ) سے ایسی نت نئی ایجادات و اختراعات کا ظہور بھی ہوتا ہے جو مزید کام کے بعد پختگی کی منزل پر پہنچ کر ایک نئی ٹیکنالوجی کو جنم دیتی ہیں (جن کے حقوق ’’پیٹنٹس‘‘ کی شکل میں حاصل کرلیے جائیں تو اضافی آمدنی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں)۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ مقصد حاصل کرنے کےلیے اسٹارٹ اپس (startups)، اسپن آف (spin-off) اور ٹیکنالوجی انکیوبیٹر (incubator) وغیرہ جیسے تصورات کئی عشروں سے رائج ہیں۔ اس ضمن میں ریاست بھی ’’وینچر کیپٹل‘‘ (venture capital) یا اسی قسم کے دوسرے پروگراموں کے ذریعے مالی تعاون کرتی ہے تاکہ ابتدائی تحقیقی نتائج کو معاشی و معاشرتی طور پر ’’سود مند‘‘ بنایا جاسکے۔ حالیہ برسوں میں انٹرنیٹ کی بدولت اس ذیل میں ’’کراؤڈ فنڈنگ‘‘ (crowd funding) کا بھی اضافہ ہوچکا ہے۔

یہاں ’’سود مند‘‘ کا مفہوم خاصا وسیع ہے جس میں وہ ایجادات و اختراعات بھی شامل ہیں جو کسی نئی صنعت (یا نئے کاروبار) کی وجہ بن کر ملکی صنعت کی نمو پذیری میں مدد دیں؛ وہ مشینیں اور آلات بھی ہیں جنہیں مقامی طور پر تیار کرکے درآمدات پر انحصار کم کیا جاسکے اور خطیر زرِ مبادلہ کی بچت کی جاسکے؛ اور ایسے طریقہ ہائے کار (processes) بھی ہیں جو مروجہ مصنوعات کے معیار اور قدر میں اضافہ (value addition) کرکے برآمدات میں فروغ کا سبب بنیں۔

افسوس کی بات ہے کہ پاکستانی جامعات اور تحقیقی ادارے، اپنی مجموعی حیثیت میں، اس منزل سے کوسوں دور ہیں لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہمت ہار دی جائے اور ہم مایوس ہو کر بیٹھ جائیں۔

یہاں کسی آمر کی تعریف کرنا ہر گز مقصود نہیں لیکن یہ امر بہرحال حقیقت ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں اصلاحات کا سہرا جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے سر جاتا ہے۔ جنرل صاحب نے پہلے تو پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمان (ایف آر ایس) کو وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی بنایا؛ اور بعد ازاں جب ’’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘‘ (ایچ ای سی) کے قیام کا مرحلہ آیا تو ڈاکٹر صاحب کو اس کا بانی چیئرمین مقرر کردیا گیا۔ مشرف دورِ حکومت میں اعلیٰ تعلیم اور سائنسی تحقیق کے حوالے سے پاکستان میں ایک قابلِ تعریف منظر نامہ تشکیل پایا جسے وطن دوستوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا جبکہ پاکستان سے نفرت کرنے والوں میں یہ دیکھ کر تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

یادش بخیر، جب فروری 2008 میں عام انتخابات کا موقع آیا تو اُس وقت کم از کم 2000 پاکستانی طالب علم (میرٹ پر منتخب ہونے کے بعد) سرکاری خرچ پر بیرونِ ملک پی ایچ ڈی کرنے میں مصروف تھے۔ ان تمام طالب علموں کو اس شرط کے ساتھ بیرونِ ملک بھیجا گیا تھا کہ وہ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد وطن واپس آئیں گے اور جامعات یا دوسرے تحقیقی اداروں میں ’’ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ‘‘ (R&D) یعنی تحقیق و ترقی سے متعلق فرائض انجام دیں گے۔

چیئرمین ایچ ای سی کا عہدہ سنبھالنے سے قبل ڈاکٹر عطاء الرحمان اکثر، اور برملا، یہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان کی جامعات ’’ڈگری دینے والے کالجوں‘‘ کا درجہ رکھتی ہیں کیونکہ بیشتر پاکستانی جامعات میں تحقیق (ریسرچ) کا عنصر کم و بیش غیر موجود ہے۔ البتہ، یہ جنرل مشرف ہی کا دورِ حکومت تھا کہ جب نجی شعبے میں درجنوں نئی جامعات قائم ہوئیں جو عملاً ’’ڈگری دینے والے کالج‘‘ ثابت ہوئیں… اعلیٰ تعلیم کے نام پر مال بنانے والی ’’ہائر ایجوکیشن مافیا‘‘ بھی اسی دور کی پیداوار ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مشرف دورِ حکومت میں اعلیٰ تعلیم کا معاملہ ’’معیاری‘‘ (qualitative) سے زیادہ ’’مقداری‘‘ (quantitative) رہا؛ تاہم اس ضمن میں حکومتی فراخدلی کے باعث تحقیق کے مواقع بھی کہیں زیادہ رہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 2008 سے وجود میں آنے والی ’’جمہوری حکومتیں‘‘ مشرف دور کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خامیاں دور کرکے جامعات کا معیار بہتر بناتیں اور جامعات میں تحقیق کو فروغ دیتے ہوئے اُن مقاصد کا حصول یقینی بناتیں جو مشرف دورِ حکومت میں حاصل نہیں کیے جاسکے تھے، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس کے برعکس، اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اعلیٰ تعلیم کو ’’صوبوں کی ذمہ داری‘‘ قرار دے کر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پرخچے اُڑا دیئے گئے؛ اور اسے ماضی کے ’’یونیورسٹی گرانٹس کمیشن‘‘ سے بھی زیادہ کمزور اور بے اختیار ادارے میں بدل دیا گیا۔ جامعات میں جو تھوڑی بہت تحقیق شروع ہوئی تھی، وہ آہستہ ہوتے ہوتے تقریباً رُک گئی۔ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر من پسند عہدیداران کی ہائر ایجوکیشن کمیشن میں تقرری نے اس ادارے کو بھی (جو اب وفاقی اور صوبائی سطح کے اداروں میں بٹ چکا ہے) تنزلی کی راہ پر گامزن کردیا، جس کے نتائج آج ہم سب کے سامنے ہیں۔

اگر حکومتِ سندھ نے نئی جامعات بنانے پر توجہ دینے کے بجائے اسی پرانے ’’کوٹہ سسٹم‘‘ کا اطلاق ایک بار پھر سندھ کی سرکاری جامعات پر کرنا شروع کردیا تو وفاقی حکومت نے بھی تعصب برتنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ میاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں پنجاب کی صوبائی جامعات اور تحقیقی اداروں کو (وفاقی حکومت کی جانب سے) خوب نوازا گیا لیکن دیگر صوبوں کی جامعات یا تحقیقی اداروں سے ریسرچ گرانٹس کےلیے آنے والی درخواستوں کو یا تو ’’یہ صوبائی حکومت کا معاملہ ہے‘‘ کہہ کر ردّ کردیا جاتا، یا پھر ان درخواستوں کو شرفِ قبولیت بخشنے میں اس قدر تاخیر کردی جاتی کہ درخواست لانے والا (فرد یا ادارہ) مایوس ہوکر، صبر شکر کرکے بیٹھ جاتا۔ ایک صوبے پر چیک اینڈ بیلنس کے بغیر ’’ریسرچ گرانٹس‘‘ کی برسات اور دوسرے صوبوں کےلیے ریسرچ گرانٹس کی قلت نے دو دھاری تلوار کا کام کیا: ایک جانب ضرورت سے زیادہ سہولیات نے آرام پسندی کو جنم دیا تو دوسری جانب ضروری وسائل کی عدم فراہمی نے پاکستان میں جامعات کی (اور ادارہ جاتی) سطح پر ہونے والی تحقیق کو شدید نقصان پہنچایا۔

تاہم، اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ماضی میں ہونے والی علمی تباہی و بربادی کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا۔ ازالہ بالکل ممکن ہے، جس کا آغاز موجودہ جامعات میں تدریسی اصلاحات سے کیا جاسکتا ہے جس میں نصاب اور تدریسی طریقوں کی بہتری سے لے کر جامعات میں پڑھانے والے اساتذہ و غیر تدریسی عملے کےلیے بہتر تنخواہیں/ مراعات وغیرہ شامل ہوں۔ اسی کے ساتھ ریسرچ گرانٹس کے ضمن میں میرٹ کو بطورِ خاص مدنظر رکھتے ہوئے، شفاف طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے یہ گرانٹس جاری کی جائیں؛ جبکہ اس معاملے میں صوبائی یا علاقائی تعصب ہر گز نہ برتا جائے۔

بس صرف اس جانب سے خبردار رہیے گا کہ اقتدار میں آتے ہی بہت سے مفاد پرست آپ کے گرد حصار بناکر آپ کے سامنے ایک نہایت پُرفریب منظر پیش کرنے کی پوری کوشش کریں گے؛ مگر ان کا مقصد آپ کو دھوکے میں رکھ کر اپنا مقصد حاصل کرنا، اپنا اُلو سیدھا کرنا ہوگا۔ ان سے ہوشیار رہ کر آپ خود پر اور اس ملک پر بہت بڑا احسان کریں گے۔

یقین کیجیے کہ اگر آپ نے جامعات میں علمی و تحقیقی اصلاحات کو بھی اپنے ایجنڈے کا حصہ بنالیا اور اس پر واقعتاً اسی طرح عمل کیا کہ جس طرح عمل کرنے کا تقاضا ہے، تو مستقبل کا مؤرخ یقیناً آپ کو ’’نسلوں کا معمار‘‘ کہہ کر یاد کرے گا۔ اور اگر ایسا کچھ بھی نہیں کیا تو… آپ بہتر جانتے ہیں کہ یہی پہلا موقع، آپ کےلیے آخری موقع بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

لشکر جھنگوی سے بلوچ لبریشن آرمی تک!

$
0
0

رپورٹ: نوید حیدر

محققین کے مطابق انسانی تاریخ میں قدیم دیومالائی کردار “سیمسن” پہلا خودکش حملہ آور ہے، جس نے دشمن کو تباہ کرنے کے لئے اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈالنے سے گریز نہیں کیا۔ سیمسن کے بعد یہودیوں اور عیسائیوں کی جانب سے بھی رومن سلطنت کے خلاف خودکش حملوں کی داستانیں ملتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہٹلر پر بھی خودکش حملہ کیا گیا۔ اس جنگ میں جاپانی پائلٹوں کی جانب سے بھی خودکش حملوں کی کہانیاں موجود ہے۔ ماضیِ قریب میں سنہالی گوریلے بھی سری لنکا پر قابض برطانوی فوجیوں پر خودکش حملہ کرچکے ہیں۔ خودکش حملوں کی تکنیک کو جدید بنانے کا سہرا تامل قوم پرست تنظیم “ایل ٹی ٹی ای” کے سر بندھتا ہے، جنہوں نے اس تکنیک کے ذریعے بھارت اور سری لنکا کی حکومتوں کی نیندیں حرام کر دی تھی۔ تامل قوم پرستوں نے 1991ء میں اسی تکنیک کے ذریعے بھارتی وزیرِاعظم راجیو گاندھی کو قتل کر دیا۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق پاکستان میں پہلا خودکش حملہ 1995ء کو اسلام آباد میں مصری سفارت خانے پر ہوا، جبکہ تاریخ کے بعض صفحوں کے مطابق پاکستان میں پہلا خودکش حملہ 1974ء کو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر کیا گیا۔ یہ حملہ بلوچ قوم پرست نوجوان مجید بلوچ کی جانب سے کیا گیا، تاہم حملہ ناکام ہوا اور مجید بلوچ خود اپنی جان سے گزر گیا۔

گذشتہ ہفتے 11 اگست 2018ء کو بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر استاد اسلم بلوچ کے بیٹے ریحان بلوچ نے بارود سے بھری گاڑی کو سیندک پروجیکٹ کے چائنیز ملازمین کے بس سے ٹکرا دیا، جس سے دو چائنیز انجینرز زخمی ہوگئے۔ بلوچ لبریشن آرمی کیجانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ یہ حملہ بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے رکن ریحان بلوچ نامی نوجوان نے انجام دیا ہے۔ بعدازاں حملے سے قبل خودکش حملہ آور کا ریکارڈ کیا گیا ویڈیو پیغام بھی سوشل میڈیا پر سامنے آیا۔ ریحان بلوچ نے انگریزی زبان میں چینی حکومت کو تنبہ کی ہے کہ بلوچستان میں جاری تمام منصوبوں کو فوری طور پر بند کر دیا جائے، کیونکہ ان منصوبوں سے بلوچ قوم کے وسائل کی لوٹ مار ہو رہی ہے۔ مستقبل میں‌ تمام منصوبوں کو بلوچ قیادت کی مرضی و منشاء کے مطابق تشکیل دینے پر زور دیا گیا ہے، جبکہ ایسا نہ کرنے پر چینی انجینیئرز اور دیگر حکومتی اہلکاروں پر حملوں کو تیز کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔

بلوچستان میں کئی دہائیوں سے بلوچوں کی جانب سے مزاحمتی تحریک جاری ہے، جس میں وقتاً فوقتاً سکیورٹی فورسز اور دیگر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا ہیں، لیکن یہ مزاحمت ریموٹ کنٹرول بم حملوں یا ٹارگٹ کلنگز کی تک محدود رہی ہے۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں مہلک ہتھیاروں کے استعمال اور خودکش حملوں میں ہمیشہ مذہبی شدت پسند تنظیمیں لشکر جھنگوی، داعش یا طالبان ملوث رہی ہیں، جبکہ پہلی مرتبہ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ چینی ملازمین پر خودکش حملہ کرنیکی ذمہ داری بلوچ آزادی پسند تنظیم یعنی بی ایل اے نے قبول کی ہے۔ دالبندین حملے سے جڑے کچھ اور عوامل بھی ہیں، جو اس خدشے میں مزید اضافہ کرتے ہیں کہ بلوچ مزاحمتی تنظیمیں بلوچستان اور پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کیلئے کتنا بڑا خطرہ بن سکتی ہیں۔

اول تو یہ کہ یہ حملہ کسی اکیلے، مایوس شخص کا انفرادی عمل نہیں تھا بلکہ اس حملے کی پوری منصوبہ بندی بی ایل اے کے اس کارکن کے پورے خاندان کی جانب سے کی گئی، کیونکہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ خودکش حملہ آور ریحان بلوچ کے والد اسلم بلوچ خود اپنے بیٹے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ نہ صرف بی ایل اے بلکہ دوسری آزادی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ نے بھی اس خودکش حملے کو سراہا ہے۔ اب تک یہ دیکھنا باقی ہے کہ بلوچ مزاحمت کار جو مذہبی شدت پسند کی بجائے قوم پرست ہیں، وہ مستقبل میں خودکش حملوں کے آپشن کو مزید استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر شاید وہ مذہبی شدت پسند تنظیموں لشکر جھنگوی، داعش، تحریک طالبان اور دیگر سے بھی کوئی تعلق قائم کر لیں، جو خود کش حملے کرنے میں ماہر ہیں، جبکہ بعض حلقوں کی جانب سے ماضی میں بھی یہ الزامات سامنے آتے رہے ہیں کہ بلوچ آزادی پسند تنظیمیں مذہبی شدت پسند تنظیموں کیساتھ یکجاء ہوکر کارروائیاں کرنے میں ملوث ہیں۔

بی ایل اے کا چینی انجنیئروں پر حملے کی سب سے اہم بات حملے کی جگہ بھی ہے۔ ضلع چاغی دوسرے علاقوں کے بنسبت پرامن رہا ہے۔ چینی تقریباً آٹھ سال سے سیندک پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے اور کچھ اطلاعات کے مطابق یہ منصوبہ اب تقریباً اپنے حتمی مراحل میں ہے، لیکن سی پیک کی صورت میں چین کے سب سے بڑے منصوبے کو آنے والے دنوں میں ابھی شروع ہونا ہے۔ اگر ریاست بلوچ آزادی پسند تنظیموں کیخلاف موثر کارروائی نہیں کرتی، تو آنے والے دنوں میں اس انتہا پسندانہ تحریک میں مزید شدت آسکتی ہے۔ اس سے قبل بلوچستان میں مذہبی شدت پسند تنظیموں کے حملے کو زیادہ مہلک سمجھا جاتا تھا، جبکہ مستقبل میں بلوچ لبریشن آرمی جیسی تنظیمیں بھی لشکر جھنگوی جیسی مہلک ثابت ہوسکتی ہیں۔

امریکہ کبھی نہیں چاہے گا پاکستان بھارت سے آگے نکلے

$
0
0

تجزیہ: سلمان غنی

ستمبر کے پہلے 10 روز کو اس حوالے سے اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے کہ ان 10 روز میں امریکہ، چین، ایران اور جاپان کے وزرائے خارجہ اور متعدد ممالک کے ذمہ داران پاکستان آ رہے ہیں۔ جہاں ان کی وزیراعظم عمران خان سمیت اعلیٰ سویلین، فوجی حکام اور خارجہ آفس کے ذمہ داران سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔ اس امر میں شک نہیں کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان سے برتی جانے والی سرد مہری نے علاقائی صورتحال میں پاکستان کیلئے بہت سے امکانات پیدا کئے ہیں اور افغانستان سمیت علاقائی امور پر چین، روس اور ایران نے پاکستان کے ساتھ اس کے مؤقف پر ہم آہنگی ظاہر کی۔ لہٰذا اب پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد عالمی رہنماؤں کی نئی حکومت کیلئے جذبہ خیر سگالی کس حد تک پاکستان کیلئے فائدہ کا باعث بنے گا۔

کیا پاکستان کی نئی منتخب حکومت خارجہ محاذ پر فیصلوں کے حوالے سے مکمل آزاد ہو گی اور علاقائی صورتحال میں پاکستان کو اتنی اہمیت اور حیثیت ملے گی جس کا پاکستان مستحق ہے۔ پاکستان کے مسائل کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا اصل چیلنج معاشی ہے اور یہی اس حکومت کا اصل امتحان ہے اور پاکستان معاشی صورتحال میں بہتری لانے میں کامیاب رہا تو بیرونی محاذ پر بھی اس کے اچھے اثرات ہوں گے، پاکستان کی علاقائی اہمیت کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر اس کی بات سنی جائے گی، وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں ہی واضح کر دیا تھا کہ پاکستان امریکہ، چین، بھارت سمیت دیگرملکوں سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ لیکن بیرونی محاذ پر کامیابیوں کا عمل اندرونی سطح پر منتخب حکومت کی کارکردگی خصوصاً معاشی چیلنج سے نمٹنے اور اس کے نتائج پر منحصر ہو گا۔

وزیر خزانہ اسد عمر اعتراف کر چکے ہیں کہ معاشی بحران شدید ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے آئی ایم ایف سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی معاشی بحران کی سنگینی کی وجہ سے چین نے دو قسطوں میں 2 ارب ڈالرز ادا کئے۔ لیکن فوری طور پر اسکا ردِ عمل امریکہ کی طرف سے آیا اور امریکہ نے آئی ایم ایف کو تاکید کی کہ وہ پاکستان کو ممکنہ بیل آؤٹ پیکیج نہ دے، امریکہ ایک طرف پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے، تعلقات بڑھانے کا خواہش مند ہے تو دوسری جانب پاکستان پر دباؤ بڑھا کر اسے اپنے ایجنڈا پر کار بند رکھنا چاہتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب چین حسب روایت پاکستان کے ساتھ نہ صرف کھڑا ہے بلکہ پاکستان کی اقتصادی بحالی اور ترقی کیلئے ممکنہ اقدامات کرتا نظر آ رہا ہے۔ نئی عالمی حقیقتوں اور نئی عالمی صف بندیوں کی وجہ سے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت ہی پاکستان اور چین کے تعلقات نئی بلندیوں پر پہنچے ہیں اور اس خبر نے امریکہ کو پریشان کر رکھا ہے اور وہ آئی ایم ایف پر دباؤ بڑھا کر پاکستان کے ہر معاملے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔

لہٰذا دیکھنا ہوگا کہ ستمبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان آنے والے عالمی رہنماؤں سے کن ایشوز پر بات ہوتی ہے اور کس کے ساتھ کیسے اور کہاں تک چلنا ہے، اس پر مشاورتی عمل پہلے سے ہی مکمل ہونا چاہئے اور خصوصاً امریکہ کے حوالے سے یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ چین، پاکستان اور روس کے مقابلے میں امریکہ، بھارت کی علاقائی بالادستی کا خواہاں ہے اور وہ کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں آگے نکلے یا اس کی اہمیت بڑھے، امریکہ کا ایک اور بڑا مسئلہ شکست کا وہ داغ ہے جو افغانستان کی 16 سالہ جنگ کے نتیجہ میں اس کے ماتھے پر لگ چکا ہے، امریکہ اپنی شکست کے اس داغ کو دھونا چاہتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر وہ اس تاثر کو ختم نہیں کر سکتا۔ عالمی دنیا میں پاکستان کے کردار کو اجاگر کرنے میں اگر یہ حکومت کامیاب رہتی ہے تو یہ عمران خان کی حکومت کا بہت بڑا کریڈٹ ہوگا، جہاں تک ایران کی جانب سے نئی حکومت کیلئے جذبہ خیر سگالی اور ان کے وزیر خارجہ کے پاکستان کے دورہ کا سوال ہے تو یہ ایک ایسا مرحلہ ہے جس کے ذریعہ ایران سے اپنے روابط کو مزید مضبوط بنایا جا سکتا ہے کیونکہ ایران بلاواسطہ اور پاکستان بالواسطہ طور پر امریکہ کا ٹارگٹ ہیں اور اس صورتحال میں تاریخی رشتوں کو مزید مضبوط کرنے کیلئے باہمی تعلقات اور تجارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

ایران سعودی عرب تنازع میں بھی پاکستان نے کسی ایک کا ساتھ دینے کے بجائے، دونوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کیلئے کاوش کر کے یہ ثابت کیا تھا کہ سعودی عرب سے احترام اور جذبات کے تمام تر رشتوں کے باوجود ایران کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا نئی حکومت، نئے حالات اور نئے امکانات میں پاکستان کے حصہ میں کیا آتا ہے، یہ اہم سوال ہے اور عالمی دنیا سے اچھے، مؤثر تعلقات کیلئے اپنے مفادات کو مقدم رکھنا ہوگا۔ ہم کہیں مضبوط بنیادوں پر کھڑے ہوں گے تو کوئی ہمارے ساتھ کھڑا ہو گا۔ ان مواقع کا فائدہ اٹھانا نئی حکومت کیلئے امتحان ہے۔

ن لیگ دور میں پاور پروجیکٹس کے جلد افتتاح سے اربوں کا نقصان ہوا

$
0
0

حیدرآباد: ن لیگ کی سابق حکومت نے اپنے دور اقتدار کے آخری مہینوں میں اپنی حکومتی کارکردگی بڑھانے کیلیے ایس او پیز سے ہٹ کر پاور پروجیکٹس کے جلد از جلد افتتاح کی خواہش نے قومی خزانے کو اربوں روپے کے نقصانات سے دوچار کر دیا ہے۔

سی پیک منصوبے کے تحت پورٹ قاسم پردرآمدی کوئلے سے1320میگا واٹ بجلی کے پیداواری منصوبے سے بجلی حاصل کرکے نیشنل گرڈ کو فراہم کرنے والی ٹرانسمیشن لائن کی جنوری2018 سے اب تک بار بار خرابی نے قومی خزانے کو جرمانے کی مد میں 5 ارب60 کروڑ جبکہ مرمت کی مد میں مزید کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔

ٹرانسمیشن لائن پر لگے ہوئے ڈسک انسولیٹرز کی بار بار خرابی نے نیشنل سسٹم کو بار بار بجلی سے محروم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جبکہ جنرل منیجر جی ایس او محمد حفیظ کہتے ہیں کہ سسٹم کو واشنگ کلیننگ کرکے بہتر کردیا ہے اور مزید بہتر کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔

ن لیگ کی سابقہ حکومت کے دور میں پورٹ قاسم کے ساحلی علاقے میں حکومت نے درآمدی کوئلے سے660 میگا واٹ کے 2 پیداواری یونٹس پر مشتمل پاور پروجیکٹ لگانے کا فیصلہ کیا جسے 1980ملین ڈالر کی لاگت سے مکمل کیا گیا، اس کے لیے مئی2015 میں سول ورک کا آغاز کیا گیا جس کے لیے الگ جیٹی بھی بنائی گئی اور پہلا پلانٹ اکتوبر2017 میں انرجائز کیا گیا۔

پہلے یونٹ کا افتتاح نومبر2017 میں ہو گیا اور منصوبے کے مکمل ہونے کی تاریخ سے (67) دن پہلے ہی25 اپریل 2018 کو دوسرے پیداواری یونٹ کو فعال کردیا گیا۔ مذکورہ منصوبے سے پیدا ہونے والی بجلی کو نیشنل سسٹم تک پہنچنے کے لیے منصوبہ بندی کی گئی کہ پورٹ قاسم سے مٹیاری تک174  کلو میٹر لمبی نئی500 کے وی پورٹ قاسم مٹیاری سرکٹ ٹرانسمیشن لائین بچھائی جائے گی ۔

پہلے مرحلے میں پاور ہاؤس سے حب/ جام شورو ٹرانسمیشن لائن تک 3 ارب18 کروڑ 75 لاکھ کے تخمینے سے 55 کلو میٹر تک170 کے لگ بھگ ڈبل سرکٹ والے سگنل ٹاورز لگانے کا کام یکم نومبر2017 سے پہلے مکمل کرلیا گیا اور اسے پورٹ قاسم پاور پلانٹ سے جوڑ دیا گیا جبکہ دوسرے مرحلے میں حب/ جامشورو/پورٹ قاسم جوائنٹ سے لے کر مٹیاری تک 120کلو میٹر طویل ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے لیے350 ٹاورز لگانے کا کام جاری ہے جس پر ابتدائی طور پر 6 ارب 60کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے تاہم پہلے فیزکی55کلو میٹر طویل ٹرانسمیشن لائن میں اب تک 12 جنوری2018 سے 60 بار خرابی پیدا ہوچکی ہے جس میں سے8 بار ٹرانسمیشن لائن کی خرابی کے باعث پورٹ قاسم پاور پلانٹ کے دونوں پیداواری یونٹس بند ہوگئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ 60 فالٹس میں 10 کلو میٹر سے کم فاصلے میں ٹرانسمیشن لائن میں کم سے کم 20 فالٹس آئے جبکہ 10 سے 20کلو میٹر کے ابتدائی فاصلے میں بھی20 کے لگ بھگ فالٹ آچکے ہیں۔ ٹرانسمیشن لائن فیز ون کی تعمیرات ایگزیکٹو انجینئر ٹی ایل سی ڈویژن ای ایچ وی ٹو، این ٹی ڈی سی حیدرآباد کے تحت کی گئی جس کی نگرانی جنرل منیجر پروجیکٹ ڈلیوری (ایس) ای ایچ وی۔ ٹو، این ٹی ڈی سی حیدرآباد نے کی جبکہ اب تک ٹرانسمیشن لائن کے فیز ون کو چیف انجینئر جی ایس او (ایس) این ٹی ڈی سی حیدرآباد کے حوالے نہیں کیا گیا۔

معاہدے کے مطابق اگر ٹرانسمیشن لائن کی خرابی کی وجہ سے پیداواری یونٹ بند ہوں گے تو نجی پاور کمپنی این ٹی ڈی سی سے 70 کروڑ روپے پینالٹی وصول کرے گی کیونکہ کمپنی کا موقف ہے کہ پیداواری یونٹ ایس او پی کے بغیر جب اچانک بند ہوتے ہیں تو متعدد پارٹس خراب ہوجاتے ہیں اور کمپنی کو وہ مہنگے پارٹس خریدنے پڑتے ہیں یوں اب تک 8 بار ٹرانسمیشن لائن کی خرابی کے باعث پیداواری یونٹس بند ہونے سے جہاں کمپنی نے سینٹرل پاور پرچیزنگ کمپنی کے ذریعے این ٹی ڈی سی سے 5 ارب 60 کروڑ روپے کی پینالٹی وصول کرنے کیلیے کلیم جمع کرا دیا ہے وہیں 1320میگا واٹ بجلی نیشنل سسٹم سے نکلنے پر لوڈ شیڈنگ میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے تو خرابی کو دور کرنے کے لیے بھی بڑے پیمانے پر اخراجات، ناگزیر ہوتے ہیں جبکہ مذکورہ ایک پاور پلانٹ ہی کراچی کی اکثریتی علاقوں کو بجلی فراہم کرنے کی مکمل استعداد رکھتا ہے۔

بار بار ٹرانسمیشن لائن میں خرابی آنے پر اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹرانسمیشن لائن کے فیز ون کے 50 کے قریب ٹاور سمندر کنارے اور سمندر میں واقع ہیں اور ان پر لگی ہوئے ڈسکس انسولیٹرز کی آر ٹی وی کوٹنگ نہ ہونے کے باعث بار بار مذکورہ ٹرانسمیشن لائن بیٹھ جاتی ہے۔ دوسری جانب چینی کمپنی نے ساحل سمندر پر بنائے جانے والے پاور پلانٹ کے اندر موجود 2 ٹاورز اور سوئچ یارڈز میں نصب کیے گیے ڈسکس انوسلیٹرز پر آر ٹی وی کوٹنگ کرائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے پاور پلانٹ میں بار بار خرابی نہیں ہو رہی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ حکومت اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں اپنی پرفارمنس کو بہتر بنانے اور بہتر دکھانے کیلیے کوشاں تھی اور وزرات پانی و بجلی میں موجود افسران نے حکومتی دباؤ پر بجلی کے مختلف پروجیکٹس اور پاور لائنز کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا تھا تاکہ ہر ہفتے کسی نہ کسی منصوبے کا افتتاح ہوتا رہے تاہم پرفارمنس کو بہتر دکھانے کی کوشش میں جن ایس او پیز کو پیچھے دھکیل دیا گیا اب اس کے مضمرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں جس پر قوم کے اربوں روپے بلاجواز خرچ ہو رہے ہیں۔

مذکورہ ٹرانسمیشن لائن بچھانے سے پہلے سروے تو کیا گیا تاہم ساحلی علاقہ ہونے کے باوجود ماحولیاتی مطالعہ ((environment study ہی نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے جو ٹاور یہاں لگائے گئے اور ان پر جو ڈسکس انسولیٹرز لگائے ہیں وہ ساحلی علاقوں کی نمی، دھند اور آب وہوا برداشت نہیں کرپارہے ہیں جبکہ اس سے پہلے حب پاور پلانٹ کے بھی 100کے قریب ٹاورز ساحل سمندر پر واقع ہیں وہاں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ حاصل نہیں کیا گیا کیونکہ سابق حکمراں جماعت اپنے دور میں تعمیر ہونے والے منصوبوں کی تعداد زیادہ دکھانے پر زور لگائے ہوئے تھی جس کے لیے معیار پر دھیان ہی نہیں دیا گیا جس کی سب سے بڑی مثال’’500 کے وی پورٹ قاسم مٹیاری سرکٹ کا پہلا فیز‘‘ بن کر سامنے آیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ 12 جنوری 2018 سے 12 اگست تک 60 بار ٹرانسمیشن لائن میں خرابی کے باعث اربوں روپے کے جرمانے کے کلیم داخل ہونے کے بعد گذشتہ دنوں عیدالاضحی سے پہلے مختلف ٹیمیں بلوا کر پاور ہاؤس کے زیرو پول سے 50 ٹاورز کی صفائی ستھرائی بھی کرائی گئی جس کے دوران تمام ڈسکس انسولیٹرز کی تیز پریشر کے ساتھ دھلائی بھی کی گئی جو19 اگست کو مکمل ہوئی جس کے دوران بجلی کی پیداوار بند رہی، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی دھلائی کے بعد محض 15 سے 20 روز تک ہی فالٹ دور ہو جاتے ہیں اور پھر مخصوص وقت گذرنے کے بعد دوبارہ خرابی آنا شروع ہوجاتی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اب ٹرانسمیشن لائن کی خرابی سے بچنے کیلیے آئندہ3 ماہ میں پاور ہاؤس سے ابتدائی 50 ٹاور پر لگے ڈسکس انسولیٹرز کی آر ٹی وی کوٹنگ کرانے پر غور کیا جا رہا ہے جس پر ایک جرمانے کے مساوی 70کروڑ کے اخراجات بھی نہیں آئیں گے لیکن منصوبے کے آغاز میں اس بات کا خیال نہ رکھ کر منصوبے کے ابتدائی8 ماہ میں5 ارب 60 کروڑ کے لگ بھگ جرمانے کا سامنا ہے، ٹرانسمیشن لائن کے فالٹس کو دور نہ کیا گیا تو جتنی تیزی سے آئی پی پی کی جانب سے جرمانے کلیم کیے جا رہے ہیں ۔

ایک وقت وہ آسکتا ہے کہ جب این ٹی ڈی سی کے پاس اپنے اسٹاف کو تنخواہ دینے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوں گے۔ دوسری جانب جنرل منیجر گرڈ سسٹم آپریشن حیدرآباد محمد حفیظ نے رابطہ کرنے پر ٹرانسمیشن لائن میں فالٹس آنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ فالٹس کو واشنگ کلیننگ کرکے دور کردیا گیا ہے۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھاکہ پاکستان میں کہیں بھی ڈسکس انسولیٹرز کی آر ٹی وی کوٹنگ نہیں کرائی گئی ہے اس سلسلے میں واشنگ کلیننگ کے بعد بہتری آئی ہے اور اب مزید سروے کرکے طے کرلیا جائے گا کہ کہاں کس نوعیت کے فالٹس آ رہے ہیں تا کہ انھیں دور کیا جاسکے۔ منصوبے کی انوائرمنٹ اسٹڈی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھاکہ اس کے متعلق وہ کوئی معلومات نہیں رکھتے البتہ حبکو سے آنے والی ٹرانسمشین لائن میں بھی آر ٹی وی کوٹنگ نہیں ہے اور وہ بہتر کام کررہی ہے۔

خدشہ ہے اگر فوری طور پر وفاقی حکومت کی جانب سے مداخلت نہ کی گئی تو آئندہ3ماہ میں مزید اربوں روپے کے نقصانات کے ساتھ ساتھ نیشنل گرڈ سسٹم ہزاروں میگا واٹ بجلی سے بار بار محروم ہوتا رہے گا جس سے ملک میں لوڈ شیڈنگ بڑھے گی اور صنعت کاروں کو اپنے اہداف پورے کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

امریکا اور دہشت گردی

$
0
0

دہشت گردی ویسے تو کوئی بالکل نئی چیز نہیں ہے۔ اس ترقی یافتہ، جدید، حیران کن ٹیکنالوجی اور تباہ کن اسلحے سے لیس دنیا سے پہلے بھی انسان جس کرۂ ارض پر جی رہے تھے، وہاں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوچکے تھے۔ تاہم اُس دور اور اِس زمانے کی دہشت گردی کی صورت اور اثرات میں بہت زیادہ فرق ہے، اتنا کہ دونوں کے نتائج کا کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے دور کی دہشت گردی نہ صرف یہ کہ ایسی صورت میں سامنے آئی ہے جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، بلکہ اِس کے ساتھ اُس کے ہول ناک اثرات کا دائرہ بھی بہت بڑھ گیا ہے۔

دہشت گردی کے اس نئے دور کا آغاز ویسے تو بیس ویں صدی کی آخری دہائی میں ہوچکا تھا، لیکن دنیا کو اس کا بدترین تجربہ اس وقت ہوا جب امریکا کے ٹوئن ٹاور پر حملہ کیا گیا۔ اِس کے بعد تو دہشت گردی نے ایک ایسی آندھی کی صورت اختیار کرلی جس نے دنیا کے کئی ایک علاقوں اور بہت سی قوموں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس سے پہلے کے حالات دہشت گردی کو بڑی حد تک ایک مقامی یا علاقائی مسئلے کے طور پر پیش کرتے تھے، لیکن اس کے بعد اس کی نوعیت بالکل تبدیل ہوگئی اور یہ ایک عالمی مسئلے کی حیثیت سے اُبھرا، پھر اسی سطح پر اس کے اثرات بھی سامنے آئے۔

عالمی مسئلے کے طور پر دہشت گردی کا جائزہ لیا جائے تو متعدد بیانیے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ظاہر ہے، ہر ایک بیانیے میں اپنے اپنے انداز سے اس مسئلے کی تعریف کی گئی ہے، اس کے حدود کا تعین کیا گیا ہے اور اس کے اثرات اور آئندہ امکانات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں سے ایک ہے جو براہِ راست دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ اس مسئلے نے ہماری سیاسی، سماجی، معاشی اور حفاظتی صورتِ حال کو بری طرح متأثر کیا۔

آج پاکستان کی اقتصادی صورتِ حال جس ابتری کا نقشہ پیش کرتی ہے، اس میں بہت غیر معمولی کردار ملک میں امن و امان کی صورتِ حال نے بھی ادا کیا ہے۔ آئے دن ہونے والے اندوہ ناک حادثات و سانحات، انسانی جانوں کے زیاں اور عدم تحفظ کے احساس نے ایک طرف ملک کے داخلی منظرنامے کو بدحالی سے دوچار کیا تو دوسری طرف عالمی سطح پر پاکستان کی برآمدات کا نظام اس حد تک متأثر ہوا کہ زرِمبادلہ کے ذخائر کو مطلوبہ سطح پر سنبھالنا ممکن نہیں رہا۔ اس کا براہِ راست ایک نتیجہ یہ نکلا کہ روپے کی قدر میں کمی نے قرضوں کے بوجھ میں تشویش ناک حد تک اضافہ کردیا۔ دوسری طرف حالات کی خرابی نے ملکی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ غرضے کہ دہشت گردی نے پاکستان کو جن حالات اور مسائل سے دوچار کیا وہ ملک اور اس کے عوام کے لیے ہر سطح پر اور ہر صورت میں تباہ کن ثابت ہوئے۔

روس کے عالمی طاقت کی حیثیت سے انہدام کے بعد اس یک قطبی دنیا میں عالمی سیاست اور اقتدار پر امریکا کی اجارہ داری کا پرچم ضرور لہرایا، لیکن اِس بے تاج بادشاہت کی قیمت بھی اسے پوری پوری چکانی پڑی۔ امریکا نے نوگیارہ کے بعد افغانستان اور عراق میں جنگ چھیڑ کر اپنی بدمست طاقت کا مظاہرہ تو بے شک کیا اور یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ اس نے مطلوبہ اہداف تو بے شک حاصل کرلیے، لیکن یہ ایڈونچر خود اُس کے لیے بھی ایک بہت مہنگا اور نہایت پیچیدہ تجربہ ثابت ہوا۔

اس کا اندازہ بہت سی باتوں سے لگایا جاسکتا ہے، مثلاً دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کے بعد عالمی سطح پر امریکا کے خلاف سخت ناپسندیدگی کے جذبات وسیع پیمانے پر پیدا ہوئے اور قطبین کے مابین پھیلتے ہوئے بھی نظر آئے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ خود امریکا کی داخلی صورتِ حال بھی جن مسائل کی لپیٹ میں آئی وہ ایک حد تک اسی دہشت گردی کے پیدا کردہ حالات کا ذیلی نتیجہ تھے جو پہلے پہل دنیا میں امریکا کے زیرِاثر دنیا میں رونما ہوئے تھے۔

کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح امریکا نے اپنی شتر بے مہار طاقت کی دھاک بٹھانے کی کوشش کی تھی اسی طرح اُسے اپنے اقدامات کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ ملک کے طول و ارض میں پھیلے ہوئے اُس کے اپنے اہلِ نظر، اہلِ دانش، امن پسندوں اور انسانیت کے لیے آواز اٹھانے والے افراد اور گروہوں کی طرف سے اُس کے رویوں اور اقدامات کی بنا پر اُسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ نوگیارہ کے بعد ممتاز امریکی دانش ور نوم چومسکی نے کئی ممالک کا دورہ کیا اور وہاں مختلف طبقاتِ فکر کے لوگوں سے ملاقات کی اور مختلف فورمز پر دنیا میں ابھرنے والے اس مسئلے کے بارے میں اظہارِخیال بھی کیا۔

نوم چومسکی نے عالمی سیاسی منظرنامے پر امریکا کی اجارہ داری کو نہ صرف کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، بلکہ امریکا جو کچھ خود اور اپنے بعض حلیفوں کے ساتھ مل کر دنیا میں کررہا تھا، اسے ’’دہشت گردی کی ثقافت‘‘ قرار دیا۔ نوم چومسکی نے اس حوالے سے جو کچھ کہا اور لکھا، وہ اخبارات و رسائل کے علاوہ کتابی صورت میں بھی شائع ہوا اور دنیا کے مختلف ممالک میں ان کے خطبات اور کتابوں کے مقامی زبانوں میں تراجم بھی کیے گئے۔ یوں چومسکی کے خیالات سے ایک وسیع و عریض دنیا آگاہ ہوئی اور امریکا پر ہونے والی تنقید کا دائرہ مزید پھیل گیا۔

علاوہ ازیں امریکا میں اکیس ویں صدی کی ان اوّلین دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے جو واقعات رونما ہوئے، ان کے بارے میں امریکی عوام اور اس کے سماجی مفکرین کا ردِعمل وہ نہیں تھا جو اس سے پہلے کے واقعات پر سامنے آتا تھا۔ سماجی مفکرین کے حلقوں اور تھنک ٹینکس میں اب اس مسئلے کو اس انداز سے دیکھا ہی نہیں جاتا جس انداز سے امریکا ساری دنیا کو دکھانے اور سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ امریکا میں اب ایک نوم چومسکی ہی نہیں، بلکہ اس عرصے میں وہاں ایسے بہت سے سماجی مفکرین ہیں جو امریکا میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی ذمے داری براہِ راست امریکا پر ڈالتے ہیں۔

وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے سیاسی عدم توازن، عامۃ الناس کے عدم تحفظ، عالمی سیاست میں اشتعال کی صورت میں سامنے آنے والے عناصر، امریکا کے زیراثر ممالک میں گروہی، لسانی، علاقائی اور مذہبی اختلافات اور عدم برداشت کے رویے کے پھیلاؤ اور بعض ملکوں کے سیاسی تناؤ میں خود امریکا کا براہِ راست یا بالواسطہ کسی نہ کسی سطح پر کوئی کردار ضرور ہے، اور ان سارے مسائل کی اصلاح اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک امریکا اپنی ترجیحات نہیں بدلتا اور اس کے ساتھ ساتھ اُس کی سیاسی پالیسیز میں تبدیلی نہیں آتی۔ اس نوع کی آرا اور تجزیات اب امریکا میں اخبارات، رسائل، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر کھلے عام آتے اور بڑے حلقوں میں عوام تک پہنچتے ہیں۔

2016ء میں جب داعش یا آئی ایس آئی ایس کا موضوع خبروں میں نمایاں ہوکر سامنے تھا اور امریکی عوام کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے امن پسند اور معصوم لوگوں کے لیے خوف کا حوالہ بنا ہوا تھا، انھی دنوں ایک اخبار نے کارٹون شائع کیا تھا۔ کارٹون میں ایک گھوڑا دکھایا گیا تھا جس کے سامنے دنیا کا نیم رخ گلوب روشن تھا۔ گویا گھوڑا دنیا کی سیاحت پر یا شکم پروری کے لیے نکلا ہوا ہے۔

گھوڑے کی گردن اور پچھلی ٹانگوں کے پٹھوں سے واضح ہوتا تھا کہ یہ گھوڑا دراصل امریکا ہے، یا امریکی آشیرباد لے کر نکلا ہوا کوئی علامتی یا طلسمی گھوڑا ہے۔ اس گھوڑے کا پیٹ تناسب سے کہیں زیادہ بڑا دکھایا گیا تھا اور اس میں خود ایک چھوٹا گھوڑا تھا، جس پر سوار شخص کے ہاتھ میں آئی ایس آئی ایس کا جھنڈا تھا۔ مطلب یہ کارٹون بتا رہا تھا کہ دنیا کو خوف میں مبتلا کرنے والا عفریت دراصل کیا ہے اور کہاں اس نے جنم لیا ہے، کس کے ہاتھ میں اس کی باگ ڈور ہے اور اس کا ہدف کہاں تک ہے۔ یہ کارٹون دراصل امریکا کے تھنک ٹینکس سے وابستہ افراد اور سماجی مفکرین کے نظریات و تصورات کی نمائندگی کررہا تھا۔

گذشتہ دنوں امریکا کے ایک تھنک ٹینک ’’نیو امریکا‘‘ نے نوگیارہ کے بعد اپنے ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا جائزہ لیا ہے، جن میں 12 اگست 2017ء کو اور لینڈو میں اور 2016ء میں شارلٹس وائل کے واقعات بطورِ خاص شامل ہیں۔ اس جائزے میں کئی اہم باتیں کہی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر بتایا گیا ہے کہ سفید فام نسل پرستوں نے اس عرصے میں 68 حملے کیے ہیں جب کہ سیاہ فام انتہاپسندوں نے صرف 8۔ علاوہ ازیں سفید فام انتہاپسندوں نے 62 الگ واقعات میں 106 مزید افراد کو بھی موت کے گھاٹ اتارا ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ میڈیا ذرائع نے محسوس کیا ہے کہ امریکا کے موجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت، اسلامی دہشت پسندوں کی مذمت میں تو ضرور پیش پیش نظر آتی ہے، لیکن اپنے ہی ملک میں جو دہشت گردی پروان چڑھ رہی ہے، اُس کے خلاف کچھ کہنے سے ہچکچاتی ہے۔ اس تجزیے میں بہت صاف لفظوں میں اسی بات پر اصرار کیا گیا ہے کہ اس وقت امریکا میں دہشت گردی کی جو صورتِ حال ہے وہ تقریباً تمام تر خود اس کے اپنے داخلی عناصر کی وجہ سے ہے۔ اس تجزیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نو گیارہ کے بعد کسی بھی غیرملکی دہشت گرد تنظیم کے ایما پر یا اُس کے پروردہ لوگوں کے ذریعے امریکا میں دہشت گردی کے کوئی واقعات نہیں ہوئے ہیں۔

گویا نوگیارہ کے موقع پر امریکا اور اس کے اداروں نے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جو کریک ڈاؤن آپریشن شروع کیا تھا، اس میں اُن تنظیموں اور اُن کے سارے رابطہ کاروں کا مکمل طور پر صفایا ہوگیا تھا۔ لہٰذا اب جو کچھ امریکا میں ہورہا ہے، اس کی ذمے داری خارجی عناصر پر قطعی طور پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ امریکا کے موجودہ داخلی حالات اور اُس کے عوام کو پیش آنے والی دہشت گردی کے اب سارے واقعات خود اس کے اندر موجود عناصر کے پیدا کردہ ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں سفید فام افراد کا نسلی تعصب ہے جو دوسری نسلوں خاص طور پر سیاہ فام لوگوں کے خلاف دہشت گردی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ سفید اور سیاہ فام افراد کی آویزش کے واقعات کا تناسب سامنے رکھا جائے تو باآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سیاہ فام افراد نے جو کچھ کیا وہ بالعموم دفاعی حکمتِ عملی یا اپنے تحفظ کے لیے کیا ہوگا، جب کہ سفید فام افراد کا رویہ جارحانہ نظر آتا ہے۔ جارحیت کے اسی رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکا میں اس وقت داخلی سطح پر دہشت گردی کے جو واقعات ہورہے ہیں، اُن کی ذمے داری سفید فام افراد پر عائد ہوتی ہے۔

’’نیو امریکا‘‘ کے اس جائزے میں کچھ تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں جو دہشت گردی پر قابو پانے میں معاون ہوسکتی ہیں۔ اس جائزے میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے مسئلے پر اُس وقت تک قابو نہیں پایا جاسکتا جب تک طاقت ور ریاستیں کم زور ریاستوں پر دہشت گردی کا الزام رکھتی رہیں گی، اور یہ کہتی رہیں گی کہ وہ دہشت گردی کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے میں ملوث ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سب سے اچھی تجویز یونی ورسٹی آف میری لینڈ سے وابستہ ڈاکٹر لہکوا باڈی آن وڈوی نے اپنی کتاب ’’دہشت گردی کی عالم گیریت‘‘ (دی گلوبلائزیشن آف ٹیررازم) میں پیش کی ہے۔ ڈاکٹر آن وڈوی کا خیال ہے کہ دنیا میں ایسی مقتدر اقوام ہیں کہ دنیا بھر کے ذخائر اور مصنوعات کا نظام جن کے ہاتھ میں ہے اور جو اپنے معاشی وسائل کو کسی بھی وقت اپنے لیے ایک سیاسی اور حربی قوت میں تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں تاکہ دنیا کے نظام کو اپنے مفادات کے حساب سے چلا سکیں۔

ڈاکٹر آن وڈوی کا کہنا ہے کہ عالمی نظام اور قوموں کے مابین جو عدم مساوات پائی جاتی ہے، دہشت گردی اُس کی پیدا کردہ ہے۔ اس لیے دہشت گردی کے خاتمے کی واحد صورت یہ ہے کہ قوموں کے مابین پائی جانے والی عدم مساوات اور استحصال کی موجودہ صورتوں کو ختم کرنے کے لیے حکمتِ عملی میں تبدیلی کی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ فوجی مداخلت یا سماجی اقتدار کی دوسری صورتیں، مثلاً کسی ملک پر اقتصادی پابندیاں وغیرہ وقتی طور پر تو مفید ہوسکتی ہیں، لیکن مستقل بنیادوں پر نہیں۔ کچھ وقت کے بعد ایسے اقدامات غیرمؤثر ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ یہ اُن حالات کا تدارک نہیں کرتے جو دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں، یعنی عالمی عدم مساوات۔

امریکا کی اپنی داخلی صورتِ حال جو نقشہ پیش کررہی ہے، وہ خود عدم توازن اور عدم مساوات کا مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کے اپنے معاشرے کے مختلف عناصر کے درمیان تناؤ کی فضا اب تصادم کے مرحلے تک آپہنچی ہے، اور تصادم بھی دہشت گردی کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ اس صورتِ حال کے اثرات اس کے سماج تک محدود نہیں ہیں، بلکہ اس کی معیشت پر بھی صاف طور سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس عرصے میں دو مرتبہ اُس کی اسٹاک ایکسچینج اس سطح تک پہنچی ہے جہاں ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ ایک بار حکومت نے اسے خصوصی فنڈ کا سہارا دے کر سنبھالا اور دوسری بار غیر ملکی خصوصاً چین کی سرمایہ کاری نے اسے سنبھلنے کا موقع فراہم کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکا کا اسٹاک ایکسچینج، بلکہ نظامِ معیشت ایسے جھٹکوں سے خود کو کس طرح محفوظ رکھ سکتا ہے، اور اگر نہیں رکھ سکتا تو اس میں ایسے دھکوں کو سہارنے کی سکت کب تک باقی رہے گی؟

دنیا کے نظام، بقا اور استحکام کے اصولوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سمجھنا دشوار نہیں کہ کسی بھی ملک یا قوم کے لیے تعمیر اور تخریب کے دونوں حیلوں کو بہ یک وقت اختیار کرکے وقتی فائدہ اٹھانا تو بے شک ممکن ہے، لیکن اس طرح دوررس نتائج بہرحال حاصل نہیں کیے جاسکتے، اور نہ ہی ایسی صورتِ حال میں اپنی بقا کا یقینی سامان کیا جاسکتا ہے۔ امریکا کو اس وقت جس بنیادی مسئلے کا سامنا ہے، وہ تعمیر و تخریب کے بہ یک وقت اقدامات کا پیدا کردہ ہے۔ امریکا نے ایک طرف دہشت گردی کے عفریت کو دنیا کے نقشے پر ابھرنے اور پھیلنے میں مدد دی ہے اور دوسری طرف اس کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں۔

دونوں طرح کے حالات میں اس نے اپنے فوائد پر نگاہ مرکوز رکھی ہے اور حالات و واقعات سے ہر ممکن فائدہ اٹھایا ہے۔ دائیں بائیں بکھیرے گئے انگاروں سے اُڑ اُڑ کر اگر کچھ چنگاریاں خود اُس کے دامن میں جاپڑیں اور اب وہاں آگ بھڑکانے کا سبب بن رہی ہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ ایسا اگر ہورہا ہے تو عناصر کی اس دنیا کے اصولوں کے عین مطابق ہورہا ہے، اور بالکل فطری انداز سے۔ ایڈونچر کے ہر تجربے کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ امریکا کے داخلی حالات اس وقت ہمارے سامنے اسی قرض کی ادائی کا ایک منظر پیش کررہے ہیں۔

پروفائلز: صدر پاکستان کے امیدواروں کون ہیں؟

$
0
0

عارف علوی:

عارف الرحمان علوی 29 جولائی 1949ء کو کراچی میں پیدا ہوئے اور پیشے کے لحاظ سے دندان ساز ہیں۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں ہی عارف الرحمان علوی کی دلچسپی سیاست میں تھی۔

لاہور میں ڈی مونٹمورنسی کالج آف ڈنٹسٹری میں تعلیم کے دوران ہی وہ اس وقت کے صدر ایوب خان کے خلاف احتجاج کرنے والی طلباء یونینز کے متحرک کارکن تھے۔ بعدازاں 1979 میں کراچی سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر انہوں نے الیکشن لڑا۔ عارف علوی 1996 میں تحریک انصاف کا حصہ بنے اور اس کے بانی اراکین میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ 1996ء میں پی ٹی آئی کی سینٹرل ایگزیکٹو کونسل کے ایک سال کے لیے رکن بنے جس کے بعد 1997ء میں انہیں پی ٹی آئی سندھ کا صدر بنایا گیا۔

عارف علوی پاکستان تحریک انصاف کے 2006ء سے 2013ء تک سیکرٹری جنرل رہے۔ وہ پہلی بار پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر پاکستان کے عام انتخابات، 2013ء میں حلقہ این اے-250 (کراچی-12) سے 77 ہزار سے زائد ووٹ لے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ 2013ء کے انتخابات میں عارف علوی واحد پی ٹی آئی امیدوار تھے جو سندھ سے منتخب ہوئے۔

2016ء میں وہ پی ٹی آئی سندھ کے صدر اور 2018 کے عام انتخابات میں این اے247 سے ایک مرتبہ پھر سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔

 

مولانا فضل الرحمان:

مولانا فضل الرحمان 19 جون، 1953ء کو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے عبد الخیل میں پیدا ہوئے۔ مولانا نے اپنی ابتدائی تعلیم ایک مقامی دینی مدرسے میں حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے جامعہ پشاور سے 1983ء میں اسلامک اسٹڈیز میں بی۔ اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اس کے بعد وہ مصر کے جامعہ الاظہر میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے گئے اور وہاں سے ایم۔ اے کا امتحان پاس کیا۔

مولانا فضل الرحمان پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) گروپ کے مرکزی امیر اور اسی جماعت کے سابق سربراہ اور صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے ہیں۔ وہ اس وقت مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے بھی سربراہ ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) پاکستان کے صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بہت اثر ورسوخ رکھتی ہے۔

مولانا فضل الرحمان 1988ء میں قومی سطح کی سیاست میں آئے اور پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن بنے اس کے بعد سے وہ چھ مرتبہ قومی اسمبلی کےرکن منتخب ہوئے۔2002 میں ان کی قیادت میں بننے والے اتحاد ایم ایم اے نے صوبہ سرحد(موجودہ خیبرپختونخوا) میں حکومت میں قائم کی۔

انہیں 2013ء کے انتخابات میں بھی اپنے حلقہ سے کامیابی ہوئے اور نواز شریف کے درخواست پر وفاقی حکومت میں شریک ہوئے لیکن 2018 میں انہیں پہلی مرتبہ اپنی آبائی نشست پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔مولانا فضل الرحمان پر دو مرتبہ قاتلانہ حملے بھی ہوئے جس میں محفوظ رہے۔

 

اعتزاز احسن:

چوہدری اعتزاز احسن 27 سمبر 1945 کو مری میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ایٹچیسن کالج سے حاصل کی اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ بعدازاں وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں کمبرج میں ڈاؤننگ کالج چلے گئے جبکہ انہوں نے اپنی وکالت کی ڈگری گریز ان سے حاصل کی۔

اعتزاز احسن اپنے طویل سیاسی کریئر کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن رہے ہیں۔ انہیں 1975 میں وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی پنجاب بنایا گیا۔ 1988 میں وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کے دوران وزیر داخلہ بنے۔

اعتزاز احسن 1994 میں پہلی مرتبہ ایوان بالا یعنی سینیٹ میں بیٹھے۔ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران انہیں وفاقی وزیر برائے قانون، انصاف اور انسانی حقوق بنایا گیا۔ 2002 میں وہ ایک مرتبہ پھر رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔

انہوں نے 2012 سے مارچ 2018 کے درمیان بطور سینیٹر خدمات سرانجام دیں۔

وہ اپنی ولولہ انگیز تقاریر کے لیے شہرت رکھتے ہیں جبکہ وہ ایک شاعر اور مصنف بھی ہیں۔

اعتزاز احسن کو ایک خصوصی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے پاکستان کے دو سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کا عدالت میں دفاع کیا۔ انہوں نے 2007 سے 2008 کے درمیان بطور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بھی خدمات سرانجام دیں۔

سیاں مورے کوتوال، اب ڈر کاہے کا!

$
0
0

یہ تو ہم نے بارہا سنا بھی ہے اور دیکھا بھی ہے کہ ‘چور چوری سے جائے، ہیرا پھیری سے نہ جائے’۔ یہ بھی سن رکھا ہے کہ ‘چور کا بھائی گرہ کٹ’، مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ چور کی کوتوالی کرنے والا ہی چور نکلے گا۔۔ یا یوں کہنا بہتر ہوگا کہ چوروں اور ڈاکوؤں سے بڑھ کر کوتوال چوروں کے سردار کا خدمت گار!

یہ خبر مجھ پر اُس وقت آشکار ہوئی جب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کراچی میں ایک نجی اسپتال کے دورے پر پہنچے جہاں سندھ کے سابق وزیر اور رہنما پیپلز پارٹی شرجیل میمن کو شدید علیل قرار دے کر علاج کے لیے جیل سے منتقل کیا گیا تھا۔ اس اسپتال میں گذشتہ کئی ماہ سے ان کا ‘علاج’ جاری ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ اسپتال پیپلز پارٹی کے ہی ایک رہنما کی ملکیت ہے اور جسٹس ثاقب نثار اس سے قبل ایک بار شرجیل میمن کو جیل کے اسپتال کے خصوصی وارڈ سے واپس جیل منتقل کرواچکے ہیں، تاہم کچھ عرصے بعد ایک بار پھر ان کو مبینہ طور پر شدید علیل ظاہر کرکے نجی اسپتال منتقل کر دیا گیا، لیکن کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اب بھانڈہ پھوٹنے والا ہے۔

یکم ستمبر کی صبح جب چیف جسٹس صاحب اسپتال کی پہلی منزل پر واقع رکن صوبائی اسمبلی کے کمرے میں پہنچے تو وہاں انہوں نے طبی عملے کے بجائے شرجیل میمن کے ملازمین کو موجود پایا ۔شاید یہ منظر ان کے لیے اتنا حیرت انگیر نہیں ہوتا اگر چیف جسٹس صاحب کے سامنے اسپتال کے کمرے سے شراب اور نشے کی دیگر ممنوعہ اشیاء برآمد نہ ہوتیں۔

رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس نے فوری طور پر شرجیل میمن کے خون کے نمونے لیبارٹری بھجوانے کا حکم جاری کرتے ہوئے پولیس، سندھ انتظامیہ اور دیگر ذمہ داروں کو طلب کرلیا۔ ساتھ ہی ساتھ چیف جسٹس نے رکن سندھ اسمبلی کو جیل منتقل کرنے اور وارڈ سے مبینہ طور پر برآمد شدہ شراب کی بوتلوں اور دیگر اشیاء کو پولیس سے لیبارٹری ٹیسٹ کروا کر رپورٹ پیش کرنے کا بھی حکم دے دیا۔ عدالت پہنچ کر انہوں نے اٹارنی جنرل کو طلب کیا اور اس واقعے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مکمل تحقیقات کا حکم دیا۔

پاکستان بھر میں کسی بھی قیدی کو جیل سے علاج کے بہانے اسپتال منتقل کروانے اور دورانِ قید جیل میں آرام دہ سکونت کی فراہمی کا ‘انتہائی منافع بخش کاروبار’  کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ زیادہ تر قیدیوں کے کوتوال ہی یہ سہولت بھاری معاوضوں کے عوض آسانی سے فراہم کرتے آ رہے ہیں۔ انہیں کوئی خوف نہیں ہوتا، اُن کے سر پر پہلے ہی سے جیل حکام اور متعلقہ ڈاکٹر کا ہاتھ ہوتا ہے کیوں کہ ان کے بغیر قیدیوں کے لیے سہولت کاری کا یہ ‘انوکھا کاروبار’ چلانا ممکن نہیں۔

یہ تو سب کو یاد ہی ہوگا کہ حال ہی میں سندھ کے ایک نہایت طاقتور شخصیت کے بیٹے کو بھی اسی طرح کی سہولت دے کر جناح اسپتال منتقل کردیا گیا تھا جبکہ اُس پر ایک نوجوان پڑوسی کے بہیمانہ قتل کا جرم ثابت ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ پنجاب میں دن دھاڑے قتل کی ایک واردات میں ملوث طاقتور شخصیت کے بیٹے کو بھی کوتوالوں کی ملی بھگت سے ہی بیرون ملک فرار کروادیا گیا تھا۔

شہرِ کراچی کی جیلوں کا تو عجیب ہی حال ہے۔گذشتہ دنوں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی سینٹرل جیل میں قیدیوں کے قبضے سے بڑی تعداد میں موبائل فون، نشے آور اشیاء سمیت دیگر ممنوعہ چیزیں برآمد کیں۔ خیال یہ تھا کہ اب پیسے کے زور پر سہولیات کی فراہمی کا یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہوگا، لیکن یہ سوچ بھی خام خیالی ثابت ہوئی کیونکہ ہمارے معاشرے میں ایک سے بڑھ کر ایک کھلاڑی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں کے بعد بس ‘سہولت’ کی فراہمی کے ریٹ بڑھا دیئے گئے، یعنی بااثر قیدیوں کے لیے ‘پیسہ پھینک، تماشہ دیکھ’ اور ‘جس کی لاٹھی اُس کی بھینس’ والے محاورے یہاں سو فیصد صادق آتے ہیں۔

چیف جسٹس صاحب کے اس اقدام پر رد عمل دیتے ہوئے محترم آصف علی زرداری نے کہا کہ ‘جب چیف جسٹس چھاپے مارنے لگے تو ہم کیا کہیں؟’ انصاف کا قتل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے بجائے سرے سے حقیقت سے یوں انکار کرنے کو کیا ڈھٹائی نہیں کہا جاسکتا؟ یا یہ سچ کو جھوٹ کا رنگ دینے کی کوشش نہیں؟ ایسی صورت حال میں سوال یہ بنتا ہے کہ اگر پولیس قانون کی عملداری اور نگہبانی کے برعکس مجرموں کی ساتھی اور سہولت کار بن جائے تو معاشرے کو تباہی سے کون بچاسکتا ہے؟ ان واقعات اور ایسے رویوں کے ذریعے نئی نسل کو عجیب سبق دیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ بلاشبہ معصوم پاکستانیوں کو بنا کسی جرم کے سزا دیئے جانے کے مترادف ہے۔ کیا لا قانونیت اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے تباہ کن دور کا خاتمہ نئے پاکستان میں بھی ممکن نہیں؟

ایک جانب غریب اور بے گناہ جیلوں میں سڑتے رہے ہیں اور دوسری جانب اشرافیہ جرم پر سزا ملنے کے باوجود جیل کے بجائے اسپتالوں میں عیش و عشرت کی زندگی گزارتے رہے ہیں۔ المیہ یہ کہ غریب قیدی اگر شدید بیمار بھی ہو جائے تو اس کی قسمت میں بے بسی کی موت یا کربناک زندگی کے علاوہ کچھ نہیں۔

یہ تو سب نے ہی سنا ہوگا کہ ‘ظلم اور کفر پر مبنی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے لیکن لاقانونیت اور بے انصافی پر نہیں’۔ سیانے کہتے ہیں کہ انصاف کی بلا امتیاز فراہمی ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن لا قانونیت اور بے انصافی عوام میں ناامیدی پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں، جس پر اگر فوری قابو نہ پایا جائے تو یہ انقلاب کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اگر حکومت اور انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں دیانت اور ایمانداری سے ادا کرنے میں نہ صرف ناکام بلکہ بری طرح ناکام ہو جائے تو اس کا کیا حل ہے؟

کچھ لوگ اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ اور انتظامیہ کو اپنے اپنے کام کرنے چاہئیں لیکن جب صورت حال یہ ہو کہ طاقتور اشرافیہ بے خوفی کے ساتھ جرم پر جرم کیے جائے اور ان سے پوچھنے و الا کوئی نا ہو اور اگر کسی طرح وہ قانون کی گرفت میں آ بھی جائیں تو ان کے ‘گرہ کٹ’ انہیں بچانے کے لیے زمین اور آسمان ایک کر دیں تو کسی نا کسی کو تو ہمت دکھانا ہوگی، کیونکہ اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو برائی کے خلاف نا صرف آواز اٹھانا ہوگی بلکہ عوام کو بھی آگے آنا ہوگا۔

مملکت خداد پاکستان ہم سب کے لیے اللہ عزو جل کی طرف سے ایک انمول تحفہ ہے ، جو قدرتی دولت سے مالا مال ہے۔ سونے، چاندی، تانبے،کوئلہ اور ہیرے جیسی قیمتی دھاتوں سے بھرے زیرِ زمین خزانوں کے ساتھ ساتھ سفید، کالے اور رنگ برنگے سنگ مرمر کے پہاڑی سلسلے کسی اور ملک میں کہاں؟ پھر زرخیز زمین، بہتے دریا، خوبصورت سیاحتی مقامات کے علاوہ ذہین اور قدرتی صلاحیتوں سے مالامال انسانی و افرادی قوت جیسی دولت کسی دوسرے ملک کو میسر نہیں ۔ ہماری اس جنت نظیر دھرتی کو اگر ضرورت ہے تو دیانت اور ایمانداری سے کام کرنے والے حکمرانوں کی، قانون کے بلا امتیاز عملدرآمد کی، مجرموں اور بدعنوانی کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی، کمزور ہو یا طاقتور ، غریب ہو یا امیر سب سے برابری کے سلوک کی، اقربا پروری اور سفارش کی لعنت سے نجات کی، میرٹ پر بھرتیوں اور قومی اداروں کو پوری ایمانداری اور صلاحیت سے چلانے کی، بیرونی امداد پر انحصار اور کشکول توڑنے کی، سیاسی اور سماجی رواداری کی اور بھروسے کی۔

سچ ہے ‘ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی’، لیکن ایک تازہ ترین رپورٹ یہ ہے شرجیل میمن کے معاملے میں درج پولیس رپورٹ کے مطابق وارڈ میں شراب رکھنے کی ذمہ داری رکن اسمبلی پر عائد نہیں ہوتی۔ اب اس پر کہیں تو کیا کہیں، سوائے اس کے کہ ‘سیاں مورے کوتوال، اب ڈر کاہے کا’….


پاک فوج کو سلام

$
0
0

تحریر حافظ ظفر رشید
دنیا میں جب بھی کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے کا منصوبہ بناتا ہے تو سب سے پھلے وہ مخالف ملک کی فوجی قوت کا اندازہ لگانے کے ساتھ ساتھ فوج کے جوانوں کا جذبہ، جرات ، بھادری ، دلیری ، جوانمردی، ، استقامت ، دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس فوج اور فوج کے ساتھ عوام کے تعلقات کو ضرور پرکھتا ھے
ان تمام تر ذمہ داریوں میں پاک فوج کا شمار بحری ، بری اور ، دفاعی لحاظ سے دنیا کی بھترین اور کامیاب ترین فوج تصور کیا جاتا ہے اور پاک فوج کی قوت اور عوامی طاقت کا اندازہ لگانا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں ہے
پاک فوج کی اپنے وطن سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ھے کہ اپنے خاندان کی محبت و شفقت سے دور اپنے بیوی بچوں سے دور ، اپنوں کی خوشی و غمی کو اپنے وطن کے جذبہ پر قربان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے وطن کی حفاظت کی خاطر دن ھو یا رات ، عید الفطر یا عید الاضحٰی، سردی ھو یا گرمی ، بارش ھو یا طوفان ان سب باتوں کی پرواہ کئے بغیر اپنی جان ھتیلی پر رکھ کر گولیوں کی بوچھاڑ میں، بارود کی آگ میں، دشمن کی سرزمین پر بلاخوف و جھجک، موت کو صبح شام اپنی آنکھوں کے سامنے رکھ کر عوام اور ملک کی خدمت اس انداز اور اس جذبہ سے کرتی ہے جسکی جتنی تعریف کی جائے کم ھے
ان پاک وطن کے سپاہیوں کے لیے وہ الفاظ نھی جن سے انکا شکریہ ادا کیا جائے یا خراج تحسین پیش کیا جائے
پاک آرمی اس عظیم فوج کا نام ھے جس کے سپاہی سے زیادہ اس کے سینئر کے دل میں وطن پر جان قربان کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے
اگر ملک کے کسی کونہ سے اس فوج کو پکارا جائے تو انکی گاڑیاں فورا سٹارٹ ہو جاتی ھیں پٹرول ختم ھونے کا بھانہ بھی نھی انکے پاس ، دشمن کے للکارنے سے قبل ھی انکے کاندھے پر موجود اسلحہ حرکت میں آ جاتا ھے انکے جذبہ اور جنون میں اضافہ ھو جاتا ھے ، تمام تر مشینری حرکت میں آ جاتی ھے،
جبکہ اسکے برعکس عوام کو جب بھی انکے منتخب کردہ نمائندوں اور پارلیمنٹ کے نواب زادوں کی ضرورت پڑی تو انھوں نے صرف tv پر بیٹھ کر ایک بیان جاری کرنے کو ھی اپنا فرض سمجھا
لیکن پاک فوج طوفانی بارشوں میں ، سیلاب زدگان کی امداد کے لئے، زلزلہ زدگان کے لئے، یا کسی اور مصیبت کے لیے عوام کی نا صرف محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا سبب بنی بلکہ انکی مالی امداد کا بھی ذریعہ بنی
یھی وہ بنیادی وجوہات ھیں جنکی وجہ سی عوام الناس کے دلوں میں اپنی اس عظیم الشان، باھمت ، بلند حوصلہ کی حامل ، فوج کی عظمت و قدر میں دن بدن اضافہ ھوتا جا رھاھے میں خود ایک فوجی کا بیٹا ھوں اسلئے فوج کا وطن پر قربان ھونے کیلئے جس جذبہ و ولولہ کا میں نے خود مشاہدہ کیا اس کو بیان کرنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں یہ خود ھر تنگی، مشکلات، کٹھن مرحلے کا سامنا کرنے کے باوجود اپنی عوام اور وطن کا مسکراہٹ سے استقبال کرتے ہیں
آج جو لوگ پاک فوج پر تنقید کے تیر برسا رھے ھیں وہ پھلے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ انھوں نے ملک کے لئے کونسی قربانی دی ،
ملک کو کیا دیا ملک کی کونسی خدمت کی
ملک دشمن عناصر کا کتنی بار مقابلہ کیا ، سخت سرد راتوں میں کتنی راتیں باڈر پر دشمن کا مقابلہ کرتے گزاریں، اسلئے پاک فوج کے ، جذبات، احساسات، ، اور ناقابل فراموش کارناموں کو سنہری حروف سے لکھا جائے گا
اللہ پاک فوج کے ھر ھر سپاھی کی حفاظت فرمائے
اے میرے وطن کے سپاہیوں آپ اپنی خدمات جاری رکھیں ان تنقید کرنے والوں پر توجہ نادیں کیونکہ دشمن ھماری فوج کو شکست دینے میں اپنی ناکامی تسلیم کر چکا ھے اس لئیے اب اس نے ان غداروں کو خرید کر ایک نیا محاذ کھولنے کا اردہ کیا لیکن انشاءاللہ اس میں بھی بری طرح ناکام ہو کر رھے گا
اے میری پاک فوج آپ کے ھر ھر سپاہی کو ظفررشید سلام پیش کرتا ھے

وکیلوں کی مختلف اقسام، وکیل کی زبانی

$
0
0

(نوٹ یہ تحریر بذریعہ وٹس اپ موصول ہوئی لکھاری کا علم نہیں مگر حسب حال ہے)

ہم پر یہ راز کھلا کہ دیگر مخلوقات کی طرح وکیلوں کی بھی کئی اقسام پائ جاتی ہیں ۔

‎جن کی حتمی تفصیلات بارکونسل کے مستقل افسران کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔کچھ ناکام وکیلوں کی مدد سے ہم تاحال وکیلوں کی جن اقسام کو دریافت کر پا ئے ہیں وہ درج زیل ہیں۔

اصلی وکیل:‎سب سے پہلے تو اصلی وکیل، یہ وکیلوں کی وہ کمیاب قسم ہے جو شاذ شاذ ہی نظر آتے ھیں۔یہ ھر نئے قانون سے واقفیت کی کوشش میں سرگرداں نظر آتےہیں۔ عموماََ ان کے جلو میں دو نہایت تابع فرماں قسم کے ننھے وکیل یعنی جونیئر ہوتے ہیں، جن میں سے ایک کے ہاتھ می مقدموں کی فائلیں اور دوسرے کے ہاتھوں میں کوئی پی ایل ڈی کی موٹی سی کتاب یا اصل وکیل کی ڈائری ہوتی ہے ، جو اس کے لئے کسی کتاب سے کم نہیں ہوتی یہ دونوں اصل وکیل کے دائیں بائیں چلتے ہوئے انتہائی ہنر مندی سے ایک ایسی مثلث تشکیل دے لیتے ہیں جس میں اصلی وکیل اور انکے درمیان شرقاََ غرباََ ڈیڑھ قدم کا فاصلہ اور آپس میں شمالََ جنوباََ ٹھیک تین قدم کا فاصلہ برقرار رہتا ہے ۔

‎اصلی وکیل اپنے مقدمات کی پیروی خود کریں یا کسی جونیئر کو بھیجیں ہر دو صورت میں انہیں مقدمے کی ٹھیک ٹھیک صورتحال معلوم ہوتی ہے ۔ اور یہ مقابلے کے وکیل سے ایک قدم آگے کی سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں گفتگو کم کرتے ہیں سوچتے زیادہ ہیں ان کے منہ سے نکلنے والا ایک ایک جملہ آئین کی پُر پیچ ندیوں میں نہایا ہوا، اور قانون کی موٹی موٹی کتابوں کی ہوا سے سکھایا ہوا ہوتا ہے ۔ اس پہلی قسم کے وکیلوں کو انسانوں کے بجائے کتابوں کے درمیان رہنا زیادہ پسند ہوتا ہے۔۔۔دفتر ان کا وقت زیادہ گزرتا ھے ۔سوائے جج حضرات کے ، یہ عام زندگی میں کسی سے نہیں الجھتے ، چونکہ یہ قسم شاذ و نادر نظر آتی ہے لہذا ان کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں۔

قبلی وکیل:یہ عموماً میرون ٹائ میں ملبوس نظر آئیں گے اور اس تکلیف کے پیش نظر کے ان کو مقدمہ میں پیش ھو نے کی ابھی اجازت نہ ھے ان کا خیال ھوتا ھے کہ اگر موصوف استاد کی جگہ یہ ھوتے تو ان کی شعلہ بیانی قابل سماعت ھوتی جبکہ مستقبل میں اس کے بالکل برعکس ھوتا ھے اور دوران بحث اپنی آواز بمشکل سنائ دیتی ھے۔

منتھلی وکیل:یہ قسم سرکاری دفاتر میں پائ جاتی ھے جن کو منتھلی تنخواہ کی ترسیل ان کے بینک اکاونٹ میں مل جاتی ھی اور ان کا کام صرف عدالتوں کے باھر کھڑے ھو کر اس وکیل کا انتظار کرنا ھوتا ھے جس کو اس سرکاری ادارے نے متعین کیا ھوتا ھے۔ ان کے پاس ایک سرکاری گاڑی ھوتی ھے جس میں پیٹرول ڈلتا ھی رھتا ھے۔ ان کا قوانین کی تشریح سے کوئ واسطہ نہیں ھوتا اور الیکشن کے دن بھی وارد ھوتے ھیں۔

الیکشنلی وکیل:یہ جوائنٹ سیکرٹری سے لے کر صدر تک کا الیکشن لڑتا ھے اور وہ کچھ کرتا ھے جو ساری اقسام کے وکیل مل کر بھی نہیں کر سکتے۔۔۔۔ میرا مطلب بار کی خدمت۔۔۔۔۔ کرتا ھے۔۔۔

جبلی وکیل:جبل عربی میں پہاڑ کو کہتے ھیں ۔۔۔تو شاھیں ھے بسیرا کر لا فرموں کی چٹانوں پر۔۔۔۔ اس وکیل کو اس کے علم کے عوض دس گنازیادہ ڈالر ملتے ھیں۔ اس کی زندگی پرتعیش اور اکثر رنگین ھوتی ھے۔۔۔ فکر معاش اس کا مسلۂ نہیں ھوتا بلکہ مزید تر معاش از خود اس کی تلاش میں ھوتا ھے۔۔۔۔ویک اینڈ پر اس کا خرچہ ایک سول جج کی ماہانہ تنخواہ کے برابر ھو جایا کرتا ھے۔۔۔ یہ اکثر سوال کرتا پایا جاتا ھے کہ آجکل ھائ کورٹ کی عمارت کہاں واقع ھے۔۔۔وجود زن سے ان کی تصویر کائنات میں رنگ سنبھالے نہیں سنبھلتے۔۔۔۔۔پردہ پوشی درست است

نسلی وکیل:‎ان کے علاوہ وکیلوں کی ایک قسم نسلی وکیل بھی ہے ، یہ وکیلوں کی وہ قسم ہے جو نسل در نسل‎وکالت سے وابستہ ہے ان میں کچھ صرف ددیال کی طرف سے واکالت ورثے میں پاتے ہیں اور کچھ نجیب الطرفین وکیل ہوتے ہیں ادھر ابا اور دادا وکیل اور ادھر اماں اور نانا وکیل ۔ وکالت ان کی رگوں میں دوڑ تی ہے ۔ اور اگر انہیں وکالت سے دلچسپی نہ بھی ہو تب بھی یہ کامیاب وکیل ثابت ہوتے ہیں ۔ گھرانے کا گھرانا وکیل ہوتا ہے نہار منہ مقدموں کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ خاندان میں کوئی جج بھی ہوجائے تو سونے پہ سہاگہ ۔ نسلی وکیلوں کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی، انہیں بچپن ہی سے وکالت کے داؤ پیچ سکھائے جاتے ہیں جس سے یہ اسکول میں اساتذہ اور ساتھ پڑھنے والے بچوں کی زندگی مشکل کردیتے ہیں بعد کو یہی مشق شدہ تربیت جج صاحبان کے لئے دردِ سر بنتی ہے ۔ ایسے واقعات بھی سننے میں آئے ہیں کہ بھر ی عدالت میں مقدمے کی پیروی کے دوران دلائل دیتے ہوئے وکیل صاحب نے “آئی آبجیکٹ مائی لارڈ” کے بجائے روانی میں ” آئی آبجیکٹ بڑے ماموں” کہہ دیا۔

‎ایک اعتبار سے یہ مظلوم بھی ہوتے ہیں کہ کسی مقدمے کی بیروری میں تاخیر سے پہنچنے پر جو ڈانٹ جج صاحب سے کمرہِ عدالت میں پڑتی ہے وہی ڈانٹ رات کو کھانے کی میز پر انہیں جج صاحب سے بحثیت والدِ محترم دوبار سننے کو ملتی ھے

کسلی وکیل:‎نسلی وکیلوں کو جہاں بہت سے فوائد ہیں وہیں بہت سے نقصانات بھی ہیں ، ان کے مقابلے میں وکیلوں کی ایک دوسری قسم جسے “کسلی وکیل” کہا جاتا ہے ہمیشہ آرام سے رہتی ہے ۔ ان کی نسبت ان کی کسل مندی کی بنیاد پر ہے ۔ یہ انتہائی سست اور کاہل قسم کے وکیل ہوتے ہیں ، ایک تو عدالتی نظام کی رفتار پر پہلے ہی تنقید کی جاتی ہے ، کسلی وکیل اس رفتار کو اور سست کردیتے ہیں ، ذرا ذرا سی بات بلکہ بات بے بات پیروئی کی نئی تاریخ لینا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ ” تاریخ پہ تاریخ ۔۔۔ تاریخ پہ تاریخ”جیسے مشہور فلمی ڈائیلاگ انہیں کسلی وکیلوں کی مرہونِ منت ہیں ۔ یہ زیادہ تر وقت اپنے دفاتر میں گزارتے ہیں بار کونسل میں کم آتے ہیں ۔ عدالتوں میں اس سے بھی کم جاتے ہیں ۔ یہ کبھی کبھی بار کونسل کے سوفوں میں یوں دھنس کے بیٹھے نظر آتے ہیں کہ کوٹ پشت سے اٹھ کر گدی سے ہوتا ہوا سر کے اوپر آکر ایک موکلہ سا بنا لیتا ہے جس سے منہ نکال کر یہ بے دلی اور نفرت سے چاک و چوبند وکیلوں کو گھورتے ہیں ۔ ویسے تو یہ تمام لوگوں کو گھورتے ہیں مگر ان کےغضب کا سب سے زیادہ شکار ، “پسلی وکیل ” ہوتے ہیں ۔

پسلی وکیل:‎جی ہاں ، “پسلی وکیل”یہ وہ وکیل ہیں جن کیلئے محاورے کا ڈیڑھ پسلی بھی زیادہ معلوم ہوتا ہے ۔ معصوم معصوم چہروں والے یہ ننھے وکیل ، اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے پڑھائی میں بہت آگے ہوتے ہیں ۔ یہ بچپن میں غذا سے حاصل ہونے والی توانائی کا بڑا حصہ، اپنی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں استعمال کرتے ہیں لہذا جسمانی نشونما کی رفتار سست پڑجاتی ہے ۔ اگر ایسے چار چھ پسلی وکیل ایک جگہ جمع ہوں اور پس منظر سے عدالت کی عمارت ہٹا دی جائے ، تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسکول کے بچے سالانہ ٹیبلو کی تیاری کررہے ہیں ۔

‎ایسے وکیل عموماََ جرائم کے مقدموں سے دور رہتے ہیں ، عموماََ ایسے مقدمات کا انتخاب کرتے ہیں جس میں کسی زور آور موکل سے واسطہ نہ پڑےمثلاََ مالی بے ضابتگی، نام کی تبدیلی ، ملکیت کی منتقلی، اور صلاح نامہ وغیرہ

ٹسلی وکیل:ان کے بالکل مخالف ، وکیلوں کی ایک سب سے خطرناک قسم پائی جاتی ہے جسے “ٹسلی وکیل ” کہا جاتا ہے ۔ یہ “ٹسلی” لفظ ٹسل سے ہے ۔ بمعنی اڑ جانا، ضد کرنا، کینہ رکھنا، جھگڑا کرنا ، دشمنی رکھنا، اس لفظ میں یہ تمام کیفیات یکجا ہیں ۔ اس نوع کے وکلا ء کے پاس زیادہ تر مقدمات اپنے ہی قائم کردہ ہوتے ہیں ۔جو انہوں نے اپنے قرب و جوار کے لوگوں پر مختلف اوقات اور مختلف کیفیات میں دائر کئے ہوتے ہیں ۔جن میں عام طور سے محلے کا دھوبی ، حجام، گاڑی کا مکینک، بچوں کے اسکول کا ہیڈ ماسٹر، سسرالی رشتہ دار، الغرض جہاں جہاں ان کی ٹسل ہوجائے یہ وہیں مقدمہ داغ دیتے ہیں ۔ یہ وکیل اپنی وکالت کی سند کا بے دریغ استعمال اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں ۔ بعض اوقات تو مقدمہ ہارنے کے بعد مقابلے کے وکیل تک پر مقدمہ داغ دیتے ہیں ۔

وصلی وکیل:‎البتہ وکیلوں کی سب سے زرخیز قسم وصلی وکیل ہوتے ہیں ۔ یہ صرف عدالتی شادیاں یعنی کورٹ میرج کرواتے ہیں۔ ان کے پاس کبھی مقدمات کی کمی نہیں ہوتی ۔ بلکہ عدالتی شادیوں کے نتیجے میں عداوتی مقدمات کا ایسا بیج بو تے ہیں جس سے دوسرے وکیلوں کا دال دلیہ بھی جاری ہوجاتا ہے ۔ حالانکہ بارکونسل میں ان کی زیادہ آؤ بھگت نہیں ہوتی مگر اعداد و شمار سے ثابت کرنا مشکل نہیں کہ یہی طبقہء وکیلاں ساٹھ فیصد وکیلوں کیلئے معاشی راہیں ہموار کرتا ہے ۔

کیا افغانستان واقعی امریکا کے لیے ایک اور ویتنام ہے؟

$
0
0

تحریر: ڈاکٹر مونس احمر

جب سے امریکا نے افغانستان میں مداخلت کی ہے، تب سے ویتنامی اور افغانی جنگوں کا اکثر موازنہ کیا گیا ہے۔ امریکا کو ویتنام میں شدید نقصان اٹھانا پڑا اور یہ جنگ امریکا کے لیے ایک بُرا خواب ثابت ہوئی جہاں پر اب بھی اس سے جنم لینے والے صدمے کی وجہ سے قومی یادداشت میں تلخ یادیں موجود ہیں، وہاں افغانستان میں بھی کوئی پھولوں کی سیج نہیں رہی ہے۔

آئیں یادیں تازہ کرتے ہیں کہ امریکا ویتنام میں کس طرح داخل ہوا۔ 1945ء میں ایک قومی آزادی پسند اتحاد ویت منہہ (Viet Minh) نے ہو چی منہہ (H Chí Minh) کی قیادت میں فرانسیسی غلبے کے خلاف دراندازی شروع کردی (فرانس نے 19ویں صدی کے وسط میں ویتنام کو کالونائز کرلیا تھا۔)

یہاں سے تناؤ میں اضافہ ہوا اور جنوری 1950ء میں عوامی جمہوریہ چین اور سوویت یونین نے شمال میں ہنوئی (Hanoi) میں قائم ویت منہہ کے ڈیموکریٹک ریپبلک آف ویتنام کو جائز حکومت کے طور پر تسلیم کرلیا۔

اگلے ہی ماہ امریکا اور برطانیہ نے سیگون (Saigon) میں سابق حکمران بو ای (Bo i) کی زیرِ قیادت فرانس نواز حکومت کو ویتنام کی جائز حکومت کے طور پر تسلیم کرلیا۔ امریکی حکومت نے ویتنام جنگ میں اپنی شمولیت کو جنوبی ویتنام پر کمیونسٹ غلبے کو روکنے کے طور پر لیا۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی کے طور پر امریکا نے ویتنام میں لڑ رہی فرانسیسی افواج کو مالی اور عسکری امداد فراہم کی۔ 1950ء کی بہار سے امریکی مداخلت صرف فرانسیسی افواج کو امداد فراہم کرنے سے بڑھ کر براہِ راست عسکری مدد تک جا پہنچی۔ بتدریج امریکا نے باقاعدگی سے پہلے سے بھی زیادہ فوجی امداد بھیجنی شروع کردی اور 1965ء میں امریکی افواج زمینی لڑائیوں میں شامل ہوگئیں۔ اپنے عروج پر ان کی تعداد 5 لاکھ تھی اور وہ مسلسل فضائی بمباری کی مہمات میں بھی شریک رہیں۔

1968ء میں ویتنامی جنگ کے لیے ایک موڑ آیا۔ یہ وہ سال تھا جب زمین پر 5 لاکھ سے زائد افواج اور زبردست عسکری قوت ہونے کے باوجود امریکا نے پیرس میں امن مذاکرات پر رضامندی ظاہر کردی۔ یہ اقدام جنوبی ویتنام کے نیشنل لبریشن فرنٹ کو شکست دینے میں ناکامی کے بعد اٹھایا گیا تھا۔ اس تنظیم کو ویت کانگ (Viet Cong) بھی کہا جاتا تھا جو جنوبی ویتنام میں جنگ کے دوران امریکی اور جنوبی ویتنامی حکومتوں کے خلاف لڑنے والی ایک بڑی سیاسی تنظیم تھی۔)

1968ء کی شروعات میں ویت کانگ نے نارتھ ویتنامیز آرمی کے ساتھ مل کر مشہورِ زمانہ تیت (Tt) حملہ لانچ کرتے ہوئے جنوبی ویتنامی قصبے ہوئے (Hue) پر قبضہ کرلیا۔ تیت حملہ درحققیت ریپبلک آف ویتنام کی ساؤتھ ویتنامیز آرمی، امریکی افواج اور ان کے اتحادیوں کے خلاف پورے جنوبی ویتنام میں اچانک حملوں کی ایک لڑی تھی۔ اس حملے کا نام ویتنامی نئے سال ‘تیت’ سے پڑا جب پہلا بڑا حملہ کیا گیا تھا۔

اس حملے کے دوران سیگون میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کیا گیا تھا جس کی وجہ سے امریکا کو کچھ عرصے کے لیے شمالی ویتنام پر بمباری روک کر ویت کانگ اور شمالی ویتنامی حکومت کے ساتھ پیرس امن مذاکرات شروع کرنے پڑے تھے۔ ویتنام میں 1968ء میں امریکا کی یہ پسپائی تھی جس کی وجہ سے واشنگٹن اس جنگ زدہ علاقے سے محفوظ راستہ تلاش کرنے کی کوششیں تیز کرنے پر مجبور ہوا۔

1965ء میں جب امریکا براہِ راست ویتنام جنگ میں داخل ہوا اور جب 1975ء میں وہ وہاں سے نکلا، اس دوران اس نے 58 ہزار فوجی اور 10 ہزار جنگی جہاز و ہیلی کاپٹر گنوائے، مگر پھر بھی وہ اس چیز کو شکست نہیں دے سکا جسے وہ انڈوچائنا میں ‘کمیونسٹ عفریت’ قرار دیتا تھا۔ عسکری تاریخ میں آج تک جنگ ہائے عظیم کے علاوہ کبھی اتنا بڑا جانی و مالی نقصان نہیں ہوا جتنا کہ ویتنام کی جنگ میں ہوا تھا۔

2018ء میں امریکا کے لیے افغانستان کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ ویتنام کی طرح افغانستان میں بھی امریکا گہرائی تک دھنستا جا رہا ہے جبکہ اس کے پاس نکلنے کے محفوظ راستے کم ہیں۔ افغانستان بھی امریکا کے لیے خزانے کا مسلسل زیاں ہے جس کے پاس عسکری کامیابی یقینی بنانے کے لیے کوئی بہتر نتائج موجود نہیں ہیں۔ مئی 2018ء کے فارن پالیسی میگزین کی رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ دفاع ایک غیر مستحکم ملک میں جنگ جیتنے کے امکانات کے حوالے سے افغانستان میں امریکی کارروائیوں کی ایک مایوس کن تصویر پیش کرتا ہے۔

حالانکہ 4 دہائیاں گزر چکی ہیں، مگر اب بھی ‘ویتنام سنڈروم’ کا لفظ امریکیوں کے لیے نفسیاتی مسائل کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

مگر ویتنام اور افغانستان کا موازنہ کرتے ہوئے ہمیں کچھ عوامل کو مدِ نظر رکھنا ہوگا جس کی وجہ سے امریکا ویتنام میں ناکام ہوا اور دونوں ممالک میں امریکا کے خلاف مزاحمت کو بھی مدِ نظر رکھنا ہوگا۔

3 بڑی وجوہات نے ویتنام میں امریکی ناکامی میں اہم کردار ادا کیا۔

پہلی وجہ

غیر ملکی جارحیت کے خلاف ویتنامی مزاحمین کا بلند عزم و ہمت۔ بھلے ہی یہ بہت غیر متوازن جنگ تھی جس میں امریکا کو ویت کانگ اور شمالی ویتنام کے خلاف واضح عسکری برتری حاصل تھی، مگر یہ قوم پرست جذبات اور حب الوطنی تھی جس نے امریکا مخالف جنگجوؤں کو امریکی فوجیوں اور ان کے جنوبی ویتنامی اتحادیوں کے خلاف سرگرم گوریلا جنگ میں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا کر ایک مؤثر جنگِ آزادی لانچ کرنے میں مدد دی۔

پے در پے شکستوں کے بعد جون 1968ء میں واشنگٹن نے ویتنام میں امریکی ملٹری کمانڈر جنرل ولیم ویسٹ مورلینڈ کو جنرل کریٹن ایڈمز سے بدل دیا۔ مگر کمان میں تبدیلی کا حقیقی اثر بہت ہی کم تھا۔ 1968ء میں امریکی ہلاکتوں میں اضافے اور ویت کانگ کی جانب سے گوریلا جنگ میں شدت آنے کے بعد امریکا بھر میں عوامی مظاہرے شروع ہوگئے۔

دوسری وجہ

دوسرا یہ کہ ویتنام جنگ کے خلاف مظاہروں کو 1968ء میں بڑھاوا ملا اور یہ پوری دنیا بالخصوص یورپ اور ایشیاء میں پھیل گئے۔ شمالی ویتنام کے کئی شہروں اور قصبوں پر امریکی بمباری نے لوگوں کو مشتعل کیا، جس کی وجہ سے ویتنام سے امریکی انخلاء کا مطالبہ کرتے مظاہرے پھوٹ پڑے۔ 16 مارچ 1968ء میں امریکی فوجیوں کی جانب سے مائی لائی کے گاؤں میں قتلِ عام، جس میں سیکڑوں شہری بشمول 56 شیر خوار بچوں کو قتل کیا گیا، کی تصاویر کا منظرِ عام پر آنا ایک اہم موڑ تھا۔ لوگوں میں ویتنام جنگ کا تاثر بدل گیا جبکہ اس قتلِ عام کی بین الاقوامی مذمت نے واشنگٹن کو شرمسار کردیا اور دنیا بھر میں امریکا مخالف جذبات بھڑک اٹھے۔

تیسری وجہ

تیسرا، ویتنام میں امریکا اپنی عوامی حمایت گنوا چکا تھا اور سیگون میں اس کی کٹھ پتلی حکومت امریکی عسکری موجودگی کے بجائے اپنی قوت برقرار رکھنے میں ناکام تھی۔

بڑی حد تک یہ 3 وجوہات تھیں جس کی وجہ سے امریکا ویتنام سے نکلنے پر مجبور ہوا جو افغانستان میں موجود نہیں ہیں، بھلے ہی تیسرے معاملے میں کچھ مماثلتوں کے بارے میں ایک دلیل تیار کی جاسکتی ہے۔

1968ء کی شروعات سے ہی امریکا کے لیے ویتنام میں ناکامیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا باوجود اس کے کہ دسمبر 1968ء تک امریکی افواج کی تعداد 5 لاکھ 40 ہزار تک جا پہنچی تھی۔ 16 جنوری 1968ء کو شمالی ویتنامی حکومت نے یہ واضح کردیا تھا کہ وہ تب تک کسی امن مذاکرات میں شریک نہیں ہوگی جب تک کہ امریکا اس کی سرزمین پر بمباری روک نہیں دیتا۔ نتیجتاً پیرس میں طے شدہ مذاکرات کے لیے سازگار ماحول بنانے کے لیے واشنگٹن نے 31 مارچ کو اعلان کیا کہ شمالی ویتنام پر بمباری کو جزوی طور پر روک دیا جائے گا۔ اس سے پہلے یکم مارچ کو امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ میک نمارا کو کلارک کلفورڈ سے تبدیل کیا گیا تھا۔

2018ء میں ٹرمپ انتظامیہ کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ افغانستان میں ہار جائے گی، نہ ہی امریکا میں یا دنیا بھر میں کہیں بھی افغانستان میں امریکی عسکری کارروائیوں کے خلاف عوامی مظاہرے ہورہے ہیں۔

ویتنام اور افغان جنگوں کے معاملات مختلف ہیں مگر کچھ کچھ معاملات میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں۔ ویتنام کے معاملے میں امریکی فوجی مداخلت کا دورانیہ 10 سال تھا اور جنوبی ویتنام، کمبوڈیا اور لاؤس میں امریکی افواج کی کل تعداد 5 لاکھ سے زائد تھی۔

افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت اکتوبر 2001ء سے جاری ہے جب 11 ستمبر کے حملوں کے بعد طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ مگر پھر بھی افغانستان میں امریکی افواج کی مکمل تعداد کبھی بھی ایک لاکھ سے اوپر نہیں گئی، اور وہ بھی 2010ء میں امریکی صدر اوباما کی انتظامیہ کی ‘سرج’ یعنی اضافے کی پالیسی کے تحت تھا۔

افغانستان میں امریکی فوجیوں کے زخمی و ہلاک ہونے کی تعداد 10 ہزار سے نہیں بڑھی ہے اور اس نے اس ملک میں صرف 100 کے قریب جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر گنوائے ہیں۔ مگر افغانستان میں امریکا کی جنگ کے مالی اخراجات ویتنام جنگ سے بڑھ چکے ہیں کیونکہ یہ اب تقریباً 2 دہائی پرانی ہوچکی ہے۔ افغانستان میں جنگی حکمتِ عملی ٹیکنالوجیکل عوامل کی وجہ سے کافی جدید ہے چنانچہ اس قبائلی ملک میں امریکی زخمیوں اور ہلاک شدگان کی تعداد ویتنام سے کم ہے۔

1968ء میں نکسن انتظامیہ اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ وہ ویتنام جنگ نہیں جیت سکتی، اور یہ کہ اسے ایک ایسی جنگ سے ‘باعزت’ اخراج تلاش کرنا چاہیے جس کی وجہ سے نہ صرف جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں رسوائی الگ ہو رہی ہے۔ مگر نکسن کے برعکس ٹرمپ نے اگست 2017ء میں اپنی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان میں جنگ جیتنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

ویتنام اور افغان جنگوں کے درمیان سب سے دلچسپ فرق مسلح جدوجہد کی نوعیت کا ہے۔ جہاں ویتنام میں ویت کانگ کی زیرِ قیادت گوریلا جنگ کافی مؤثر تھی، وہاں افغانستان میں یہ معاملہ نہیں ہے۔ ویسے تو افغانستان میں امریکا کے خلاف برسرِ پیکار مرکزی گروہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ ان کا آدھے افغانستان پر کنٹرول ہے، مگر پھر بھی وہ کابل میں امریکی افواج یا امریکا نواز حکومت کو بھاری نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ ویتنام کی نیشنل لبریشن موومنٹ اپنے ہی لوگوں پر حملے نہیں کر رہی تھی، علاوہ ان لوگوں کے جو سیگون میں امریکا نواز حکومت کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ پوری ویتنامی جنگ کے دوران کوئی ایسے خودکش حملے نہیں ہوئے جن میں غیر جنگجو افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہوں مگر افغانستان میں اب تک ہزاروں معصوم لوگ طالبان کے خودکش حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ غیر ملکی قبضے کے خلاف ایک عوامی تحریک اپنے ہی لوگوں پر حملے نہیں کرے گی۔ ویتنام میں معاملہ یہی تھا، افغانستان میں ایسا نہیں ہے۔

ویت کانگ اور اس کے شمالی ویتنامی اتحادیوں کو کمیونسٹ چین اور سوویت یونین سے کھلم کھلا عسکری معاونت حاصل تھی مگر طالبان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی مزاحمت کی بقاء کے لیے صرف منشیات کی فروخت سے حاصل کردہ پیسے اور امریکا نواز کابل حکومت کی افواج سے اسلحہ چھیننے تک محدود ہیں۔ طالبان کو ایران یا پاکستان کی عسکری امداد ملنے کی اطلاعات کے کوئی ثبوت موجود نہیں، اور ایسی کوئی بھی امداد کھلم کھلا تو بالکل بھی نہیں ہے۔

ویت کانگ اور شمالی ویتنام کی غیر ملکی قابضین کے خلاف جنگ کی بنیاد عزم، قوم پرستی، بہادری اور حب الوطنی پر قائم تھی جو کہ افغان جدوجہد میں موجود نہیں ہے۔ افغانستان میں سوویت فوجی مداخلت (دسمبر 1979ء سے فروری 1989ء تک) کے دوران سوویت افواج اور سوویت نواز کابل حکومت کے خلاف مزاحمت میں قومی اور مسلکی اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معاشرے کے تمام طبقات شامل تھے۔

آج افغانستان میں امریکا مخالف مزاحمت پختون اکثریتی جنوبی و مشرقی صوبوں میں مجتمع ہے جبکہ تاجک، ازبک اور ہزارہ برادری جو افغان آبادی کا تقریباً نصف ہے، وہ پختون سربراہی میں موجود طالبان گروہوں کا حصہ نہیں ہیں۔

ویتنام کی قومی تحریکِ آزادی کی بنیاد نظریاتی تھی جبکہ اس میں قوم پرستانہ جوش و جذبہ شامل تھا، یہ معاملہ طالبان کے ساتھ نہیں جن کی مرکزی توجہ وہی نظام قائم کرنے پر ہے جو کہ 1996ء سے 2001ء تک ان کے دورِ اقتدار کے دوران تھا۔ اس نظام کو عورت مخالف، اقلیت مخالف اور اسلامی شریعت کی ان کی سطحی تشریح پر مبنی سمجھا جاتا تھا۔ آج اس نظام کے خاتمے کے 17 سال بعد بھی کئی افغان شہری طالبان کے اس ظالمانہ دورِ حکومت سے نالاں ہیں۔

ویتنام جنگ کا از سرِ نو جائزہ لینے سے ہماری نظر امریکا کے ناقابلِ شکست ہونے کے تصور کے بکھرنے پر بھی پڑتی ہے، کیونکہ 10 سال طویل مداخلت کے باوجود امریکا کو ویتنام جیتے بغیر چھوڑنا پڑا تھا۔

افغانستان میں ویتنام کے برعکس مستقبل قریب میں امریکی انخلاء کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ افغانوں کی اکثریت کی زیرِ سربراہی کوئی متحد قومی تحریکِ آزادی موجود نہیں ہے۔ اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ واشنگٹن سنجیدگی سے انخلاء کی حکمتِ عملی پر غور کر رہا ہے۔ وہ افغانستان میں اسٹریٹجک، سیکیورٹی، سیاسی اور معاشی وجوہات کی بناء پر رہنا چاہتا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ ویتنام کے برعکس افغانستان میں مزاحمتی تحریک ایک باقاعدہ حکمتِ عملی، جذبے، عوامی حمایت اور اتحاد سے عاری ہے۔ اس کی وجہ سے غیر ملکی قوتوں کو جنگ سے تباہ حال ملک میں اپنا قبضہ جمائے رکھنے کے لیے کافی جگہ مل جاتی ہے۔

جہاں تک امریکا اور دنیا کی بات ہے تو افغانستان واضح طور پر ویتنام سے مختلف ہے۔ جنگ کے اختتام کے 43 سال کے بعد زبردست اقتصادی نمو اور ترقی کی وجہ سے ویتنام واضح طور پر آج بہتر ہے جبکہ افغانستان اپریل 1978ء کے سوئر انقلاب (Saur Revolution) سے اب تک غریب، غیر ترقی یافتہ اور مسلسل حالتِ جنگ میں نظر آتا ہے۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کی جانب سے صدر محمد داؤد خان کی حکومت کا تختہ الٹے جانے میں داؤد خان اور ان کے خاندان کے زیادہ تر افراد مارے گئے تھے۔

اس ‘انقلاب’ کے نتیجے میں نور محمد ترکئی کے بطور صدر ایک نئی حکومت وجود میں آئی جو 1979ء میں سوویت فوجی مداخلت کی پیشرو تھی۔ چنانچہ تمام انقلاب ایک جیسے نہیں ہوا کرتے۔

بیگم کلثوم نواز کی زندگی پر ایک نظر

$
0
0

بیگم کلثوم نواز مرحومہ نے خاتون اول اور سیاسی رہنما کی حیثیت سے انتہائی فعال کردار ادا کیا۔

بیگم کلثوم نواز29 مارچ 1950 کو پیدا ہوئیں، ان کا تعلق لاہور کے کشمیری خاندان سے تھا، کلثوم صاحبہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور انہوں نے جامعہ پنجاب سے اردو میں ایم اے کیا تھا۔
اس کے علاوہ 2017 میں نواز شریف کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کی حیثیت سے کلثوم نواز نے نواز شریف کی خالی نشست پر ضمنی الیکشن لڑا تاہم اسی دوران ان کی طبیعت بگڑی اور علاج کی غرض سے لندن چلی گئیں۔
بیگم کلثوم نواز نے این اے 120 سے کامیابی تو حاصل کرلی تاہم وہ رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے حلف نہ اٹھاسکیں۔ ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کے وقت کلثوم نواز کوما میں تھیں جب کہ نواز شریف اور مریم نواز بھی لندن میں ہی موجود تھے

کرتارپور دربار صاحب گوردوارہ ۔۔ دوریاں مٹنے لگیں

$
0
0

وزیراعظم عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں بھارتی مہمان نوجوت سنگھ سدھو نے شرکت کی جنھیں آرمی چیف بڑی گرمجوشی سے ملے ۔ سدھو جی نے کہا کہ آرمی چیف نے بات چیت کے دوران کرتار پور میں واقع دربار صاحب گوردوارہ کھولنے کا بھی عندیہ دیا۔ اس کے بعد وزیر اطلاعات نے بھی بیان دے ڈالا کہ ہم کرتار پور میں دربارصاحب گوردوارہ کھولنے کی تیاری کررہے ہیں اب صرف بھارت کی طرف سے اقدامات اٹھانے کا انتظار ہے۔ اس بیان سے جہاں فوادچودھری نے بال بھارت کے کورٹ میں پھینکی وہیں بھارت میں مقیم سکھ برادری کے 71 برس سے زائد عرصے سے سوئے ارمان جگا دئیے۔

جوں ہی خبر چلی ہمارے بھی ذہن میں خیال گردش کرنے لگے کے آج تک اس گوردوارے سے متعلق سن اور پڑھ تو بہت رکھا ہے مگر کبھی دیکھا نہیں لہذا زیارت کرنے کیلئے منصوبہ بندی مکمل کی اور اگلے ہی دن رخت سفر باندھ لیا۔

دربارصاحب گوردوارہ لاہور سے تقریبا 120 کلومیٹر دور ضلع نارروال میں شکر گڑھ روڈ پر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ کرتارپور گاوں بھارت کی سرحد کے ساتھ ہے اور گوردوارہ بھارتی سرحد سے تین سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس گورودوارے کی تعمیر پٹیالہ مہاراجہ بھوپندر سنگھ بہادر نے 1921 تا 1929کے درمیان کروائی تھی۔

address

شکرگڑھ روڈ سے جونہی نیچے کچی سڑک پر اترتے ہیں تو تھوڑی ہی دور آگے جانے کے بعد گورودوارے کا سفید گنبد نظر آنے لگتا ہے۔ کرتارپور وہ مقام ہے جہاں سکھوں کے پہلے گرونانک دیوجی مہاراج نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے اور ان کی سمادھی اور قبر بھی یہیں موجود ہے جو سکھوں اور مسلمانوں کیلئےایک مقدس مقام ہے۔ گورونانک دیوجی مہاراج 1521 کو یہاں آئے اور کرتار پور کے نام سے ایک نگر بسایا۔1539 تک آپ نے اسی استھان پر قیام کیا۔ یہاں رہ کر آپ نے کھیتی باڑی کی اور 3 درس دئیے۔

نام جپو: جس پروردگار نے پیدا کیا اس کی بندگی کرو۔

کرت کرو: اپنے ہاتھوں سے حلال روزی کماو۔

ونڈ چھکو: تمام تفرقات کو مٹا کر سب مل جل کر رہو۔

بابا جی کو سکھ مذہب کے لوگ اپنا گُرو اور مسلمان اپنا بزرگ مانتے تھے۔ روایت ہے کہ جب 1539 میں بابا جی کا انتقال ہوا تو مسلمانوں اور سکھوں میں ان کی آخری رسومات کو لے کر تفرقہ پڑ گیا۔ مسلمان ان کی میت کو دفنانا اور سکھ جلانا چاہتے تھے۔ آگے کیا ہوا اس پر مختلف آراء ہیں لیکن گوردوارے پر لکھے نوٹ کےمطابق ایک درویش نے کہا کہ میت پر چادر رکھو جب چادر اٹھائی گئی تو بابا جی کی میت چادر کے نیچے سے غائب ہوگئی اور پھول رہ گئے۔ پھر مسلمانوں نے آدھے پھولوں اورچادرکو دفنا دیا جبکہ سکھوں نے باقی آدھے پھولوں اور چادر کو سسکار کرکے سمادھ استھان بنادی۔ آج بھی یہ دونوں نشانیاں قائم ہیں اور دونوں مذاہب کے لوگ عقیدت کے پھول نچھاور کرنے آتےہیں۔

گوردوارے کی عمارت دو منزلہ اور بہت ہی خوبصورتی سے بنائی گئی ہے۔ پہلے گوردوارے پر سفید اور گولڈن رنگ ہوا تھا لیکن آج کل پوری عمارت کو سفید رنگ میں رنگ دیا گیا ہے جس کے باعث دور سے ہی پوری دودھیا عمارت واضح نظر آتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ بھارت میں موجود سکھ برادری بارڈر پار سے دوربینوں کے ذریعے گوردوارے کی زیارت کرتے ہیں۔ بھارتی بارڈر فورس نے سرحد پر ایک “درشن استھل” بھی قائم کیا ہوا ہے۔ باڈر کے اس پار سے یہ دودھیا عمارت کیسی نظر آتی ہوگی نہیں معلوم لیکن یہاں سے بھارتی سرحد پر لگے درخت واضح نظر آتے ہیں۔

گودوارے میں ایک بڑا لنگر خانہ ہے اور زائرین کے رہنے کیلئے کچھ شیڈ نما کمرے بھی بنائےگئےہیں۔ اس کےعلاوہ گوردوارے کے اردگرد چھوٹے سے باغ ہیں جہاں مور بھی ہوا کرتے تھے لیکن ہمیں نظر نہیں آئے۔ موروں کے پنجروں کے ساتھ ایک کنواں ہے جسے “سری کھوہ صاحب” کہا جاتاہے۔ کنویں کے ساتھ ہی ایک بم کا ٹکڑا بھی شیشے کے فریم میں نصب ہے کہا جاتاہے کہ یہ بم 1971 میں بھارت نے فائر کیا تھا جسے سری کھوہ صاحب نے اپنی گود میں لے لیا تھا اور گورودوارہ تباہ ہونے سے محفوظ رہا۔

اب پاکستانی حکومت نے بھارتی سکھ برادری کیلئے گوردوارے کو کھولنے کا عندیہ دے دیا ہے لیکن ابھی یہ کام فورا مکمل نہیں ہوسکتا کیوں کہ گورداورے سے بھارتی سرحد تک کے راستے میں نالہ بئیں اور دریائے راوی آتے ہیں۔ نالے اور دریائے راوی کو پار کرنے کیلئے بیڑے چلائے جاتے ہیں۔ فی الحال نالہ پار کرنے کی اجازت ہے لیکن راوی پار صرف وہاں کے زمیندار ہی جاتے ہیں۔ اب اگر حکومت نے یہ راستہ کھولنا ہے تو نالے اور راوی پر پل بنانا پڑے گا یا پھر بڑے بڑے بیڑوں اور کشتی کا انتظام کرنا پڑے گا۔ گوردوارے سے نالہ بئیں تک کی سڑک پر پتھر موجود ہیں جو کہ مشرف دور میں حکومت نےبھارتی سکھوں کیلئے یہ راستہ کھولنے کی غرض سے بچھائےتھے۔

یہ مقام سکھ برادری کیلئے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے لیکن پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تعلقات کے بعد گوردوارہ دربار صاجب ایک لمبے عرصے تک بند رہا۔ اور جب کھلا تو بھارت میں بسی سکھ برادری کو ویزہ نہیں ملتا تھا۔ اب پاکستان نے نہ صرف سکھ برادری کیلئے اسے کھولنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے بلکہ سکھوں کو بغیر ویزہ زیارت کرائی جائےگی۔ اس ارادے کو عملی جامہ بنانے کیلئے گوردوارے میں کام بھی زوروں سے جاری ہے۔ مقامی لوگوں کا کہناہے کہ یہ جلد آنے والے میلے کی تیاری ہے۔ میلے کی تیاری ہو یا اس کھولنے کی تیاری اب کی بار ماضی کی تلخیوں کو پس پشت ڈال کر سکھوں کے اس دیرینہ مطالبے پر کچھ پیش رفت ہوجانی چاہئے۔

Viewing all 215 articles
Browse latest View live